بھگوان کا دوسرا اوتار

~فیض شبیر
رابطہ نمبر 7905221526
متعلم خواجہ معین الدین چشتی لسان یونیورسٹی لکھنو
آپ قدرتی و فطرتی ماحول سے باخبر ہوں گے ، رُت کی تبدیلیوں کا گزر آپ کی نظروں میں رہا ہوگا اور موسم کے تغیرات کو لیکر آپ کی پسند کیا ہے مجھے معلوم نہیں بہرصورت موسم ہونا اور موسم بنانے میں بڑا فرق ہے، موسم ہونا ایک قدرتی امر ہے جس کا انتظار کیا جاتاہے بلکہ بادل ناخواستہ برداشت بھی کرنا پڑتی ہے جیسے موسم گرما ، خنک موسم، موسم خزاں اور موسم گل وغیرہ۔
زمستان کو ہی لیجئے ! بنی آدم کی اولاد میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے پاس اس سے بچاؤ اور تحفظ کے لئے کوئی در نہیں ، کوئی گھر نہیں ، کوئی مسکن نہیں ، کوئی آشیانہ نہیں تاہم اس بے سروسامانی کے عالم میں قدرت کے اس تبدیلئ نظام کو قبول کرلیتا ہے چونکہ اس کا فطرتاً ہونا طے ہے جہاں کسی کا کچھ چل بھی نہیں سکتا۔
اب دوسرے قسم کو دیکھیں جہاں ایک فضا تیار کی جاتی ہے ، ایک سازگار ماحول بنایا جاتاہے، ایک خوشنما سماں باندھا جاتاہے ، ایک امید وآرزو کا کشادہ و ہموار میدان دکھایا جاتاہے جِسے تصرفات انسانی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے، جس کے پسِ پردہ اُس کی مفاد پرستیاں و خود غرضیاں اپنا کام انجام دے رہی ہوتی ہیں ،اس کا مشاہدہ ہر وقت، ہر لمحہ اور جگہ کیا جاسکتا ہے یہ جب موسم بن چکتا ہے، اپنے اثرات مرتب کرنے لگتا ہے تو بعض حالتوں میں اِسے بھی برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ بعض حالات میں کچھ توقعات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ قسمِ اول میں کہیں امتیاز و فرق نظر نہیں آئیگا چونکہ وہ فطرتی ہے سب پر یکساں ہونا ہی اس کا خاصہ ہے جبکہ قسمِ ثانی میں امتیازی عناصر غالب نظر آئیں گی، اثر پذیریاں بھی رونما ہوں گی، ترجیحات و تفوق کی ساخت رکھی جائے گی کیونکہ یہ انسانی دست اندازی ہے جو کسی ایک گروہ ، ایک خاص جماعت کے لئے ہے اور ایک خاص قسم کی ذہنیت کی پیداوار کے لئے بھی گرچہ لفظِ تحمل کی یاری ادھر بھی ہوتی ہے ۔
وقتِ موجود میں جو ہندوستان کے حالات و کوائف ہیں ، گزشتہ برسوں سے جس ماحول کی تیاری کی گئ ہے ، جس ذہنیت کے حامیوں کو تیار کیا گیا ہے اس کے پسِ منظر میں کچھ بھی واقع ہونا توقع سے باہر نہیں اور تجربات و مشاہدات سے بے مقصد و بے سود نہیں
واقعہ یوں ہے کہ چند دن پہلے میں سفرِ لکھنو کے لیے روانہ ہونے والا تھا، سٹیشن کے انتظار گاہ میں بیٹھا ٹرین کی راہ منتظر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جس ٹرین سے سفر کرنی تھی وہ شہر حاجی پور کے ریلوے سٹیشن سے ہو کر گزرتی ہے چونکہ لکھنو جانا ناگزیر تھا اور یہاں سے اُس ٹرین میں جگہ کی دستیابی بھی تھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی جگہ مختص کرا لی اور پر اطمینان ہو گیا ٹرین کے اسفار کے متعلق جو اک چیز قابلِ تسلی و تشفی ہے یقیناً آپ اس سے ناواقف نہ ہوں گے اور وہ یہ ہے کہ ٹرین کے کوچ میں اپنی جگہ مختص کرالی جائے بہرحال ریل گاڑی اپنے وقت مقررہ پر لہراتی، بل کھاتی ، خاموشی نیم شب میں زیرِ لب گاتی و گنگناتی، ڈگمگاتی و جھومتی اور سیٹی بجاتی، تیز جھونکوں میں چھم چھم کا وہ سرود دلنشیں عطا کرتی ہوئی، پٹریوں پر مڑتی ہوئی ، ٹھوکریں کھاکر کھاکر لچکتی ہوئی ایسے آتی ہے جیسے کسی معشوق کی موہوم کمر عاشق کو فرحت بخشتی ہو۔
وہاں سے ٹرین چھک چھک کرتی ہوئی ، سیٹی دیتی ہوئی اپنے منزل کو روانہ ہوتی ہے گویا ہمارے لیے یہ سبق بھی ہے کہ زندگی میں کہیں ایک منزل پر ٹھہراؤ نہیں ، کہیں ایک مقام پر سکوت نہیں، کہیں اک جگہ پڑاؤ نہیں ، کہیں جمود و تعطل کا گزر نہیں ، منازل آئیں گی مگر منزل پر نظر ہونی چاہئے غالبا دو اسٹیشن کے بعد کچھ مسافر یکے بعد دیگرے ٹرین کے اسی کوچ میں سوار ہوئے جس میں راقم الحروف موجود تھا اُن سوار ہونے والوں میں دو عمر رسیدہ اور ایک نوجوان خاتون تھیں جس کے ہاتھوں میں اُس کا پیارا سا، معصوم سا ، ننھا سا ایک بچہ مسکراتا ہوا حالات کا جائزہ لے رہاتھا اور ہر دیکھنے والے کو اپنی دلفریب سی مسکراہٹ سے مغلوب کر رہا تھا ان کی باہمی گفتگو اور شناسائی سے یوں معلوم کیا جاسکتا تھا کہ وہ ایک ہی باغ کے کھلتے ہوئے مختلف پھول ہیں، ذرا سی کوشش کے بعد ان لوگوں نے اپنی نشستوں پر اپنا وجود رکھتے ہوئے دیگر مسافرین کو اپنی حاضری سے باخبر کرتے ہیں اور پھر ریل گاڑی چند منٹوں بعد کوچ کر جانے کی مخصوص آواز نکالتی ہوئ منزل کی جانب چل پڑتی ہے۔
میرے کمپارٹمنٹ میں مسافات سفر طے کرنے والے بیشتر نوجوان اور مذکورہ بالا حضرات تھے ان میں زیادہ تر بلکہ تمام ہی ہمارے ہم وطنی غیر مسلم بھائی، مائیں اور بہنیں تھیں، میری جگہ چونکہ بالائی حصے میں تھی اور میں اپنی جگہ پر دراز ہو گیا ذرا دیر بعد یوں میری انکھ لگ گئی کہ نیندیں اپنی گود میں لیکر تھپکی دیتے ہوئے مجھے اپنی دنیا میں لے جاچکی تھی مگر اُس مرحلے میں نیند کی آغوشیں کچھ ناہمواریوں کی بنا پر بسا اوقات آپ سے ناراض و خفا ہوکر آپ کو چھوڑ بھی جاتی ہیں پھر آپ بس اس کی تلاش میں رہ جاتے ہیں اور ہوا ایسا ہی کچھ کہ ریل گاڑی کی چُھک چُھک آواز، متحرک اجسام ، مردوں کو بھی قوتِ سامعہ بخش دینے والی وہ سیٹی نیند کو دخل دیتی ہے اور اُس کی دنیا سے باہر کردیتی ہے اور پھر بالاتفاق نیچے بیٹھے اپنی باتوں میں مصروف لوگوں کی طرف نظریں پڑتی ہیں جو لامحالہ میری توجہ کھینچنا چاہتی ہے لیکن میں ان کی باتوں سے اپنے آپ کو بے پروا رکھنے کی ناکام کوشش بھی کرتا ہوں اب اتفاق نا ہونے کے سبب جب انکی باتوں پر دھیان باندھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کے سب اس فن میں ماہر ہیں جن سے جس موضوع پر کہا جائے برجستہ تقریر کردیں گے اور موضوعات ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں، کوئی اور چھوڑ نہیں ہاں مگر ان کی باتیں تھیں ہی کچھ ایسی کہ میری توجہ آخر مبذول کراہی لی اور وہ آوازیں جو میرے کانوں میں آئیں وہ یقیناً سماعت سے محروم ہی کوئی شخص ہوگا جو سماع نہ کرسکے گا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان کی زبانیں اوراد مودی سے لبریز ہیں کوئی اذکار مودی کا ورد کررہا ہے تو کوئی افکار مودی کا، کسی پر اخیار مودی کی سرمستیاں چھائی ہوئیں ہیں تو کوئی برکات مودی کا ذاکر ہو کر تبرک حاصل کرتا ہے ، کوئی باز یافت مودی کی دستاویز سناتا ہے تو کوئی کارہائے مودی پر قصائد کنگنا رہا ہے وہیں بیٹھا ہوا ایک نوجوان بھائی یہاں وہ تین ہمارے غیر مسلم نوجوان بھائی قابلِ مبارکباد ہیں جن کی دلچسپیاں اُن کے موضوعات سے چنداں غرض نہیں رکھتی تھیں اور شاید بہار سے کوئی امتحان دیکر واپس ہو رہے ہیں ہاں وہ نوجوان بھائی! جو اپنے فیصلہ کن انداز میں یہ کہہ رہا ہے کہ ‘مودی جی تو بھگوان کے دوسرے روپ ہیں ‘ بلکہ ان کو بھگوان ہی مانیے، ہندوستان کے لئے انہوں نے یہ کیا ، وہ کیا، دفعہ ٣٧٠ کو منسوخ کیا ، ایک سے بڑھ کر ایک سرجیکل سٹرائیک کیے جیسے وہ حکومت کے کام کاج کا کوئی دستاویز بڑھ رہا ہو ، کیا نہیں کیا ہے انہوں نے ہندوستان کے لئے بتائیں آپ ؟ گویا سامعین کو اس سوال سے چیلینج کر رہا ہو۔ وہیں موجود خاتون بول پڑتی ہےکہ "ہائے مودی جی کو تو میری عمر لگ جائے” ! وہ سچ میں بھگوان رام کے دوسرے اوتار ہیں بغل میں بیٹھی دوسری خاتون ان کی ہامی بھرتی ہوئیں گویا ہوتی ہیں کہ بلکل درست کہا آپ نے ہمارے مودی جی ہیں ہی ایسے کہ ان کو ہم سب کی عمر لگ جائے۔
وہی نوجوان جو اوپر چیلینج کررہا تھا ایک بار پھر سے مودی کی مداحی میں تسبیحات پڑھتا ہوا بلاشبہ اس بار اس کی باتیں قابلِ غور تھی تو وہیں افسوس و آہ میں لے جانے والی بھی، میرے دل میں خیال آیا کہ عمر کے مراحل میں ایک مرحلہ آخرکار ایسا بھی آتا ہے
جہاں انسان کو اپنی زندگی کی فکر دامنگیر ہو جاتی ہے ، جہاں وہ اس کو بنانے اور سنوارنے کیلئے تگ ودو مارتا ہے ، سعی و جہد کا سلسلہ جاری رکھتا ہے کہ مناسب کوئی جگہ ، کوئی ٹھکانہ میسر ہو جس سے زندگی کے آگا اوقات کو بآسانی گزار سکیں یوں بھی کسی ملک و قوم کے نوجوان اس کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، ملک کے مستقبل ہوا کرتے ہیں، ترقیات و دریافت کے روشن میدانوں کے کلید فتح باب بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھائی خمار کے اس عالم میں ہے کہ مستقبل قریب میں بھی ہوش نہیں آنے کو ہے جیسے مودی جی نے تمام چیزوں سے بےخبر کرکے اس کی زندگی کا بیما کرا دیا ہو بڑے ہی فخریہ انداز میں گویا ہوتا کہ ‘ارے! فکر کی کیا بات ہے مودی جی نے تو اپنا ایک مخصوص باصلاحیت، فہم و فراست کا مالک، بڑا ہی دوراندیش و دوربین شخص کو اپنا جانشین بھی مقرر کر رکھا ہے’ ۔ میں اپنے گمان میں اگر درست رہا تو آپ کے ذہنوں میں اس کی شکل و شباھت آگئی ہوگی اور اگر نہیں آئی تو یقین جانیئے آپ کو ان کا نام جان کر کوئی حیرانی نہیں ہوگی جیسے مجھے نہیں ہوئی تھی اور وہ نام نامی صوبہ اترپردیش کے وزیر اعلی کے منصب پر فائز اپنے مخصوص انداز بیان، سمع خراش لب و لہجہ کے لیے معروف و مشہور رہے یوگی آدتیہ ناتھ ہیں اب اس کی تیسری بات تو نہایت ہی استعجاب میں ڈالنے والی تھی کہ وہ فاتحانہ انداز میں بولتا ہے ہم سب کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے ؟ اور کیا ہی ہمارے لیے مودی جی کریں گے ؟ ہم کو مودی جی سے اور کیا کچھ چاہیے؟ انہوں نے ہم سناتن دھرم کے لوگوں کا سر فخر سے بلند کردیا ہے ، انہوں نے رام مندر کی تعمیر کرا دی اور ہم رام بھکتوں کو جینے کا ایک سہارا دے دیا اب ہم بھگتوں کو کچھ نہیں چاہیئے: وہ اس کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے یہ بھی بولتا ہے کہ اس مخصوص و پاک جگہ پر جانے کے لیے تو مودی جی نے ہم بھگتوں کے لیے تین ٹرینیں بھی مہیا کرائیں ہیں جس سے رام جی کے پجاریوں کو آنے جانے میں کوئی دشواری وپریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس ٹرین میں سوار ہونے والا صرف اور صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جس کے پاس اُس کا اپنا ایک مخصوص شناختی کارڈ ہوگا اور اس کارڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہوگا کہ وہ شخص رام جی کا بھگت اور ایودھیا کا ارادہ رکھتا ہے، اس کی باتوں کو میں سنتا ہوا ایک سوچ میں تھا کہ ہائے اس ملک کا مستقل کیا ہوگا اللہ ہی ہمارا محافظ و مددگار ہو گرچہ میری نظریں اس شخص سے ایک دوبار ٹکرائیں بھی ، میرا دل چاہا کہ اس کو مبارکباد دوں اور یہ سوال کروں کہ مودی جی نے آپ کا لائف انشورنس کہاں کروایا ہے ؟ مگر میں اُس اصول کو یاد کرتے ہوئے اپنا ضبط برقرار رکھا کہ جو خاموش رہا نجات پا گیا۔
وہیں ایک چچا جی جو عمر کے باغوں میں کِھلے خوبصورت پھولوں کی آبیاری کرچکے پچاس سالہ مالی لگ رہے تھے ان کا دل تو تسبیحاتِ مودی سے اس قدر منور تھا کہ ان کا کہنا ہوا سب ٹھیک تو ہے، سب صحیح ہے کوئی دقت نہیں ہے بس مودی جی رہیں! مودی جی۔ ! آہ وہ ماحول بنانا ! یہی وہ قسم ثانی ہے جس کا اثر سرچڑھ کر بولتا ہے بلکہ دنیا و مافیہا سے بے خبر بھی کردیتا ہے اور اپنے نفع ونقصان سے انجان و نادان بھی کچھ دیر بعد ان کی منزل آجاتی ہے وہ نازل بہ منزل ہوتے ہیں مجلس اختتام کو جاچکی ہوتی ہے ایک بار پھر میں نیند کی آغوش میں لپٹ جانے کو تیار ہوجاتا ہوں ۔۔۔
Comments are closed.