اللہ تعالیٰ کے یہاں ہمارا روزہ کہیں فاقہ تو شمار نہیں کیا جارہا ہے

روزہ کے مقاصد کے حصول کی بھر پور کوشش کیجیے
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
ایڈیٹرماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور
9897334419
اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں رمضان عطا فرمایا ۔اسی کی توفیق سے ہم روزے رکھ رہے ہیں ۔روزہ اسلامی عبادات میں ایک اہم عبادت ہے ۔اس کے بے شمار ثمرات ہیں ۔لیکن ہم اپنی کوتاہی اور بے توجہی کے سبب ان ثمرات سے بہرہ ور نہیں ہوپاتے ۔رمضان آتا ہے اور چلاجاتا ہے ۔ہماری زندگی میں کوئی بڑا انقلاب رونما نہیں ہوتا۔افطار کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے سجائے جاتے ہیں،شام کے وقت بازاروں کی رونق لائق دید ہوتی ہے ،افطار کے بعدٹوپی لگائے نوجوانوں کی ٹولیاں چوراہوں پر خونچے والوں سے مستفید ہورہی ہوتی ہے ،کیا یہی رمضان کا مقصد ہے ،کیا اسی کے لیے روزے رکھوائے جارہے ہیں ؟ افسوس ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ روزے کے مقاصد سے واقف ہی نہیں ہے ۔بس ایک رسم ہے جو صدیوں سے چلی آرہی ہے ۔جب کوئی عبادت رسم بن جاتی ہے تو اپنے ثمرات کھودیتی ہے ۔ہمیں عبادت شعور کے ساتھ کرنا چاہئے ۔روزہ اگر پورے احساس و شعور کے رکھاجائے تو ایک مومن کے اندرسے تمام اخلاقی غلاظتوں کو باہر نکال دیتا ہے اور اس کو مومنانہ صفات سے متصف کردیتا ہے ۔اگر ہماری زندگی رمضان سے قبل و بعد یکساں ہے تو پھر فاقوں کی زحمت اٹھانے کی ضرورت کیا ہے ۔ذیل میں روزے کی چند خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے ۔قارئین سے التماس ہے کہ ان پر غور فرمائیں اور ان کے حصول کی کوشش کریں۔
روزہ تقویٰ پیدا کرتا ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ روزہ فرض کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اس کا جو مقصد بیان فرمایا تھا وہ یہی تھا کہ اس سے امید ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔اللہ کا ارشاد ہے۔’’ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ، وہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس میں ہدایت اور حق و باطل میں فرق کرنے والی نشانیاںہیں۔‘‘(البقرۃ: ۱۸۳)
روزہ سے انسان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوتا ہے۔روزہ انسان کو خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس دلاتا ہے۔آپ روزے کی حالت میں اسی لیے تو کچھ نہیں کھاتے پیتے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔یہی وہ احساس ہے جسے تقویٰ کہا جاتا ہے ۔مستقل تیس دن تک یہ احساس اک بندہ ٔ مومن کو باقی کے گیارہ مہینے تک خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس کراتا رہتا ہے ۔ذرا سوچیے کتنا بڑا فائدہ ہے یہ روزے کا۔اور مجھے بتائیے روزے کے علاوہ وہ کونسی عبادت ہے جو یہ احساس اس درجے تک کراتی ہے کہ گویا انسان خدا کو دیکھنے لگتا ہے۔وہ کسی تنہائی اور خلوت میں بھی روزے کو توڑنے والا کام نہیں کرتا۔
تقویٰ وہ قیمتی سرمایہ ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں سرخ روئی اور کامرانی عطا کرتا ہے۔خدا کا ڈر انسان کو دنیا میں ہر گناہ سے باز رکھتا ہے۔وہ کسی کا دل نہیں دکھاتا،کسی کا مال نہیں مارتا،کسی پر ظلم نہیںکرتا،سب کے حقوق ادا کرتا ہے،لوگوں کو معاف کردیتا ہے۔لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ دیتا ہے اور اپنے حق سے کم پرراضی ہوجاتا ہے ،بھلا بتائیے ایسے انسان سے دنیا میں کون ناراض ہوسکتا ہے۔جو انسان مخلوق کے حقوق ادا کرتا ہو صرف اس لیے کہ اسے اللہ کو جواب دینا ہے تو پھر وہ اللہ کے حقوق سے کیسے غافل ہوسکتا ہے ۔بندوں کے حقوق ادا کرنے پر دنیا میں عزت اور اللہ کے حقوق ادا کرنے پر آخرت میں کامیابی کیوں کر نہ ملے گی ؟یہ ہے روزے کی سب سے بڑی خصوصیت جو روزے دار میں پیدا ہوتی ہے۔
روزہ ڈھال ہے ۔روزہ انسان کو گناہوں سے ،اللہ کی نافرمانیوں سے اور معاصی سے بچاتا ہے۔ شر سے انسان کی حفاظت کرتا ہے۔یہ روزے کا بڑا فائدہ ہے ۔انسان گناہوں سے دور رہ کر اپنے اخلاق و کردار سنوارتا ہے۔
روزہ مغفرت کا ذریعہ ہے۔روزے کی وجہ سے روزے دار کی مغفرت کردی جاتی ہے ۔یہ روزے کا بڑا فائدہ ہے۔ایک بندے کی معراج یہی ہے کہ اللہ اس سے خوش ہوجائے اور اسے معاف کردے ۔روزے دار کی بخشش کی خوش خبری حدیث میں بیان کی گئی ہے۔من صام ایماناً واحتساباً غفر لہ ذنبہٗ(متفق علیہ)’’جس نے حالت ایمان میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے روزہ رکھا اس کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔‘‘
روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ روزہ رکھنے والوں کے لیے مخصوص کراتا ہے،یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حشر کے دن آواز لگائی جائے گی کہ روزے دار کہاں ہیں؟وہ جہاں بھی ہیں باب ریان سے جنت میں داخل ہوجائیں۔جب تمام روزے دار جنت میں داخل ہوجائیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔متفق علیہ حدیث میں ہے کہ :’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے اوراس میں روز قیامت صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ۔ان کے علاوہ کوئی اورداخل نہیں ہوسکتا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں، تووہ کھڑے ہوں گے اس دروازے میں ان کے علاوہ کوئی اورداخل نہیں ہوگا جب یہ داخل ہوجائیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔‘‘( بخاری ، مسلم )۔
روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔روزے اور قرآن کے علاوہ کسی عبادت کو یہ سعادت حاصل نہیں کہ وہ کسی کی سفارش کرسکے ۔عبد اللہ بن عمرو ؓکہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوت کے کام سے روکے رکھا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما، قرآن کہے گا اے رب! ہم نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان دونوں کی سفارش قبول فرمالے گا۔‘‘(مسند احمد )
روزہ دار کے منہ کی بو،اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے ۔یعنی روزے کی حالت میں اگرچے منھ کی بو انسانوں کو ناگوار لگتی ہے مگر اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے اس کو وہ بو بھی مشک سے زیادہ پسند ہے ۔یہ ایک مشت خاکی کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ اس کا خالق و مالک اس کی ناگوار بو کو بھی پسند فرماتا ہے۔صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے: ہرعمل کا کفارہ ہے اور روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور یقینا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ِ( البخاری )
اللہ روزے کی قدر فرماتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اللہ نے تمام عبادات کا اجر متعین کردیا ہے ۔اسی حساب سے ان کو اجر ملتا ہے مگر روزے کے متعلق فرمایا کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔جیساکہ اوپر حدیث میں گزر چکا ہے ۔
اللہ روزے دار کو افطار کرانے پر بھی اجر دیتا ہے اور روزہ افطار کرانے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرتا ،اگر کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اس کی مغفرت کا وعدہ کرتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر کوئی شخص رمضان میں کسی شخص کاروزہ کھلوائے تو وہ اس کی مغفرت اور دوزخ سے چھٹکارے کاسبب ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا روزے دار کے لیے ہے اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی واقع نہیں ہوگی۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’ اے رسول خدا ﷺ ہم میں سے ہر شخص روزہ افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ یہ اجر اس کو بھی دے گا جو دودھ کی لسی یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرادے۔اور جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلائے تو اللہ اس کو میرے حوض سے ایسا شربت پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک اس کو پیاس نہیں لگے گی۔‘‘ (بیہقی)
روزے دار کودو خوشیاں عطا کی جاتی ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا :’’ نبی ﷺ نے فرمایا کہ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک جب ،جب کہ وہ افطار کرتا ہے اور دوسری جب ،جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے گا۔‘‘(مسلم)
روزے کے ذریعہ نفس کو کھانے پینے اور خواہشوں سے باز رکھ کر اسے صبر کا عادی بنانا بھی مقصود ہے۔روزے سے صبر کی صفت پروان چڑھتی اور پائے دار ہوتی ہے۔ انسان بھوک پیاس کو برداشت کرکے راہ ِ حق میں مختلف مصائب و مشکلات کوبرداشت کرنے کا عادی ہوجاتاہے۔ شدید گرمی میں بھوک اور پیاس کی شدت مومن کے روزے میں کوئی خلل نہیں ڈال پاتی، ٹھیک اسی طرح نرم و گرم حالات میں بھی مومن کے پائے ثبات میںکوئی لغزش نہیں آسکتی۔ چنانچہ حضور ؐ نے فرمایا: ’’ رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘ (بیہقی)
روزے کے مقاصد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انسان بھوک اور پیاس کی حالت میں ان لوگوں کی کیفیت کااندازہ کرسکے جو ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں تاکہ انسان میں دوسروں کی تکلیفوںاور مصیبتوں کو سمجھنے اور ان کو دور کرنے کا جذبہ پیداہوسکے۔ رمضان المبارک میں جذبۂ غم خواری کو پروان چڑھائیے، باہم الفت ومحبت، رحم دلی ونرم خوئی ، نصح وخیر خواہی، ہمدردی و دل جوئی، اخلاص و مروت اور اخوت و بھائی چارگی کاماحول پیدا کیجیے۔ بیواؤں ، یتیموں او رغریبوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور سب کے لیے غم گساربن کر اس ماہ کے فیوض و برکات سمیٹنے کی کوشش کی کیجیے۔پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ رمضان غم خواری کا مہینہ ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
روزہ کا مقصدجائز خواہشوں پر کنٹرول کرنا بھی ہے۔ جو انسان دن بھر جائز طریقے پر بھی نفسانی خواہشوں کی تکمیل سے رُکا رہتا ہے، بھلا وہ ناجائز طریقے سے کس طرح اپنی خواہشیں پوری کرسکتاہے۔ بھوک اور پیاس سے انسان کو ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ جو نکاح کا ضرورت مند ہو مگر اس کے معاشی حالات اجازت نہ دیتے ہوں ، اسے روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور روزے کو اس کے حق میں تریاق بتایا گیاہے۔
روزہ نہ صرف نفسانی خواہشوں پر قابو پانے کی طاقت عطا کرتا ہے بلکہ جملہ برائیوں سے محفوظ رکھتاہے۔ روزے دار کو ہر آن یہ شعور ہوتاہے کہ نہ صرف کھانا پینا اس کے روزے کو فاسد کرسکتاہے بلکہ وہ ہر آن احتساب کرتا رہتاہے اور ہر برائی سے اجتناب کی کوشش کرتاہے،کیوں کہ وہ جانتاہے کہ کسی بھی برائی کے ارتکاب کی صورت میں اسے بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہ ملے گا اور اس کے سامنے ہر وقت پیارے نبیؐ کا یہ ارشاد رہتاہے: ’’ کتنے ہی روزے دار ہیں جنھیں اپنے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘(ابن ماجہ)
Comments are closed.