جمعہ نامہ: اصلاح معاشرہ سے صرفِ نظر کا بھیانک انجام

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلہء رحمی کا حکم دیتا ہےاور بدی اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘۔ قرآن مجید کی یہ آیت  ہر جمعہ کے خطبے میں پڑھی جاتی ہے مگر بہت کم لوگ اسے سمجھ کر اس سے سبق لیتے ہیں۔ ان احکامات کو عملی جامہ پہنانے میں  کوتاہی کے  کس قدر بھیانک نتائج نکلتے ہیں اس کی  مثال پچھلے دنوں الہ باد ہائی کورٹ میں اس وقت  سامنے آئی جب ایک ہندو جج کو مسلم خاتون سے کہنا پڑا کہ قانونی طور پر شادی شدہ مسلم خاتون ازدواجی زندگی سے باہر نہیں جا سکتی اور نہ ہی شریعت کے مطابق وہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ ایسا رشتہ زنا اور حرام سمجھا جائے گا۔ مذکورہ خاتون نے جب  اپنے اور مرد ساتھی کی جان کو خطرے کا حوالہ دے  کر جب عدالت سے رجوع کرکے  والد اور رشتہ داروں سے تحفظ کی گہار لگائی توجسٹس رینو اگروال کی بنچ  کو یہ کہنا پڑا۔ عدالت کا فیصلہ تھا کہ وہ  اس  "مجرمانہ فعل” کی  حمایت نہیں کر سکتی کیونکہ  درخواست گزار (عورت) مسلم قانون (شریعت) کی دفعات کے خلاف  ہندو مرد کے ساتھ لیو ان پارٹنر کی حیثیت  سے  رہ رہی ہے جبکہ اس نے  اپنے شوہر سے طلاق کے حوالے سے مناسب اتھارٹی سے کوئی حکمنامہ (حکم) بھی  نہیں لیا ہے۔

یوپی کے مظفر نگر ضلع کی اس   بدنصیب شادی شدہ   خاتون نے مذکورہ بالا آیت میں منع کردہ تینوں منکرات کا کھلے عام  ارتکاب کیا۔ پہلے تو وہ غیر مرد کے ساتھ    زنا کی   بدکاری  میں ملوث ہوگئی ۔ اس کے علاوہ  بڑی بے حیائی کے ساتھ   اپنے گناہ  پر اصرار کرتے ہوئے عدالت تک جاپہنچ کر ظلم و زیادتی کی خواستگار بن گئی۔ اس طرح کی کردار باختہ  عورت سے اس کے  اہل خانہ کا ناراض ہونا فطری بات ہے۔ ان   کے خوف سے اس  خاتون نے اپنی جان کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے تحفظ  کی اپیل کردی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے اعزہ و اقربا  سے ڈرنے والی  عورت کے دل میں خدا خوفی بالکل   ندارد تھی ورنہ وہ اس  قبیح فعل سے اجتناب کرتی اور اسے عدالت سے ناکام و نامراد نہیں لوٹنا پڑتا۔   جسٹس رینو اگروال  کاقضیہ  کے تمام حقائق کو سمجھنے کے بعد  درخواست گزار کو سیکیورٹی فراہم کرنے سے انکار کر کے ایک مستحسن اقدام کیا ہے کیونکہ ممکن ہے اس سے وہ عورت اصلاح کی جانب مائل ہو۔ 

عدالت کے اس فیصلے سے یوگی راج میں ہندو توا نواز عناصر تو بہت ناراض ہوئے ہوں گے مگر مسلمانوں کا سر بھی شرم سے جھک گیا کیونکہ اس قضیہ میں  ایک مسلمان خاتون  شریعت کے خلاف فیصلہ مانگ رہی تھی اور باطل عدالت کے ذریعہ  اس کو اسلامی معاشرت کا سبق یاد دلایا جارہا تھا ۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا  آیت میں منکرات سے پہلے ان معروفات کا ذکر کیا گیا ہے جن کو نظر انداز کرنے کی صورت میں شیطان کے لیے انسان کو بہکا کر دین فطرت کی خلاف ورزی کروانا آسان ہوجاتا ہے۔  ان میں سب سے اہم عدل ہے اور پھر احسان اور آخر میں  صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے۔  اس کیس کے مطابق درخواست گزار کی شادی محسن نامی شخص سے ہوئی تھی ۔ اس نے دو سال قبل دوسری شادی کی  اور وہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہنے لگا۔ اس کے بعد پہلی بیوی یعنی درخواست گزار اپنے میکے چلی گئی  اور اپنے شوہر کے ناروا سلوک  سے تنگ آکر ایک ہندو شخص کے ساتھ رہنے لگی۔

دین اسلام نے محسن کو دوسرے نکاح کی اجازت اس شرط کے ساتھ  دی ہے کہ وہ دونوں بیویوں کے درمیان عدل  کرے گا لیکن اسلامی شریعت کے اس تقاضے سے انکار نے بدکاری و بے حیائی کا دروازہ کھول دیا۔  مذکورہ خاتون کے گناہ میں محسن کا  بھی  بلا واسطہ  حصہ   ہے کیونکہ اگر  وہ دونوں بیویوں  کے ساتھ برابر کا سلوک کرتا تو ممکن ہے وہ خاتون  دین کے خلاف اس ڈھٹائی کے ساتھ بغاوت نہ  کرتی  ۔   محسن اگر اپنی پہلی زوجہ کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا تو اس کے لیے  گناہ کے راستے میں اس قدر دور نکل جانا مشکل ہوتا۔  اس عورت کے والدین  اور پورے  سماج نے صلہ رحمی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے   اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری ادا کرنے میں جو کوتاہی کی ہے  ممکن ہےاس کے ردعمل میں وہ  خاتون  دین حنیف  سے بیزار ہوگئی ہو۔ عدالت نے 23 فروری کو اپنے فیصلے میں  یہ بھی   کہا چونکہ مسلم خاتون نے مذہب کی تبدیلی کے لیے متعلقہ اتھارٹی کو کوئی درخواست نہیں دی ہے اور اپنے شوہر سے طلاق بھی نہیں لی ہے، اس لیے وہ کسی بھی قسم کے تحفظ کی حقدار نہیں ہے ۔

عدالت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ  یہ فعل  لیو ان ریلیشن شپ یا فطری  تعلق کے دائرہ میں بھی  نہیں آتا ہے بلکہ درخواست گزار خاتون کی  یہ حرکت تادیبی  جرم کے زمرے میں آتی ہے اور  اس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 494 اور 495 کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ جسٹس رینو اگروال  نے چونکہ کوئی کاروائی کرنے کے بجائے  صرف زبانی تنبیہ پر اکتفاء کیا ہے اس لیے اصلاح حال کا مکان  بہت کم ہے۔  اس خاتون کو  راہِ راست پر لانے کی خاطر  اہل خانہ کا صرف ڈرانا  دھمکانا بھی کافی نہیں ہے۔ عدل و احسان  اور صلہ رحمی کے تقاضوں کو کماحقہُ  پورا کیے بغیر قلب کی تبدیلی نہیں ہوتی ۔   دین اسلام کے معروفات و منکرات  کے اثرات   ایک دوسرے  پر منحصر اور  باہم  منسلک ہیں اور ان  کے اشتراک سے رجوع الی اللہ کا دروازہ کھلتا ہے۔    فرمانِ ربانی ہے:’’البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کریں اور جو کچھ چھپاتے تھے ، اسے بیان کرنے لگیں ، ان کو میں معاف کردوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں‘‘۔ بندوں کے لیےتوبہ کا دروازہ چونکہ ہمیشہ  کھلا رہتا ہے اس لیے بندگانِ خدا  اس  کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے ۔ حق کا اعتراف  اور اس کے تقاضوں کوپورا کرناسچی توبہ کی علامت   ہے۔ خدائے برحق سے عفو و درگزر کی امید ہمیشہ  باقی رہتی ہے ۔

 

Comments are closed.