الیکشن کے لیڈرس

مدثراحمد
شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
سماج میںبیشمارایسےحلقے ہیں جہاں پر مختلف لوگوں کی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے،مگر یہ سمجھاجاتاہے کہ الیکشن ہی قیادت کا اصل شعبہ ہےاورلوگ لیڈرشپ کامعنی کارپوریٹر بننا، ایم ایل اے الیکشن میں کھڑے ہونا،ایم پی ہونے کا دعویٰ کرنا،ایم ایل سی بننے کی چاہ رکھناہے،لیکن ایسانہیں ہے۔لیڈرشپ کرنے کیلئے مختلف شعبے ہیں ،وہاں لیڈرشپ کی بہت ضرورت ہے۔مثال کے طورپر اگرکوئی شخص بزنس مین ہے تو وہ بھی لیڈربن سکتاہے،اگرکوئی ڈاکٹرہے تووہ بھی لیڈربن سکتاہے،اگرکوئی وکیل ہے تو وہ بھی لیڈربن سکتاہے،اگرکوئی صحافی ہے تو اُسے بھی لیڈربننے کا موقع مل سکتاہے،اگر کوئی استادہے تو وہ بھی لیڈربن سکتاہے،اگرکوئی درزی ہے تووہ بھی لیڈربننے کی صلاحیت رکھتاہے،لیکن اس کیلئے اسے اپنے پیشے کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ اپنے ہی پیشے میں رہ کروہ اپنے پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی قیادت کرسکتاہے۔الیکشن لڑکرہی کوئی لیڈرنہیں بن سکتا،نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے۔عام طورپر یہ سمجھاجاتاہے کہ جب تک کارپوریٹر ،ایم ایل اے یا ایم ایل سی نہ بن جائیں تو اُس وقت تک لوگ اُسے لیڈرنہیں مانتے۔مثال کے طورپر اگرکوئی شخص ڈاکٹرہے تو وہ سب سے پہلے اپنے پیشے کے ساتھ وفاداری کرتےہوئے اپنے کام کو صحیح ڈھنگ سے انجام دے،لوگوں کی جان بچانے کا کام کرے،لوگوں کے درمیان اپنی خدمت اور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے نام کرے۔دوسرےڈاکٹروں کیلئے نمونہ بنےاورانسانیت کی خدمت کے پیغام کو عام کرےتو یہ اپنے پیشے کا لیڈربن سکتاہے۔یہی لیڈرشپ کی کوالیٹی اسے آگے تک لے جاسکتی ہے۔اسی طرح سے کوئی وکیل ہے تو وہ اپنے کیسس کو صحیح طریقے سےنبھائے ،لوگوں کو انصاف دلائے،لوگوں کے درمیان رہ کر اُن کے مسائل کو حل کرےتو آگے چل کر اس کی پہچان بنے گی،لوگ اسے اچھے وکیل کے طورپر جانیں گے،لوگ اس کی وکالت کی مثال دینگے،اگروکیل یہ چھوڑکر الیکشن کارُخ کرنے لگے گا تو نہ وہ اچھا وکیل بن سکتاہے،نہ ہی اچھالیڈربن سکتاہے،کیونکہ اس کے بھروسے پرجولوگ مقدمے دئیے ہوتے ہیں اُن کی تو واٹ لگ جائیگی۔اسی طرح سے ایک ٹیچر سماج کیلئے اچھا لیڈربن سکتاہے،اپنے اسٹوڈینٹس کی تربیت بہتر طریقے سےکرتے ہوئے وہ نہ صرف اچھی نسل تیارکرسکتاہے بلکہ آنےوالے دنوں کیلئے سماج کے ہر شعبے کیلئے لیڈربناسکتاہے،اس کیلئے ایک استادکو اپنے پیشے سے وفاداری کرنی ہوگی،ایمانداری کے ساتھ کام کرناہوگا،تب جاکروہ ایک اچھا لیڈر بن سکتاہے۔اسی طرح سے صحافی بھی اپنے شعبے میں خدمات انجام دیتے ہوئے لیڈرشپ قائم کرسکتاہے،آج معاشرے میں صحافت ایسا شعبہ ہے جس کے ذریعے سے ایک صحافی نہ صرف اپنے پیشے کے ذریعے لوگوں تک خبریں پہنچانے کا کام کرتاہےبلکہ وہ سماج کے درمیان رابطے کا کام بھی کرتاہے۔ہزاروں صحافیوں کے درمیان مٹھی بھرایسےصحافی ہیں جو قوم وملت کا دردرکھتے ہیں،ایسے صحافیوں کے ذریعے سے سماج بہترطریقے سے کام لے سکتاہے اوریہ لوگ سماج کیلئے قابل لیڈربن کر ابھرسکتے ہیں۔مگرافسوسناک پہلویہ ہے کہ آج اکثر نوجوان ایسے ہیں جو چنددن تک قوم وملت کی خدمت کا جذبہ لیکر نکلتے ہیں،تنظیمیں بناتےہیں،ادارے بناتے ہیں پھر الیکشن کی چنگاری ان میں لگ جاتے ہیں اورجس مقصدکے تحت ادارے وتنظیمیں بناتے ہیں وہ پوری طرح فوت ہوجاتاہےاورپھر ان کے دماغوں میں صرف الیکشن کوبھوت چڑجاتاہے۔سماج،قوم وملت کی خدمت کرنے کیلئے الیکشن ہی واحد راستہ نہیں ہے اور اس راستے پر ہرکسی کو کامیابی ملے یہ بھی ضروری نہیں ہے۔آج کے دورمیں خصوصاً مسلمانوں قو وملت کی قیادت کیلئے ہر شعبے میں لیڈرس کی ضرورت ہے،جب تک یہ کمی پوری نہیں ہوتی ،اُس وقت مسلمانوں میں قیادت کی جو کمی ہے وہ دور نہیں ہوگی،اس لئے نوجوان طبقہ اور پیشہ وار لوگ صرف الیکشن کا مقصدرکھ کر کام کرنے کے بجائے حقیقت میں لیڈربننے کی طرف اپنے قدم بڑھائیں۔یہ بہت بڑی قیادت کی بنیاد ہوسکتی ہے۔

 

Comments are closed.