بنت حوا ہوں میں یہ میرا جرم ہے

ڈاکٹر سلیم خان
عالمی یوم خواتین ویسے تو ۸؍ مارچ کو منایا جاتا ہے مگر اس کی تیاری کم از کم ایک ہفتہ پہلے شروع ہوجاتی ہے ۔ اس دوران اترپردیش کے سب سے بڑے صنعتی شہر کانپور میں مبینہ طور پر اجتماعی عصمت دری کے بعد دو لڑکیوں کی خودکشی کے ۶؍دن بعد ان میں سے ایک کے باپ نے بھی خودکشی کر لی ۔یہ سانحہ یوم خواتین کے عین پہلے والی شام کو منظر عام پر آیا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) دیکشا شرما نے اس کااعتراف کرتے ہوئے بتایاکہ سیسولر تھانہ علاقہ کے ایک گاؤں میں ایک 45 سالہ شخص کی نعش بدھ کے روز نامعلوم حالات میں درخت سے لٹکی ہوئی ملی۔ متوفی اہل خانہ کا الزام ہے کہ عصمت دری معاملے میں ملوث ملزمین کے گھر والوں کے سمجھوتہ کرنے کی دھمکیوں سے پریشان ہوکر مدعی نے خودکشی کرلی۔ کانپور کے گھاٹم پور علاقے میں 29 فروری کو 16 اور 14 سال کی نابالغ لڑکیاں ایک درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئیں۔ان کے خاندان والوں نے الزام لگایا کہ ان نابالغوں کی چند روز قبل عصمت دری کی گئی تھی–
یہ بدنصیب لڑکیاں اینٹوں کے بھٹے میں کام کرتی تھیں۔ متاثرہ لڑکیوں کے اہل خانہ نےٹھیکیدار رام روپ نشاد، اس کے بیٹے رجوّاور بھتیجے سنجے پراجتماعی زیادتی کا الزام لگایا۔ ان درندوں کا بلیک میل کرنے کے لیے ویڈیو بناناان کی خود کشی کا بنیادی سبب بنا۔اس معاملے میں 48 سالہ ٹھیکیدار رام روپ نشاد یوگی کے راون راج میں رام کا نیا روپ بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کے ساتھ 18 سالہ بیٹے راجو اور 19 برس کے بھتیجے سنجے کو گرفتار کرلیا گیا ۔ یہ سب ہمیر پور ضلع کے رہنے والے ہیں۔ اس سانحہ خاموشی توڑتے ہوئے کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نےان لڑکیوں کے ساتھ مبینہ اجتماعی عصمت دری کے بارے میں کہا کہ اتر پردیش میں جنگل راج ہے، اور قانون نام کی چیز نہیں باقی نہیں رہ گئی ہے ایسے میں آخر ریاست کی کروڑوں خواتین کیا کریں، کہاں جائیں؟
پرینکا گاندھی نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا کہ کانپور میں اجتماعی عصمت دری کی شکار دو نابالغ لڑکیوں نے خودکشی کر لی۔ اب ان لڑکیوں کے باپ نے بھی خودکشی کر لی ہے، یہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔ الزام ہے کہ متاثرہ کے خاندان پر سمجھوتہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا‘‘۔پرینکا گاندھی نے خودکشی کے ان واقعات کی وجہ بتاتے ہوئے ایکس پر اپنے پیغام میں مزید کہا کہ اگرانصاف مانگنے والی متاثرہ لڑکیوں اور خواتین کا انصاف مانگنا اتر پردیش میں ان کے خاندانوں کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ اناؤ، ہاتھرس سے لے کر کانپور تک-جہاں کہیں بھی خواتین پر تشدد کیا گیا، (آگے چل کر ) ان کے خاندان کو تباہ کر دیا گیا تاکہ ظلم کے خلاف ان کی آواز کو دبا دیا جائے ۔ فی الحال اس مقصد کے حصول کی خاطر پولیس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اترپردیش میں پولیس کی تساہلی سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مجرمین کو بچانا چاہتی ہے۔ یوپی کے اندر نشاد سماج بی جے پی کا بہت بڑا حامی ہے اور اس کی ناراضی سے بچنے کی خاطر مظلوم کی جانب سے نظر یں پھیر لی گئی ہیں ۔ اس مفروضے کے حق میں ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
اس سانحہ کی ایک چشم دید گواہ یعنی متاثرہ کی چھوٹی بہن نے بھاسکر کے نامہ نکار کو بتایا کہ جس وقت دونوں ملزم گھر میں گھسے تو ان کے والد گاوں گئے ہوئے تھے۔ دوپہر۲؍ کے وقت ٹھیکیدار کا بیٹےرجوّ اور سنجے نے کمرے میں گھس کر پہلے تو لڑکیوں کو شراب پلائی اور پھر ان کے ساتھ زیادتی کی۔ان میں سے ایک بدمعاش جب دست درازی کررہا تھا تو دوسرا ویڈیو بنارہا تھا۔ یہ دیکھ کر گواہ لڑکی نے ملزم کے ہاتھ سے فون چھین لیا تو اس کی پٹائی کی گئی۔ سنجے نے دھمکی دی کہ بھاگ جا ورنہ تیری دیدی اور والد کو بہت ماریں گے۔ بی جے پی ہندووں کو جس دلیری کی تعلیم دیتی ہے یہ اس کا ایک نمونہ ہے۔ منی پور سے لے کر کانپور تک زعفرانی درندے خواتین کی آبروریرزی کرتے ہوئے ویڈیو بناتے ہیں اس لیے کہ انہیں یقین ہے ’جئے شری رام‘ کا ایک نعرہ ان کی رہائی کے لیے کافی ہے۔ انتظامیہ اور عدلیہ دونوں یکلخت حمایت میں آجائے گا اور ان کے خلاف سارے ثبوت مٹا دئیے جائیں گے۔ منو سمرتی کو نافذ کرنے کا یہ غیر اعلانیہ طریقہ ہے۔ اس لڑکی نے اپنے والد کو فون پر ساری تفصیل بتادی۔ رات میں والد گھر لوٹنے پر وہ لوگ ٹھیکیدار کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو وہ مارپیٹ پر اتر آیا۔ اس اہم ترین گواہ کا بیان تک نہیں لیا جانا پولیس کی نیت بتاتا ہے۔
فوت ہونے والی دونوں لڑکیاں چچا زاد بہنیں تھیں۔ ان میں سے ای ک کے والد نے تو خودکشی کرلی مگر دوسری کے باپ نے نامہ نگار کو بتایا کہ رجوّ کے باپ ٹھیکیدار رام روپ کے اینٹ بھٹے پر کام کرنے والےبیس لوگوں میں اس کا بھائی اور دونوں کی ایک ایک بیٹی شامل تھے۔ 27؍فروری کوبیشتر مزدو چھٹی پر تھے ۔ شام کو پانچ بجے بھتیجے نےفون کرکے کے بتایا ٹھیکیدار کے بیٹے اور بھتیجے نے دونوں بہنوں کے ساتھ زبردستی کی اور وہ رو رہی ہیں۔ آپ جلدی سے آجائیے۔ وہ گھر پہنچا تو لڑکیاں لپٹ کر رونے لگیں ۔ انہوں ساری تفصیل بتا کر ویڈیو بنانے کی شکایت بھی کی ۔ وہ لوگ رام روپ کے گھر گئے شکایت لے کر پہنچےتو اس نے مارپیٹ کے بعد دھمکی دی کہ اگر بیٹی کی زندگی چاہتے ہو منہ بند رکھو۔ اس کے پیش نظرتو خود کشی کے بجائے قتل کے زاویہ سےتحقیق ہونی چاہیے۔ اگلے دن ویڈیو کی بات پھیل گئی تو وہ پھر ٹھیکیدار کے پاس گیا لیکن اسے مارپیٹ کر بھگا دیا گیا۔ گھر آنے کے بعد ایک مظلومہ نے کھانا دیا اور رفع حاجت کے لیے گئی تو دو گھنٹے نہیں لوٹی ۔ بعد میں پتہ چلا دو گھنٹے سے دوسری بہن بھی غائب ہے۔
تلاش بسیار کے بعد کھیت کی پگڈنڈی پر پہلے چپل ملی اور پھر بیر کے پیڑ سے لٹکی ہوئی لاشیں مل گئیں جو دوپٹے سے جھول رہی تھیں ۔ پولیس کی مدد اگر صحیح وقت پرملتی تو یہ سانحہ ٹل سکتا تھا۔ اس واقعہ کے ۶؍ دن بعد ایک لڑکی کے والد نے خودکشی کی اس کی بیوی کے مطابق رام روپ کے علاوہ دو لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے بعد بھٹے پر ٹھیکیدار نے پریشان کرنا شروع کردیا اور گاوں میں لوٹے تو اس کی بیوی نرملا نے جینا حرام کردیا۔ وہ لوگ مقدمہ واپس لینے کی خاطر دباو ڈال رہے تھے۔ پولیس کے مطابق چونکہ پوسٹ مارٹم میں تاخیر ہوئی اس لیے موت کا سبب معلوم نہیں ہوسکا ۔ سوال یہ ہے تاخیر کیوں ہوئی ؟ اب وِسرا کی جانچ ٹال مٹول کا بہانہ ہے۔ ایک پولیس اہلکار نے آنر کلنگ کے زاویہ سے جانچ کا بھی اشارہ دیا یعنی یہ نتیجہ نکالا جائے گا کہ باپ نے پہلےاپنی عزت کے ڈر سے بیٹی اور بھتیجی کو قتل کیا اور پھر خودکشی کرلی۔ پولیس اگر ایسا ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے تو سارے مجرم باعزت بری ہوجائیں گے۔ یوگی کی اندھی نگری چوپٹ راج میں اس کا قوی امکان ہے۔
اترپردیش کے کانپور میں خواتین پر مظالم کے ایسے واقعات صرف غریب طبقہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ امسال 18 جنوری (2024) کو آئی آئی ٹی کانپور میں خودکشی کا ایک ماہ میں تیسرا واقعہ پیش آیا ۔ اس میں جھارکھنڈ کی ایک طالبہ پرینکا جیسوال نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔اس سے قبل ماہِ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اڈیشہ کی ریسرچ فیکلٹی ڈاکٹر پلوی نے بھی خودکشی کی تھی۔ علاوہ ازیں نئے سال کے پہلے ہفتہ میں میرٹھ کے پی ایچ ڈی طالب علم وکاس مینا نے کیمپس کے اندر جان دے دی تھی۔ اتفاق سے ملک کے نامور تعلیمی ادارے میں بھی حال میں دو خواتین ا ور ایک مرد نے خودکشی کی ۔ اس سے قبل جون میں بی اے ایل ایل بی طالبہ انجلی وشوکرما نے گنگا بیرج میں چھلانگ لگا کر جان دے دی ۔ ’بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو‘ نعرے کی یہ حقیقت ہے ۔ اس کو ڈیڑھ سال قبل سمرتی ایرانی نےسماج میں ایک بڑی تبدیلی کا شاخسانہ کہا تھا۔ ان کے بعد وزیر مملکت برائے خواتین و اطفال نے دعوی ٰکیا تھا کہ وزیر اعظم کی قیادت میں ناری شکتی’خواتین قوت‘ نے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اوروہ نئی بلندیوں کی جانب گامزن ہے۔ کیا اس سنہری دور کی یہی نشانیاں ہیں؟
سمرتی ایرانی پچھلے پانچ سال سے خواتین و اطفال کے فلاح وبہبود کی وزیر ہیں ۔ 27 جولائی 2021کو انہوں نےملک بھر میں خواتین کی حفاظت اور ان کے تحفظ کو مزید بہتر بنانے کے لئے نیزان کی بہبود کو ہر لحاظ سے یقینی بنانے کے لئے خواتین کے قومی کمیشن کی ساتوں دن چوبیس گھنٹے چلنے والی ہیلپ لائن نمبر۔ 7827170170کا افتتاح کیا تھا۔ اس ہیلپ لائن کا مقصد تشدد کا شکار خواتین کو مدد فراہم کرنا اور انھیں پولیس، اسپتال، قانونی خدمات کے ضلعی حکام اور نفسیاتی خدمات بہم پہنچانا ہے۔سمرتی ایرانی کے مطابق یہ ڈیجیٹل ہیلپ لائن خواتین کو پیغام دیتی ہے کہ جب بھی انھیں مدد کی ضرورت ہوگی ان کی حکومت اور ان کا کمیشن ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اس ہیلپ لائن کا مقصد تشدد کا شکار خواتین کو 24 گھنٹے شکایات کے ازالے اور کاؤنسلنگ کی خدمات فراہم کرنا ہے تاکہ ان کو مناسب حکام مثلاً پولیس ، اسپتال ، قانونی خدمات کے ضلع حکام اور نفسیاتی مدد کے لئے متعلقہ افراد تک رسائی مل سکے۔ خواتین کایہ واحدنمبر اگر فعال ہوتا اور اس کے ذریعہ ملک بھر میں حکومت کے پروگراموں کی معلومات مظلومین تک پہنچتی تو یہ سارے سانحات نہ ہوتےمگر یہ ساری ڈھکوسلہ بازی محض جملہ کی حد تک محدود ہے ورنہ ان ۷؍ لوگوں کی جان نہیں جاتی ۔
(۰۰۰۰۰۰جاری)
Comments are closed.