یہ وقت سیکولر پارٹیوں کی برائیاں کرنے کا ہے ہی نہیں

 

مظاہر حسین عماد قاسمی

 

ہمارے ایک فاضل ندوی اور پی ایچ ڈی ہولڈر دوست ڈاکٹر مولانا مفتی مصطفی عبد القدوس ندوی نے اپنے ایک مضمون میں تمام سیکولر پارٹیوں کی خاص طور سے امیر الہند مولانا ابو الکلام آزاد رح اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رح کی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے، اور مسلمانوں کو بہت سارے مشورے دیے ہیں اور اس میں سر سید مرحوم اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رح کے حوالے سے انڈین نیشنل کانگریس سے دور رہنے کا اشارہ دیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو اپنی سیاسی پارٹی بنانے کی گذارش کی گئی ہے،

مین نے اس مضمون کے جواب میں یہ مختصر تحریر لکھی ہے،

 

سرسید مرحوم کی وفات ایک سو پچیس سال قبل اٹھارہ سو اٹھانوے میں ہوگئی تھی، اور اس وقت انڈین نیشنل کانگریس صرف سوا بارہ سال کی ایک نوزائدہ تنظیم تھی، جس کا مقصد پر امن طریقے سے انگریزوں سے ہندوستانیوں کے حقوق کا مطالبہ تھا ، ہندوستان کے ہندو خاص طور سے بنگالی ہندؤں نے سترہ ستاون سے ہی انگریزوں سے نہ ٹکرا کر اور ان سے دوستی کرکے اور انگریزی تعلیم حاصل کرکے کافی ترقی کرلی تھی، ہر جگہ نوکریوں میں ان کا تناسب بڑھ رہا تھا اور ان کی ریاستیں اور جائدادین محفوظ تھین،اس لیے سرسید اپنے بچپن اور نوجوانی کے زمانے سے ہی انگریزوں سے ٹکراؤ کی پالیسی کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے،

 

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ میں جب کہ سارے علماء اور تمام ہندوستانی بہادر شاہ ظفر کو اپنا بادشاہ مان کر انگریزوں سے لڑ رہے تھے، سر سید مرحوم انگریز افسروں کو بچا رہے تھے،

وہ بیس سال کی عمر میں اٹھارہ سو چھتیس میں عدالت میں مسل خواں اور پھر منصف بن گئے تھے، اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد ان کو اپنی رائے میں مزید پختگی محسوس ہوئی، کانگر یس کی بنیاد سے دس سال قبل اٹھارہ سو پچھتر میں علی گڑھ میں انہوں نے عصری اور انگریزی تعلیمی ادارے مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی تھی جو ان کی وفات کے بائیس سال بعد یونیورسٹی کی حیثیت سے ترقی کر گیا،

سر سید زندگی بھر مسلمانوں کو صرف اور صرف تعلیم پر توجہ دینے اور انگریزوں سے نہ ٹکرانے کے دو اصولوں پر عمل کرانا چاہتے تھے، اس لیے سوا سو سال پرانا سرسید کا سیاسی مشورہ موجودہ حالات میں قابل قبول کیسے ہو سکتا ہے، ؟؟

 

حکیم الامت حضرت تھانوی تقسیم ہند اور مسلم لیگ کے مؤید تھے، اور ان کی وفات کو بھی تراسی سال ہوگئے ، ان کی پہچان ایک سیاسی رہنما کی نہیں ہے، وہ سیاست میں حکیم الامت نہیں ہیں، وہ تفسیر و فقہ، اور تصوف و تزکیہ میں حکیم الامت ہیں،

 

ہندوستانی سیاست میں مسلمانون کے امام سرسید مرحوم اور حکیم الامت حضرت تھانوی رح نہیں ہیں، بلکہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رح ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدمدنی رح ، امیر الہند حضرت مولانا ابو الکلام ازاد رح ، بانی امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و بانی جمعیۃ علمائے ہند حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رح اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رح وغیرہ ہیں ،

 

اس وقت ( آزادی سے قبل )مسلمان کانگریس یا کسی اور ہندو قیادت والی سیکولر پارٹی میں نہ رہتے تب بھی جدا گانہ اصول کے تحت ہر صوبے میں ان کی تعداد کے مطابق ان کو نشستیں مل جاتی تھیں ، اس لیےکہ ہر اسمبلی میں ان کی آبادی کے حساب سے ان کے لیے نشستیں مخصوص تھیں،

 

مثلا بہار اسمبلی کے لیے کل ایک سو باون نشستیں تھیں جن میں سے چونتیس نشستیں مسلمانوں کے لیے خاص تھیں اور انہیں نشستوں میں سے بیس سے زائد نشستوں پر بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن سجاد رح کی پارٹی ” آزاد پارٹی ” نے کامیابی حاصل کرکے بہار کی دوسری بڑی پارٹی بننے کا شرف حاصل کیا تھا ، کانگریس نے کل بانوے نشستیں حاصل کی تھیں ، جن میں سے صرف چار نشستیں مسلمانوں والی تھیں یعنی کانگریس کے کل بانوے ارکان اسمبلی میں سے صرف چار مسلمان تھے،

کانگریس نے اپنی پارٹی میں سے بہار کے وزیر اعظم کے عہدے کے انتخاب میں چار ماہ کی دیر لگائی، اس اثناء میں آزاد پارٹی نے حکومت کی اور بیرسٹر محمد یونس بہار کے وزیر اعظم بنے، آزادی سے قبل تک ہر صوبے کے وزیر اعلی کو وزیر اعظم کہا جاتا تھا،

اور آزاد پارٹی کی اس چار ماہ کی حکومت کا اثر آج بھی بہار میں دکھائی دیتا ہے،

بہار میں بی جے پی کو نتیش کمار کے بیساکھی کی ضرورت اس لیے ہے کہ مولانا ابو المحاسن سجاد رح کی بنائی پارٹی کے اثر سے بہار میں فرقہ واریت کو اس طرح پنپنے کا موقع نہیں ملا جس طرح اتر پردیش میں ملا، مگر افسوس یہ ہے کہ مولانا سجاد رح کی وفات کے بعد امارت شرعیہ بہار میں پھر کوئی دوسرا سجاد پیدا نہ ہوسکا اور انیس سو چھیالیس میں آزاد پارٹی ختم ہوگئی ،

انیس سو چھیالیس میں بہار و اتر پردیش سمیت آج کے تمام ہندوستانی صوبوں میں مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی پچھتر سے نوے فیصد نشستیں مسلم لیگ کو ملیں،

یہ اس وقت کے مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی کہ انہوں نے یہ جانتے ہوئے مسلم لیگ کو ووٹ دیا کہ ہمارا علاقہ پاکستان میں شامل ہونے والا نہیں ہے، اور مسلم لیگی ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمینٹ کی نوے فیصد تعداد آزادی اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو ہجرت کرگئی،

اگر انیس سو چھیالیس میں انڈین نیشنل کانگریس میں مسلم ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمینٹ کی تعداد زیادہ ہوتی تو ہندوستانی دستور کو مسلمانوں کے لیے اور بھی زیادہ مفید بنایا جاسکتا تھا، اور مولانا ابو الکلام آزاد رح کو زیادہ تقویت ملتی،

 

مسلمانوں کی آل انڈیا پارٹیاں کئی ہیں،

چار نام یہان درج کیے جاتے ہیں

 

انڈین یونین مسلم لیگ

ال اندیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین

ایس ڈی پی آئی

 

خلاصہ یہ ہے کہ یہ مضمون موجودہ حالات میں کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے،

 

آج کی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کو یتایا جائے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو کیسے ہرایا جائے اور کس صوبے میں کس پارٹی کو ووٹ دیا جائے،

 

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ بتایا جائے کی کانگریس نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو کون کون سے حقوق دیے تھے اور ان میں سے کن کن حقوق کو گذشتہ دس سال کی بی جے پی سرکار نے ان سے چھین لیا ہے،

یہ بتایا جائے کہ کیا طلاق بل، تین سو ستر بل، اور سی اے اے بل کے خلاف کانگریس نے کچھ کیا یا نہیں، اور میرا مشاہدہ ہے یہ کہ کانگریس نے اپنی طاقت کے بقدر مسلمانوں کے خلاف لائے گئے ان تینوں بلوں کے خلاف پر زور آواز اٹھائی ہے،

 

انیس سو سڑسٹھ سے مسلمان انڈین نیشنل کانگریس کا بدل ڈھونڈ رہے ہیں، مگر آج تک کوئی پارٹی بھی اس سے بہتر نہیں مل سکی ہے،

ہزاروں خامیوں کے باوجود ہندوستان کی دیگر سیکولر پارٹیوں کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس سب سے بہتر ہے، اور وہی بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کرسکتی ہے، اور وہ صرف مسلمانوں کے پندرہ فیصد ووٹ سے کامیاب نہیں ہوسکتی اسے اقتدار تک پہونچنے کے لیے کم ازکم مزید بیس فیصد ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے،

 

مسلم پارٹیاں ان ہی حلقوں پر کامیاب ہوسکتی ہیں جہاں مسلم ساٹھ فیصد سے زیادہ ہوں، یا چالیس فیصد ہوں مگر مقابلہ تکونہ ہوں،

کیرل اور تمل ناڈو میں مسلم لیگ، حیدر آباد میں مجلس اتحاد المسلمین اور آسام میں ال انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ صرف ایک تا تین یا چار سیٹوں پر ہی کامیاب ہوسکتی ہیں،

ڈاکٹر صاحب کو شکایت ہے کہ کانگریس نے اپنے اتحاد میں مسلم پارٹیوں مجلس اتحاد المسلمین اور آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کو اتحاد میں شامل نہیں کیا ہے، مگر مولانا نے یہ نہیں بتایا یا شاید انہیں معلوم نہیں کہ کانگریس کی قیادت والے اتحاد میں چار مسلم پارٹیاں ہیں

ان میں سے دو پارٹیاں کشمیر سے ہیں،

فاروق عبد اللہ صاحب کی پارٹی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی انڈیا اتحاد میں شامل ہیں،

کیرل اور تمل ناڈ میں اپنا اثر رکھنے والی مسلم لیگ بھی اس اتحاد میں شامل ہے، سات فروری دو ہزار نو کو قائم ہونے والی تمل ناڈو کی مسلم پارٹی مانیتھینیا مکل ککچھی بھی انڈیا اتحاد میں شامل ہے،

اور ان چاروں کے پاس مجلس اتحاد المسلمین اور آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ سے زیادہ ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمینٹ ہیں،

مجلس کا بھی کانگریس کے ساتھ بہت سالوں تک اتحاد رہ چکا ہے اور آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کا بھی اتحاد کانگریس کے ساتھ دو ہزار اکیس کے آسام اسمبلی الیکشن میں ہوا تھا،

Comments are closed.