شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

دانش ریاض, معیشت, ممبئی
گذشتہ ہفتے جب میں بہار کے شہر گیا گیا تو ڈاکٹر حامد حسین دامت برکاتہم نے رانچی کی ایک این جی او MEDICO مسلم ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ اسلامک کلچر کا سوونیئر پیش کیا جو ادریس میموریل ہاسٹل کے پچاس برس مکمل ہونے پر شائع کیا گیا تھا۔
کہتے ہیں کہ 22اگست 1967کو ریاست بہار میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تو رانچی جو اس وقت بہار کا حصہ ہوا کرتا تھا وہاں بھی اس کی آگ پہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے خاک و خون کی ایسی داستان رقم ہوئی کہ 164 مسلمان شہید کردئے گئے لیکن اس میں سب سے اندوہناک شہادت 23 اگست 1967 کی شب رانچی میڈیکل کالج کے طالب علم محمد ادریس صدیقی کی ہوئی جنہیں انہیں کے ہندو دوستوں نے رات کی تاریکی میں میڈیکل کالج ہاسٹل میں شہید کر دیا اور پورے علاقے کے مسلم طلبہ و طالبات پر دہشت طاری کر دی۔ ہندتوا دہشتگردی کا شاید یہ پہلا واقعہ تھا جو رانچی میں پیش آیا تھا ۔میڈیکل کالج سے متصل مسلم بستی بریاتو کے لوگوں نے اس وقت جرآت سے کام لیا اور وہ تمام مسلم بچے جو میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں پھنسے ہوئے تھے انہیں وہاں سے نکلوایا اور اپنے اپنے گھروں میں جگہ دی۔ کہتے ہیں کہ بریاتو بستی آج بھی ہندو انتہاء پسندوں کے نشانے پر ہے کیونکہ وہاں آج بھی ایسے جیالے موجود ہیں جنہوں نے دشمنوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیا ہے ۔ ادریس صدیقی کی تجہیز و تکفین کے بعد جب طلبہ کو سکون حاصل ہوا اور رانچی میڈیکل ہاسٹل میں مسلم بچوں کا جانا اپنی موت آپ دعوت دینے کا مترادف بنا تو علاقے کے سرکردہ لوگوں کے تعاون کے ساتھ میڈیکل کالج کے مسلم طلبہ نے میڈیکو کی بنیاد رکھی اور اس کا پہلا پروجیکٹ ادریس میموریل ہاسٹل کی تعمیر قرار پایا۔ کہتے ہیں کہ ملک کے تمام بڑے شہروں سے چندہ جمع کیا گیا اور پھر حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ الله کو بلاکر سنگ بنیاد رکھی گئی۔ آج بھی وہ ہاسٹل علم و تہذیب کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں بڑے سکون سے مسلم طلبہ میڈیکل کی تعلیم مکمل کررہے ہیں ۔
دراصل محمد ادریس صدیقی اتر پردیش کے ضلع دیوریا فاضل نگر, پپرا کنک سے تعلق رکھتے تھے جسے اب کوشی نگر میں شامل کرلیا گیا ہے 1963 بیچ کے میڈیکل کے طالب علم جنہوں نے آزادی ہند سے قبل 8 جولائی 1944 کو آنکھیں کھولی تھیں انہیں کیا پتہ تھا کہ 23 اگست 1967 کی شب زندگی کی آخری شب ہوگی اور وہ تاریک رات میں ایک شمع جلاکر دنیا سے رخصت ہو جائیں گے ۔5 نومبر 2000 کو جب جھارکھنڈ نئی ریاست کے بطور منصہ شہود پر آیا تو شہید کی موت کو بھی زندگی ملی اور ریاست کے پہلے وزیر حاجی حسین انصاری نے ادریس ہاسٹل کو خطیر رقم دی جس سے ہاسٹل کو وسعت دینے میں مدد ملی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اب صرف ایک ہاسٹل نہیں بلکہ شہید کی موت کے حوالے سے مسلم تہذیب کا سرمایہ بھی ہے جہاں دوردراز سے آنے والے طلبہ مسلم ماحول میں تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشکل کے بعد ہی آسانیاں آتی ہیں بریاتو بستی جو کبھی رانچی کی مرکزی آبادی سے دور مصروف ترین شاہراہ پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اب شہر سے متصل ہوگیا ہے ۔گوکہ خانصاحبان نے اپنی اپنی زمینیں بیچ کر دوسروں کو ایسا آباد کیا ہے کہ اب ان کا وجود آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن آبادی کی کثرت نے تجارت میں زبردست برکت عطا کی ہے اور خوشحالی صاف دکھائی دیتی ہے ۔لب سڑک جامع مسجد جو کبھی چھوٹی سی مسجد ہوا کرتی تھی اب عالیشان مسجد میں تبدیل ہوچکی ہے۔
یقیناً یہ بات درست ہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ۔
*دانش ریاض ممبئی میں مقیم ادارہ معیشت کے بانی و سربراہ ہیں*
Comments are closed.