جمعہ نامہ: روزے کی ڈھال کا صحیح استعمال

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’ اے اہل ایمان! تم پر روزہ فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں(اُمتوں) پرفرض کیا گیاتھا ‘تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو جائے (تم متقی بن جاؤ).‘‘۔اس آیت کریمہ میں روزے کی فرضیت کا مقصد تقویٰ کا حصول بتایا گیا ہے۔ عصر حاضر کے ایک نام نہاد دانشور نے پچھلے دنوں اعلان فرما دیا کہ ’دورِ جدید میں مذہب کی ضرورت نہیں ہے‘ اور سوشیل میڈیا پر چھا گئے۔ یہ الفاظ کا وہ کھیل ہے جس سے بھولے بھالے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا جاتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے موجودہ ترقی یافتہ دور نے بنی نوعِ انسان کو کسی بھی بنیادی ضرورت سے بے نیاز نہیں کیا۔ پہلے بھی بھوک لگتی تھی اب بھی وہ پیٹ کی آگ بجھانی پڑتی ہے بلکہ خوردونوش کے انواع و اقسام میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اب صرف دال روٹی یا مغلائی کھانوں پر اکتفاء نہیں کیا جاتا بلکہ چینی، جاپانی، اطالوی اور امریکی پکوان بھی کھائے جاتے ہیں۔ جنسی پیاس بجھانے کے لیے دورِ جدید میں لیواِن ریلیشن کے نام پر حرام رشتوں کو بھی جائز کیا جارہا ہےیعنی اس کی شدت بھی بڑھی ہے۔ آرام و آسائش کا یہ حال ہے کہ پہلے سامانِ تعیش میں شمار ہونے والاایرکنڈیشن اب معمولاتِ زندگی میں شامل ہو گیا ہے۔ ایسے میں کھانا ، سونا اور جنسی سکون کی حاجت میں اضافہ اس کے نظم و ضبط کی ضرورت کا اضافی تقاضہ کرتا ہے ۔ دین اسلام اسی تقاضے کو روزے کے ذریعہ پورا کرتا ہے۔
انسانی تہذیب و تمدن کے فروغ میں جبلی خواہشات کی تکمیل کا اہم کردار ہے۔ بھوک نہ لگے تو بہت سارے لوگ محنت و مشقت کرنا چھوڑ دیں اور باہمی انحصار سے چلنے والی معیشت کا تانا بانا بکھر جائے ۔جنسی ضرورت سے بے نیازی نہ صرف نظام ِ معاشرت کے لیے تباہ کن ہے بلکہ نسل انسانی کے بقاء وفروغ کی دشمن ہے ۔ سکون کی نیند کی خاطرمسکن کی آرائش و زیبائش بھی بہت ساری ایجادات وترقی کا محرک ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ فی زمانہ حرص و ہوس کے سبب ایک ایسا صارفیت زدہ معاشرہ عالم وجود میں آگیا جس میں انسانی صحت بے شمار خطرات سے دوچارہوگئی۔ اخلاقی اقدار بحرانی کیفیت کا شکار ہوگئے اور سماج کے اندر معاشی استحصال کا بول بالا ہوگیا۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ عوام الناس نے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے حرام وحلال کی تمیز چھوڑ دی۔ خدا کے بندوں نے شترِ بے مہار کی مانند نفسانی خواہشات کی بندگی اختیار کرلی ۔ رمضان کا روزہ نفسِ انسانی کو لگام لگا کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کا پابند بنانے کی بہترین مشق ہے ۔ یہ عبادت رضائے الٰہی کی خاطر ابن آدم کو دن کے وقت کھانے پینے اور جنسی تعلق سے روک دیتی ہے اور رات میں اسے نیند قربان کرکے رب کائنات کے حضور دست بستہ حاضر کردیتی ہے۔
روزے کاعربی ترجمہ صوم یا صیام ہے۔اس عبادت کی فرضیت کے وقت عرب خود تو روزہ نہیں رکھتے تھے لیکن اپنے گھوڑوں کو رکھواتے تھے۔ گھوڑا ان کی پسندیدہ سواری تھی ۔وہ نہ صرف میدانِ کارزار میں کام آتی بلکہ لوٹ مار کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔ عربوں کو احساس تھا کہ صحرائی جہاز کہلانے والا اونٹ مال برداری کے کام تو آسکتاہے مگرمیدانِ جنگ میں نہ تیز دوڑ سکتا ہے اور نہ سرعت سے اپنا رخ بدل سکتا ہے ۔انہیں یہ بھی پتہ تھاکہ گھوڑےکی تنک مزاج فطرت محتاجِ تربیت ہے۔ اسی لیے وہ اپنے گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر انہیں جنگ کے لیے تیار کرتے تھے۔ موسمِ گرما میں اس کو گرم لو کا سامنا کرواتے تھے تاکہ مشکل حالات میں ان کے اندر میدان میں ڈٹے رہنے کاحوصلہ اور صلاحیت پیدا ہو۔ اس مشق کا نام صوم تھا اور اس سے گزرنے والا گھوڑا صائم کہلاتا تھا۔نفسِ انسانی کےگھوڑے کو بھی اسی طرح کی مشق درکار ہے۔ اس منہ زور گھوڑے کو اگر روزہ رکھوا کر اﷲ تبارک و تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بنادیا جائے تو وہ نہ حرام مال کی طرف نظر اٹھاکر دیکھتا ہے نہ محرمات کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ روزے کے ذریعہ جب نفسِ امارہ کی لگام اہل ایمان کے ہاتھ میں آجاتی ہے تو وہ اپنے گھوڑے کا تابع نہیں ہوتا بلکہ اس کو اپنے قابو میں رکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ ماہِ رمضان میں قیام الیل کرنے والوں کے لیے غلبۂ دین کی خاطر آرام و آسائش قربان کرنا نہایت سہل ہوتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’۰۰۰روزہ ایک ڈھال ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو فحش گوئی نہ کرے اور نہ شور وغل کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے يا اس سے جھگڑا کرے تو کہہ دے: میں روزہ دار آدمی ہوں‘‘۔یہاں پر روزے کا دائرۂ کار وسیع کردیا گیا ہے۔یعنی یہ معاملہ وقتِ مقررہ کے دوران صرف کھانا پینا چھوڑنا اور جنسی تعلق کی ممانعت تک محدود نہیں ہے بلکہ فحش گوئی اور شوروغل سے اجتناب بھی لازمی ہے۔ روزے دار کےلیے تو خود پر پابندی لگا لینا کسی قدر آسان ہے لیکن اگر کوئی اور اس سے لڑائی جھگڑا کرکے اسے تاو دلانے کی کوشش کرے تب بھی وہ اپنے آپے میں رہ کر کہہ دینا کہ بھیا ميں روزے سے ہوں خاصہ مشکل کام ہے۔ اس جواب کا لب ولہجہ گواہی دے رہا کہ وہ مقابلہ کرنے سے قاصر نہیں ہے بلکہ روزے کا احترام اور اللہ و رسولؐ کے حکم کا پاس و لحاظ اس کی راہ میں مانع ہے۔ امسال چاند رات کو حکومتِ وقت کی ایک مجبوری نے اسے سی اے اے نافذ کرنے پر مجبور کیا تو اسے توقع تھی کہ مسلمان مشتعل ہوکر سڑکوں پر آجائیں گے مگر ملت نے کمال ضبطِ نفس کا مظاہرہ کرکے اس کے ناپاک منصوبےکوخاک میں ملادیا ۔ اہل ایمان نےروزے کی ڈھال کا بہترین استعمال کرکے دنیا کو دِکھا دیا کہ اہل ایمان دشمن کو فائدہ پہنچانے کے لیے احتجاج نہیں کرتے بلکہ دین حق کے تحفظ و سربلندی کے لیےمزاحمت و اقدام کرتے ہیں ۔
Comments are closed.