اُردو اخبارات کے ماضی، حال اور مستقبل پر ایک نظر

عارف عزیز(بھوپال)
ہندوستان میں اُردو کی مطبوعہ صحافت کا آغاز اُس بحرانی دور میں ہوا جب پورا ملک سماجی و تہذیبی بدلاؤ سے گزر رہا تھا، انگریزوں کا اقتدار مستحکم ہوگیا تھا اور وہ اپنی تہذیب و روایات کو نافذ کرنے کے درپے تھے، اِس کشیدہ صورتِ حال میں اُردو اخبارات نے ملک کے مختلف حصوں میں اپنے بال و پر نکالنے شروع کیے، کہیں انھوں نے حکومت سے مقابلہ کیا تو کہیں اُس کی ہمنوائی کی، اُردو کے اِن اخباروں کا موضوعاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ اخبارات سیاسی خبروں کے ساتھ معاشرتی مسائل بھی اُٹھاتے تھے، اُن کی بڑی تعداد تحریکِ آزادی میں حصّہ لے کر جذبۂ حب الوطنی کو پروان چڑھا رہی اور دارورسن کی آزمائش سے گزر رہی تھی۔ ۱۸۵۷ء کی آزادی کے لیے بغاوت ہو یا اُس کے بعد کی صبرآزما جدوجہد، ہر دہائی میں اخبارات نے اپنے لیے جو راہ منتخب کی وہ دشوار گزار ارو پُرخطر تھی، اِس کے صلہ میں اُردو صحافیوں کو طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، دہلی کے مولوی محمد باقر کی طرح وہ دار پر چڑھائے گئے تو اجمیر کے ایودھیا پرساد کی طرح قیدوبند کے شکار بنے، بھوپال کے عبدالکریم اوجؔ کی طرح اُن کو جلاوطن کیا گیا تو علاقائی اخباروں کے مثل اُن کی ضمانتیں ضبط ہوئیں۔
حق وصداقت اور قربانی کے علمبردار اِن صحافیوں میں مولانا ظفر علی خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرتؔ موہانی، مولانا محمد علی جوہرؔ، ابوسعید بزمی، چراغ حسن حسرت، عبدالرزاق ملیح آبادی، میلارام وفاؔ، خواجہ حسن نظامی،مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا عثمان فارقلیط، سردار امر سنگھ، سردار دیوان سنگھ مفتوںؔ، مہاشے کرشن، مہاشے خوشحال چند، فضل علی سرور کے نام تو فوراً زبان پر آجاتے ہیں۔ اِن صحافیوں میں شاید ہی کوئی شوق و تفریح یا نام و نمود کے لیے میدانِ صحافت میں آیا ہو، حقیقت یہ ہے کہ اُن کے ضمیر اور مقاصد کے تقاضے اُنھیں صحافت میں کھینچ لائے تھے۔ اِن کے سینے میں اُبلتے جذبات کا طوفان تھا، جس کے اظہار کے لیے جگہ درکار تھی، کہنے اور سننے کے لیے اِتنا تھا کہ انھوں نے اپنی عمریں اِس میں صرف کردیں لیکن خیالات کا ذخیرہ تمام نہیں ہوا جو وہ قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔
یہ آزادی سے پہلے کا حال ہے، جسے ہم اُردو صحافت کی میراث یا قربانی کی تاریخ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جو پانے کے بجائے کھونے کی جستجو تھی، اخبار نویس ایک مقصد، نصب العین اور جذبہ سے سرشار ہوکر اِس وادی میں قدم رکھنے اور جب کوئی خارِ مغیلاں آبلوں کی پذیرائی کرتا تو اُن کو ملال نہیں آسودگی کا احساس ہوتا۔
اِس دور میں اخبار نکالنا ایک ذریعہ تھا سچائی کے اظہار واعلان کا، اُس وقت حق بات کہنا اور لکھنا جتنا خطرناک تھا، آزادی کے بعد بھی آزمائش کا باعث ثابت ہوا، پہلا وار اُردو اخبارات کی زبان اُردو کے گلے پر یہ کہہ کر کیا گیا کہ یہی وہ زبان ہے، جس نے ملک تقسیم کرایا حالانکہ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ اِس الزام کی تردید کے لیے کافی ہے، جس میں مولانا نے بہ بانگِ دُہل اِس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ ’’تقسیم میں مسلم لیگ، کانگریس اور انگریز حکومت نے اپنا اپنا کردار ادا کیا اور اُن کی مشترکہ غلطیوں کی قیمت برصغیر کے کروڑوں معصوم عوام اور اُن کی زبان کو ادا کرنا پڑی‘‘۔ اِس میں اہلِ اُردو کی تساہلی اور غیرذمہ داری بھی کم نہیں تھی، جس کے گہرے اثرات اردو زبان و ادب کے دیگر شعبوں کی طرح اخبارات پر بھی مرتب ہوئے، بالخصوص شمالی ہند جہاں آزادی کے بعد تک اُردو صحافت چھائی ہوئی تھی، خزاں رسیدہ نظر آنے لگی، بڑے بڑے اخبارات بند ہوگئے، جو باقی بچے وہ بھی اپنے وجود کے لیے جدوجہد کرتے رہے، تاہم حیدرآباد، ممبئی، بنگلور اور کلکتہ کے اُردو اخبارات کو دیکھ مایوسی و بے کیفی کی یہ فضا چھٹ جاتی تھی اور امید قائم ہوتی کہ اُردو اخبارات نے جس اعتماد کے ساتھ لیتھو کے دور سے روٹری کے عہد میں قدم رکھا یا کتابت سے پیچھا چھڑاکر کمپیوٹر کے عہد میں سانس لینے لگے، اِن کا موجودہ حال بھی سدھرے گا، اُسی زمانے میں مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل مادھوراؤ سندھیا نے اُردو اخبارات کی زبوں حالی پر یہ تبصرہ کیا تھا:
’’جس زبان کے بولنے والے حالات کے تقاضے پر کھرے نہیں اُترتے، وہ خطرہ میں پڑجاتی ہے اُردو زبان اور اُس کی صحافت سے نئی نسل کی دوری کا سبب یہی ہے کہ اخبارات نے جدیدکاری کے عمل کو اہمیت نہیں دی‘‘۔
یہ سچائی ہے کہ شمالی ہند میں اُردو اخبارات اپنی اِس کوتاہی کا نتیجہ عرصہ تک بھگتتے رہے۔ جب کہ جنوبی ہند کے اخبارات کی ترقی کا راز یہ ہے کہ اُنھوں نے وقت کی نبض کو پہچان کر جدید وسائل اختیار کیے اور معاصر زبانوں کی صحافت سے آنکھیں ملانے کے قابل ہوگئے۔
اُردو اخبارات نے برصغیر میں اُردو زبان و ادب کی ترقی و توسیع میں جس پامردی کے ساتھ حصّہ لیا، اِسے ایک ترقی یافتہ زبان بنانے، اِس میں نئے نئے الفاظ، محاورے اور اصطلاحات کو داخل کرنے اور اِس سے آگے بڑھ کر زبان کا رشتہ زمان، زمین اور ذہن سے قائم کرنے میں جو کردار ادا کیا، اِس کا بھی عام طور پر اعتراف نہیں ہوتا، موجودہ حوصلہ شکن حالات میں اُردو کے علاقائی اخبارات جس طرح اپنی کشتی کھینے میں لگے ہیں، اِس کی اہمیت کا بھی بیشتر کو اندازہ نہیں حالانکہ یہ اخبارات قوم کی ترجمانی کا کام انجام دے رہے ہیں، یہ بند ہوگئے تو اپنی بے زبانی کا ہمیں احساس ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا کی توسیع کے باوجود اخبارات کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے، اُن کی طاقت واثر کا رازیہ ہے کہ وہ رائے عامہ کو بناتے، دماغ پر کنٹرول کرتے اور دلوں کو بیدار کرتے ہیں، اُن کے ذریعہ فرقوں اور جماعتوں کی آواز ملک کے مختلف گوشوں تک بروقت پہونچی ہے۔
آپ جانتے ہیں اُردو کا پہلا اخبار ’’جامِ جہاں نما‘‘ ۱۸۲۲ء میں شائع ہوا، اِس لحاظ سے مطبوعہ اُردو اخبارات کے دوسو سال مکمل ہوگئے ہیں، اِس مدت میں اُردو صحافت کئی طوفانوں سے دوچار ہوئی، کئی نشیب وفراز دیکھے، متعدد انقلابات کو اُس نے اپنے صفحات میں محفوظ کیا۔ یہ ایک تاریخی مرحلہ تھا، جس کو یادگار بنانے کے لیے قومی اور علاقائی سطح پر پروگرام مرتب کرنا چاہئے تھے، لیکن چار پانچ سمیناروں ، کچھ اخبارات کے خصوصی شماعے نکالنے کے سوا کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا۔
ہندوستان میں جہاں اُردو اخبارات و رسائل کا ایک تابناک ماضی ہے اور آج بھی اُردو اخبارات ہندی کے بعد سب سے زیادہ نکل رہے ہیں، اِن اخبارات و رسائل کے لیے کسی مخصوص لائبریری کا نہ ہونا نہایت محرومی کی بات ہے، میرِ صحافت حیات اللہ انصاری کے بقول کئی اہم مسائل اور موضوعات کا مطالعہ اردو اخبارات کے بغیر نہیںہوسکتا۔ مثال کے طور پر دو قومی نظریہ، پنجابی صوبہ کا قیام اور اُردو کے حقوق کے لیے چلائی گئیں تحریکات پر اُردو اخبارات ہی روشنی ڈال سکتے ہیں ، اس طرف بھی کسی نے توجہ نہیں دی۔
اِس گئے گزرے زمانے میں بھی اُردو اخبارات کی وسعت و ہمہ گیری کسی دلیل و ثبوت کی محتاج نہیں۔ میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ جیسی دوردراز ریاستوں کے سوا ملک کے سبھی حصوں یہاں تک کہ لداخ و کیرل سے بھی اردو اخبارات و رسائل منظرِ عام پر آرہے ہیں، لیکن اِس پھیلاؤ کے باوجود اُن کی کم ہوتی تعدادِ اشاعت ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ملک کے آٹھ دس روزناموں کے سوا کسی اخبار کی اشاعت پانچ ہزار کو عبور نہیں کرتی، اگر اردو اخبارات کی اشاعت میں توسیع مقصود ہے تو اِس کے لیے اوّل اُردو کی بنیادی تعلیم پر توجہ دینا ہوگی تاکہ پرائمری سے اوپر کی سطح تک اُردو کی تعلیم کا نظام مستحکم ہو، نئی نسل اپنی زبان کی مزاح داں بنے۔ اِس کے ساتھ اُردو اخبارات و رسائل کو عوام کی پسند کا بنانے کے لیے خبروں، تبصروں، رپورٹوں اور مضامین کا معیار بہتر بنانا ہوگا تاکہ قارئین کے لیے اِس میں کشش و رغبت پیدا ہو۔ اِس کے لیے تربیت یافتہ عملہ پہلی ضرورت ہے، موجودہ عہد کو مہارت کا دور کہا جاتا ہے، کوئی بھی پیشہ ہو، جب تک اُس میں نئی وسعتوں کو نہیں چھوا جائے گا، وہ ترقی سے محروم رہے گا، اگر تربیت یافتہ صحافی اخبارات کو میسر آجائیں تو اُن کی کایا پلٹ ہوسکتی ہے۔ آج اُردو اخبارات ہندی، انگریزی اور علاقائی زبانوں کے مقابلہ میں پسماندہ ہیں، اِس کے اسباب و علل تلاش کرکے جب تک اُنھیں دور نہیں کیا جائے گا اُردو صحافت کا منظرنامہ خوشگوار نہیں ہوگا۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو کے عام ایڈیٹر کو آج وہ مشاہرہ نہیں ملتا جو بینک کے چپراسی کو مل جاتا ہے۔ جنوبی ہند کے اخبارات کی انتظامیہ نے اخبار کے اقتصادی پہلو کو اہمیت دی تو وہاں عرصہ سے معیاری اخبارات نکل رہے ہیں۔ شمالی ہند میں اخبارات کا معیار بلند کرنے کی سرگرمی بعد میں شروع ہوئی تو آج وہاں سے بھی کئی ایسے روزنامے شائع ہورہے ہیں جو معیاری ہیں اور بیک وقت چار چھ دس شہروں سے منظرِ عام پر آرہے ہیں اور اُن کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اخبارات معیاری ہوں تو ناسازگار حالت میں بھی اُنھیں عوام میں مقبولیت مل سکتی ہے، ایسے اخباروں کو اشتہارات کے حصول میں بھی دقت پیش نہیں آتی۔ دوسری طرف شمالی ہند سے آج بھی ایسے اخبارات نکل رہے ہیں ، جنھیں دیکھ کر بیل گاڑی اور جیٹ کا فاصلہ نظر آتا ہے۔ یہ فاصلہ اُردو اخبارات کو ہی طے کرنا ہے ، آج اِس کھوکھلی رجائیت سے کام چلنے والا نہیں کہ اُردو زبان بڑی جاندار ہے اور اِس کا رسم الخط بڑا سائنٹفک ہے جو طوفانِ حوادث میں اپنی کشتی کھیتا رہے گا۔اردو وہ ستم رسیدہ زبان ہے جس پر آزادی کے بعد سے کسی حکومت نے نتیجہ خیز توجہ نہیں دی تو آج کے حکمرانوں سے اہل اردو کیا توقع کریں، جو کچھ بھی کرنا ہے اردو والوں کو ہی اپنی زبان کے لئے کرنا ہوگا۔
یاد رکھئے! اِس مشینی عہد میں وہ چیزیں بے معنی ہوجاتی ہیں جن کی معاشی و معاشرتی اہمیت نہیں رہتی، اِس تہذیب کے مزاج میں تیزگامی کے ساتھ سفّاکی بھی ہے، پہلی مرتبہ کپڑا بننے کی مشین آئی تو یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ اُن کاریگروں کا کیاہوگا جو ہاتھ سے کپڑا بن کر روزی کماتے ہیں، یہی رویہ کاتبوں کے ساتھ بھی اپنایا گیا کہ کمپیوٹر کمپوزنگ شروع ہوتے ہی اُن کا وجود بوجھ نظر آنے لگا لہٰذا اُردو صحافت کو درپیش خطرات اور مسائل کو سنجیدگی سے لینے اور قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے، جذبۂ صادق اور صحیح منصوبہ بندی کے بغیر اِن کا انسداد ممکن نہیں ہوگا۔
www.arifaziz.com
E-mail:[email protected]
Mob.09425673760
Comments are closed.