Baseerat Online News Portal

گجرات کا سفر اور ایک عظیم علمی خانوادہ (پہلی قسط)

 

 

تحریر: بدرالاسلام قاسمی

استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

 

شعبان کے مہینے میں سالانہ امتحان سے فارغ ہونے کے بعد رمضان سے پہلے کے جو کچھ دن ہوتے ہیں چھوٹے مدرسے کے اساتذہ کے لیے یہی اصل چھٹی اور آرام کے دن ہوتے ہیں، بڑے مدارس کے اساتذہ ان ایام میں کاپیوں کی چیکنگ میں مصروف ہوتے ہیں، ان کے لیے آرام کا وقت اسباق بند ہونے (10/15 رجب) سے لے کر امتحان تک کا ہوتا ہے جس میں وہ ملک و بیرون ملک اجلاس وغیرہ میں سفر کی ترتیب بناتے ہیں،

پورے سال کی تدریس، خانگی ذمہ داریاں اور ذہنی، فکری و معاشی مصروفیات میں سے کچھ وقت آرام کے لیے نکالنا بہت ضروری ہے، اس سے ذہن کو تازگی اور روح کو بالیدگی میسر آتی ہے، ایک نشاط انگیز سکون ملتا ہے، جو مستقبل کے کاموں کو انجام دینے میں بڑا معاون ثابت ہوتا ہے، چند ماہ قبل راقم اپنے احباب کے ساتھ آگرہ گیا تھا، تقریباً تمام سیاحتی مقامات دیکھنے کے بعد جب دیوبند آنا ہوا تو کچھ ساتھیوں نے سوال کیا کہ آپ نے آگرہ کا سفرنامہ کیوں نہیں لکھا؟ تو اس کا جواب یہی تھا کہ تاج محل کی خوب صورتی، اس کی دلکشی و دلفریبی، دیدہ زیب نقاشی، اس پر اعلیٰ قسم کی خطاطی، جا بجا کندہ آیات کے انتخاب میں ملحوظ رکھے گئے نکات وغیرہ کے شایانِ شان میرے پاس الفاظ نہیں، تاج محل لکھنے کی نہیں، دیکھنے کی چیز ہے. اس تین روزہ سیاحت نے ہمیں کئی ماہ کا نشاط بخشا، ذہنی سکون میسر آیا اور کچھ لازوال یادیں قلب و دماغ کا حصہ بن گئیں.

 

جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے سالانہ امتحان سے فارغ ہونے کے بعد رفیق مکرم مفتی عبید انور شاہ صاحب کے ساتھ گجرات جانے کا ارادہ ہوا، اصل مقصد تھا اپنے نہایت مخلص و کرم فرما رفیق مولانا مصباح الدین قاسمی بڑودوی سے ملاقات، جو پچھلے کچھ ماہ سے کمر کی شدید تکلیف میں مبتلا ہیں، ان کی عیادت کے لیے یہ سفر طے پایا.

 

مؤرخہ 2 مارچ بروز ہفتہ رات میں ایک بجے ہماری ٹرین تھی چھتیس گڑھ ایکسپریس، عشا کے وقت ہوئی اچانک بارش کی وجہ سے موسم کافی سرد تھا، اس پر ٹھنڈی ہوائیں مستزاد، دیوبند ریلوے اسٹیشن پر پچھلے کئی سالوں سے "تزئین کاری” کا کام جاری ہے، پہلے یہاں ریلوے کی سنگل لائن ہوتی تھی، لیکن اب سے جنکشن بنانے کا کام جاری ہے، عنقریب یہاں سے روڑکی و ہریدوار کے لیے بھی ٹرین دستیاب ہوں گی، اس تزئین کاری میں ملک کی بدلتی سیاسی صورت حال کی بھی عکاسی نظر آتی ہے کہ دیوبند ریلوے اسٹیشن پر کھڑی کی گئی دیواریں اور مین گیٹ وغیرہ پر موجود عمارتی طرز اکثریتی فرقے کی نمائندگی کرتا ہے. خیر! وتلک الایام نداولھا بین الناس

 

آج چوں کہ دارالعلوم میں بخاری شریف کا پرچہ تھا، اس لیے کافی طلبہ اسٹیشن پر موجود تھے، صبح تقریباً ساڑھے چار بجے ہم حضرت نظام الدین پہنچے، وہاں کچھ انتظار کیا اور چھ بجے ترویندرم راجدھانی کے اے سی 3 کوچ میں سوار ہوئے، رات کی تکان تھی تو کچھ گھنٹوں کی نیند نے کافی سکون بخشا، آنکھ کھلی تو ریلوے کی جانب سے فراہم ناشتہ میسر آیا، دوپہر میں ویج کھانا، اس کے بعد آئس کریم اور شام مختصر سا ناشتہ. دوپہر کا کھانا مناسب لگا، دال، روٹی، سبزی، دہی اور اچار.

 

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے ہماری اکثریت کو حقیقی دنیا سے نکال کر ایک خیالی و مصنوعی دنیا میں اس حد تک مگن کر دیا ہے کہ اسے قریب میں بیٹھے فرد، اس کے حالات و نظریات سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں رہی، پہلے دوران سفر لوگ ایک دوسرے کے احوال دریافت کرتے، ملکی حالات پر تبادلہ خیال کرتے، اس دوران ہر آدمی اپنے ظرف کے مطابق نرم گرم گفتگو کرتا، کچھ غلط فہمیاں دور ہوتیں تو کچھ کو اپنے اعتراضات کا جواب مل جاتا، لیکن اب تقریباً سب کے ہاتھ میں موبائل، کانوں میں بلو ٹوتھ اور یوں سفر مکمل، نہ اب چلتی ٹرین سے باہر کے قدرتی مناظر دیکھنے کا کوئی شوق، نہ ہی ان پر کسی تبصرے کا کوئی ارادہ. بسا اوقات اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی مجلس میں بیٹھے موبائل پر غیر ضروری چیزوں میں نگاہیں جمائے رہتے ہیں، خواہ ان کا شریک مجلس اسی سے محو گفتگو اور توجہ کا طالب ہو.

 

شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب ہم بڑودہ اسٹیشن پر پہنچے، جو اپنی صفائی ستھرائی اور وسعت کی وجہ سے ایک اچھا تاثر قائم کرتا ہے. ہمارے میزبان دوست اور مفتی عبید انور شاہ کے عربی دوم سے دورہ حدیث تک کے درسی ساتھی جناب مولانا سید وحید الدین قاسمی ہمیں لینے آئے، گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا اور بڑودہ کے مسلم اکثریتی علاقے "تاندلجہ” میں واقع اپنے نئے مکان کی جانب رواں دواں ہوئے.

 

اس پانچ روزہ سفر کا خلاصہ دو چیزیں ہیں، ایک تو ہمارے میزبان کے خانوادے کا مکمل تعارف، دوسرے دوران سفر جن مدارس، مکاتب اور مساجد وغیرہ میں جانے کا موقع ملا ان کا مختصر تذکرہ.

 

گجرات کی ایک عظیم علمی شخصیت : حضرت مولانا مفتی سید شمس الدین بڑودوی

 

ہمارے میزبان محترم جناب مولانا سید مصباح الدین و مولانا سید وحید الدین کے دادا کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں :

 

حضرت مولانا مفتی سید شمس الدین کے دادا سید بہاء الدین احمد آباد سے بڑودہ تشریف لائے، مولانا شمس الدین کی ولادت 1902 میں بڑودہ میں ہوئی، اسکول میں انگریزی تعلیم حاصل کی، گھریلو متدین ماحول کی برکت کہ ذاتی شوق سے اس دوران 19 پارے حفظ کر ڈالے، اتفاقاً ایک سفر میں کسی صاحب نے ان کو غیرت دلائی کہ اتنے عظیم خاندان کا فرد باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہ کرکے عصری علوم میں وقت لگا رہا ہے، اس واقعے نے ان کے قلب و فکر کو اتنا متاثر کیا کہ اسی وقت باقاعدہ طور پر عالم دین بننے کی ٹھان لی، گھریلو غربت اور تنگ حالات کے باوجود سورت جانے کا ارادہ کیا، ارادہ تو مدرسہ اشرفیہ راندیر میں داخل ہونے کا تھا، لیکن جامعہ حسینہ راندیر کے بانی حضرت مولانا محمد حسین راندیری کی اتفاقی ملاقات اور نگاہ التفات سے اسی مدرسے میں داخل ہو گئے، اس وقت اس ادارے میں کل 17 طلبہ تھے اور شعبہ حفظ کا تنہا طالب علم یہی "شمس الدین بڑودوی”.

اسی ادارے سے انھوں نے 1341ھ میں سند فراغت حاصل کی اور یہیں اپنے استاذ و مربی کی نگرانی میں تدریسی خدمت پر مامور ہو گئے، 1925 میں جس وقت حضرت مولانا سید عبد الرحیم لاجپوری (صاحبِ فتاوی رحیمیہ) اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے آئے تو مفتی شمس الدین صاحب مدرس بن چکے تھے، گویا گجرات کی علمی دنیا پر چکمتے یہ دونوں ستارے (مفتی شمد الدین بڑودوی اور مفتی عبد الرحیم لاجپوری) اسی عظیم شخصیت (حضرت مولانا محمد حسین راندیری، بانی مدرسہ حسینیہ راندیر) کے خصوصی تربیت یافتہ تھے. مقبول و کامیاب مدرس اور دل میں اصلاح امت کا جذبہ رکھنے والی اس شخصیت کو مولانا حسین راندیری نے جنوبی افریقہ بھیج دیا، جہاں انھوں نے تین سال تک امامت و خطابت، مکتب کی تعلیم اور وہاں سر ابھارتے ہوئے فتنہ قادیانیت کے استیصال کی عظیم خدمات انجام دیں، اس فتنے کی سرکوبی کے لیے انگریزی زبان میں کچھ مفید رسائل لکھے اور بہت سے لوگوں کو اس کفر سے تائب کرایا. تین سال کے بعد انھیں اس وقت کے قوانین کے مطابق ایک درخواست پر جنوبی افریقہ کا حق شہریت حاصل ہو سکتا تھا، لیکن انھوں نے مستقبل کے لئے اپنا میدانِ عمل ہندوستان کو بنانے کو ترجیح دی.

 

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں

اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے، اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے

 

حضرت موصوف کا علمی مقام اتنا بلند اور عظیم تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے سابق صدر مفتی حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن شاہجہاں پوری نے ایک مجلس میں علمائے گجرات کے تذکرے کے ضمن میں فرمایا :

"گجرات میں چار شخصیتوں کا علم بہت پختہ ہے: حضرت مولانا علی محمد صاحب تراجوی، حضرت مولانا مفتی اسماعیل بسم اللہ صاحب، حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب بڑودوی، حضرت مولانا مرغوب احمد لاجپوری”

 

حضرت موصوف امانت و دیانت اور طلبہ کے تئیں تربیتی امور میں کتنے سنجیدہ، بلکہ سخت گیر واقع ہوئے تھے اس کا اندازہ ان کے اس ملفوظ سے لگتا ہے :

” تمہاری قابلیت و لیاقت نہ ہونے کے باوجود جو ممتحن تم کو نمبر دیتا وہ تمہیں الٹی چھری سے ذبح کرتا ہے. ”

 

1341ھ میں فراغت کے بعد شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے ہاتھوں پر بیعت ہوئے اور تاحیات ان سے والہانہ و عقیدت مندانہ تعلق قائم رکھا، جمعیت علمائے ہند کی ہر تعلیمی، سیاسی، تبلیغی اور مالیاتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی اور حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب وغیرہ جیسے اکابر کے ساتھ مسلسل اسفار، مکتوبات کا باہمی تبادلہ اور جمعیت کے لیے شبانہ روز جدوجہد ان کی زندگی کا ایک نمایاں باب ہے.

 

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ سے قلبی عقیدت رکھتے اور ان کی علمی پختگی کا تذکرہ فرماتے، نیز امام العصر حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ ایک مرتبہ جامعہ حسینیہ راندیر تشریف لائے تو ترمذی شریف (کتاب الحج) کے کچھ اسباق میں شرکت اور علامہ کشمیری کے تلمذ کو اپنے لیے باعث سعادت جانا.

 

ریاکاری، اظہار و نمود اور دوسروں کی جدوجہد کو بلا تکلف اپنی جانب منسوب کرنے کے اِس دور میں حضرت مفتی سید شمس الدین بڑودوی کے اس کارنامے کا تذکرہ لازم ہے کہ انھوں نے حضرت شیخ الہند کا ترجمہ قرآن کریم اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کے تفسیری حواشی کا گجراتی زبان میں ترجمہ کیا اور چونکہ اس کام کی ابتدا (پہلے پارے کے فقط 7 یا 8 رکوع) مولانا عبد الرحیم صادق راندیری صاحب نے کی تھی، اسی ابتدا کی قدر کرتے ہوئے اپنی پوری محنت کو مخفی رکھا، چنانچہ یہ گجراتی ترجمہ ہندوستان و پاکستان میں مولانا عبد الرحیم صادق راندیری کے نام سے شائع ہوا جس پر ایک طویل علمی مقدمہ مترجم کی جانب سے موجود ہے.

 

ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں قرآن کریم ناظرہ سے قبل بچوں کو حروف شناسی اور مفردات کو مرکبات میں تبدیل کرنے کی مختلف شکلوں سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے "قاعدہ بغدادی” کا رواج تھا، حضرت موصوف نے بچوں کو اس میں مزید پختہ کرنے اور بغیر تجوید کی گاڑھی و اصطلاحی زبان استعمال کیے 1355 ھ میں "احسن القواعد” نام سے ایک شاندار اور آسان قاعدہ مرتب کیا، جس میں ہر سبق تجوید کے کسی نہ کسی قاعدے مثلاً اظہار، اخفاء، لین، ادغام وغیرہ کی مشق کراتا ہے، یہ قاعدہ گجرات و مہاراشٹر کے اکثر مکاتب کا لازمی جزو ہے، اگرچہ اب بہت سی جگہوں پر پر "نورانی قاعدہ” نے بھی اپنا حلقہ بنا لیا ہے، تاہم دونوں کی افادیت اپنی اپنی جگہ پر مسلم ہے.

 

راقم کو ذاتی طور پر بالکل چھوٹے بچوں کے لیے نورانی قاعدے کی ہدایات اور قواعد کو رٹوانا ان کے لیے ایک بوجھ لگتا ہے، اس سفر میں ہم نے بعض مکاتب میں احسن القواعد پڑھانے کا جو نظام دیکھا وہ لاجواب، شاندار اور بے مثال پایا. اس کا کچھ تذکرہ آگے آئے گا. ان شاء اللہ

البتہ ناظرہ قرآن کریم کی تکمیل کے بعد حفظ قرآن سے قبل نورانی قاعدہ کے قواعد یاد کرانا اور کوئی ہلکی پھلکی تجوید کی کتاب پڑھانا مفید ہو سکتا ہے. وللناس فیما یعشقون مذاہب

 

حضرت موصوف کی تحریری خدمات میں علمی گہرائی و گیرائی لیے وہ تحقیقی و تفصیلی فتاوی بھی ہیں جو انھوں نے 1360ھ سے 1363ھ تک جامعہ حسینیہ راندیر میں بحیثیت صدر مفتی تحریر فرمائے تھے.

 

شہر بڑودہ کی جامع مسجد میں انھوں نے کئی سال تک امامت و خطابت اور اصلاح کے فرائض انجام دیے، اس دوران بڑودہ شہر میں نسل نو کے ایمانی تحفظ اور دینی تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے ایک "دارالعلوم” قائم کرنے کی ان کی بڑی خواہش تھی، جس کے لیے انھوں نے26 ذی الحجہ 1376ھ کو گجرات و ملک کے اکابر علماء کرام (حضرت مدنی، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا، امیر تبلیغ مولانا محمد یوسف صاحبان وغیرہم کی خدمت میں مکتوب روانہ کیا، جس میں ان سے اس عظیم دینی خدمت کے لیے دعا کی درخواست کی گئی. اس مکتوب کے جواب میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے جو نصیحت فرمائی وہ نہایت عمدہ اور آج کل دینی خدمت کا جذبہ رکھنے والے افراد کے لیے نمونہ عمل ہے، لکھتے ہیں :

"شروع ہی سے بڑے پیمانے کا ارادہ نہ فرمائیں، اللہ کا نام لے کر معمولی صورت سے شروع کر دیں، کارکنوں میں اخلاص ہوگا تو ان شاء اللہ تعالیٰ ترقی ہوتی رہے گی.” (زکریا، مظاہر علوم، 3 محرم الحرام 1377ھ)

 

اصلاح المسلمین : ایک کامیاب تعلیمی، رفاہی اور اصلاحی تنظیم

 

1925ء میں آریہ سماجی اور دیگر ہندو تنظیموں کی جانب سے ارتداد اور” گھر واپسی” کی باقاعدہ تحریک شروع ہوئی، البتہ اس وقت کے اکابر علماء کی بر وقت توجہ نے اس فتنے کو ابھرنے سے پہلے ہی ختم کر دیا، تاہم 1952ء میں یہ تحریک پُر زور انداز میں شروع ہوئی اور وہاں کی ایک مسلم برادری "مولائے اسلام گراسیہ قوم” کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ لوگ دراصل راجپوت ہندو تھے اور انھیں طاقت کے زور پر اسلام قبول کروایا گیا تھا اور اب یہ اپنی مرضی سے واپس اپنے آبائی دھرم کی طرف لوٹ رہے ہیں. بڑے پیمانے پر اس طرح کے شدھی کرن کے اجتماعات کا خفیہ پروگرام تشکیل پا رہا تھا کہ اس کی اطلاع کسی طرح مفتی شمس الدین بڑودوی کو ملی، انھوں نے فورا اکابر علماء سے رابطہ کیا اور گجرات کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ سیاسی و سماجی ہر پیمانے پر اس پروگرام کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی، بر وقت آگاہی کی بنا پر یہ پروگرام اپنے ہمہ گیر انداز میں کامیاب نہ ہو سکا. چند بد نصیب افراد ان کے دام میں آئے، بقیہ کو اللہ نے دین برحق پر باقی رکھا، تاہم یہ ایک وارننگ تھی اور مستقبل میں ہونے والے کسی بھی عظیم حادثے کی پیشین گوئی، چنانچہ ملت کا درد رکھنے والے افراد 12 مارچ 1953ء کو قدیم دینی درس گاہ جامعہ تعلیم الاسلام، آنند، گجرات میں جمع ہوئے جہاں عوام کی دینی، اصلاحی، تعلیمی اور رفاہی تنظیم "اصلاح المسلمین” کا قیام عمل میں آیا جس میں اتفاق رائے سے حضرت مولانا عبد الرحیم صادق راندیری کو اس کا صدر اور حضرت مولانا سید شمس الدین بڑودوی کو ناظم منتخب کیا گیا.

اس وقت سے آج تک یہ تنظیم بڑے پیمانے پر نہ صرف گجرات بلکہ ہندوستان کے دیگر صوبوں میں بھی اپنی تعلیمی، تعمیری، رفاہی اور صاف و شفاف خدمات کے حوالے سے نیک نام ہے.

حضرت موصوف کے آبائی محلہ کا روڈ سرکاری طور پر انہیں کے نام سے بنام "مولوی شمس الدین مارگ” موسوم ہے.

 

13 شعبان 1378ھ کو اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور جامعہ تعلیم الاسلام آنند میں وفات پائی، جسد خاکی بڑودہ لے جایا گیا اور عوام و خواص کے ایک بڑے مجمع نے اس عظیم مصلح و مخلص شخصیت کو نم آنکھوں سے وداع کیا.

 

حضرت مولانا شمس الدین صاحب کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور ایک بیٹی کی دولت سے نوازا، چاروں بیٹے عالم دین اور متقی و پرہیز گار تھے.

 

بڑے بیٹے مولانا بہاؤالدین جامعہ تعلیم الاسلام آنند سے فارغ ہوئے اور سحر و دیگر ذہنی امراض کے باعث نوجوانی میں ہی لاپتہ ہو گئے. تلاش بسیار کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا.

 

ان سے چھوٹے مولانا مصلح الدین و مولانا قمر الدین صاحبان نے دارالعلوم دیوبند سے اعلی نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کی، زمانہ طالب علمی ہی میں صالحیت و صلاحیت کے تعلق سے ضرب المثل تھے، مزاج و فکر میں ہم آہنگی کی بنا پر رفقاء کے درمیان "صاحبین” کے لقب سے مشہور ہوئے، قیام دارالعلوم کے دوران ہی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے ہاتھوں پر بیعت ہوئے، 1377ھ میں حضرت مدنی کا وصال ہوا اور ان دونوں نے 1378 میں حضرت مولانا فخر الدین مراد آبادی سے بخاری شریف پڑھی، ان کے علاوہ علامہ ابراہیم بلیاوی و حضرت مولانا فخر الحسن مرادآبادی، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی، حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری وغیرہ سے بھی شرف تلمذ حاصل کیا. غالباً دورہ حدیث کے آخری پرچہ امتحان کے دوران ان دونوں بھائیوں کو اپنے عظیم مربی اور والد بزرگوار کی رحلت کا علم ہوا.

 

دونوں بھائیوں نے فراغت کے بعد تکمیل افتاء بھی کیا، اس کے بعد مولانا مصلح الدین صاحب نے مدرسہ اشرفیہ راندیر، جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل اور دارالعلوم تاندلجہ بڑودہ میں تدریسی خدمات انجام دیں، آخر الذکر ادارے میں وہ کئی سالوں تک منصب شیخ الحدیث کو اعتبار بخشتے رہے.

اس دوران اپنے والد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہر کی مرکزی جامع مسجد میں 21 سال تک امامت و خطابت کے فرائض انجام دیے.

 

ڈیوزبری (برطانیہ) کے تبلیغی مرکز میں عربی اول سے مشکاۃ تک کی تعلیم کا نظم تھا، اس کے بعد طلبہ عموماً دورہ حدیث کے لیے ہندوستان یا کسی اور ملک کا رخ کرتے، ویزا کے بڑھتے مسائل کی وجہ سے ارکان شوری نے وہیں دورہ حدیث کا نظم کیا جس کے لیے اتفاق رائے سے حضرت مولانا مصلح الدین قاسمی کو نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ بطور "شیخ الحدیث” لے جایا گیا، جہاں انھوں نے نہایت نیک نامی، تقوی و دیانت داری اور وقت کی پابندی کی مثال قائم کرتے ہوئے تاحیات بخاری شریف کا درس دیا.

مؤرخہ 7 مارچ 2021ء کو انگلینڈ میں ان کی وفات ہوئی.

 

ان سے چھوٹے حضرت مولانا سید قمر الدین صاحب قاسمی نے بھی عملی میدان کا آغاز تدریس سے کیا اور تین سال تک جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل میں تدریسی خدمت انجام دی، وہاں سے لوٹے تو تاحیات اپنے شہر بڑودہ میں سکونت پذیر رہے، حالانکہ اس دوران انھیں انگلینڈ اور جنوبی افریقہ میں موجود عقیدت مندوں کی جانب سے عمدہ ملازمت کی پیشکش کی گئی، تاہم انھوں نے اپنے ملک میں رہ کر ملی خدمات کو ترجیح دی. 1963ء سے 1973ء تک محلہ ناگرواڑہ کے ایک مدرسے میں پڑھایا، جامع مسجد میں گیارہ سال تک امامت کی، جامعہ ڈابھیل کی شوریٰ کے رکن رہے، اسلامک فقہ اکیڈمی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھی رکن رہے، ان سب کے علاوہ 1965ء سے 1995ء تک جمعیۃ علماء صوبہ گجرات کے ناظم و سکریٹری رہے، اس دوران شب و روز اور لیل و نہار اس تنظیم کی کامیابی کے لیے وقف کر دیا، اتنی بے لوث طویل خدمات انجام دیں کہ جس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے.

اپنے والد کی قائم کردہ تنظیم "اصلاح المسلمین” کو فروغ دیا اور اس کے حلقۂ خدمت کو وسیع سے وسیع تر بنانے کے لیے ملکی و غیر ملکی پیہم اسفار کیے، اسی کے تحت 1985ء میں شہر بڑودہ سے تقریباً 30 کلو میٹر دور واقع بستی "ڈبھوئی” کے قریب "ویگا” میں دارالعلوم ویگا کے نام سے ادارہ قائم کیا جس میں ابتدائی مکتب، حفظ و ناظرہ کے علاوہ عربی درجات کا بھی نظم کیا. ساتھ ہی مدرسے کے تحت اسکول بھی شروع کیا جو نیک نامی اور عمدہ نتائج کے ساتھ خدمت میں مصروف ہے.

 

مؤرخہ 24 مارچ 2021ء میں وفات ہوئی اور اپنے آبائی قبرستان میں والد بزرگوار کے قریب محو خواب ہیں.

 

ان کے دو بیٹے ہیں : مفتی سید مصباح الدین قاسمی اور مولانا وحید الدین قاسمی، یہ دونوں بھی اپنے والد اور بڑے ابا کے نقش قدم پر چلے، حلقۂ احباب میں "صاحبین” کہلائے، دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی اور اب شہر بڑودہ میں امامت و خطابت اور تدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں. بڑے بھائی سنجیدہ طبیعت کے ہیں جب کہ چھوٹے شوخ، اول الذکر واعظانہ گفتگو کرتے ہیں جب کہ دوسرے شعلہ بیاں مقرر و خوش الحان قاری.

 

حضرت مولانا شمس الدین صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام مولانا سید محی الدین قاسمی ہے، ان کی ابتدائی تعلیم جامعہ تعلیم الاسلام آنند میں ہوئی، یہ عربی دوم کے طالب علم تھے جب ان کے والد کا وصال ہوا، اس کے بعد یہ بھی دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور 1964ء میں فراغت حاصل کی، تکمیل افتاء بھی کیا اور دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی سے تمرین فتاوی کی مشق کی.

 

انھوں نے گجرات کے کئی بڑے اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں، جامعہ تعلیم الاسلام آنند سے یہ سلسلہ شروع ہوا، پھر دارالعلوم کنتھاریہ تشریف لے گئے، مقبول تدریسی صلاحیت کی بنا پر ترقی کرتے ہوئے دورہ حدیث تک پہنچے اور شیخد الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے. ساتھ ہی افتاء کی خدمت بھی انجام دیتے رہے. اس کے بعد دارالعلوم ہدایت الاسلام عالی پور میں خدمت کی، وہاں بھی شیخ الحدیث رہے، پھر دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر میں تدریس و افتاء کی خدمات انجام دیں، اس کے بعد مرکز اسلام انکلیشور میں چار سال تک شیخ الحدیث رہے.

2001ء میں بزم نصر المومنین کے نام سے تنظیم قایم کی اور بڑودہ سے تقریباً 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ڈبھوئی روڈ پر ادارہ قائم کیا.

 

ان تمام مصروفیات کے ساتھ وہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن رہے اور ان کے کئی فقہی مقالات مطبوع ہیں. الاشباہ و النظائر ہی ایک مفصل و مبسوط شرح بھی ان کے قلم سے منظر عام پر آ چکی ہے.

مؤرخہ 13 اگست 2020ء کو ان کی وفات ہوئی.

 

(مضمون کے اکثر اعداد و شمار "سوانح مولانا شمس الدین بڑودوی” مرتبہ : مولانا محمد یونس سورتی سے ماخوذ ہیں)

 

قسط اول مکمل ہوئی، اگلی قسط میں چند مدارس، مکاتب، ان کے نظام تعلیم، سیاحت گاہیں اور کچھ چشم دید حالات کا تذکرہ ہوگا، ان شاء اللہ

Comments are closed.