الیکٹرول بانڈزپر سپریم کورٹ کا فیصلہ نظیربن سکتا ہے

جاوید جمال الدین
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلہ میں الیکٹرول بانڈز اسکیم کو غیر قانونی اور غیر دستوری قرار دیاحالانکہ وزیراعظم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ الیکٹرول بانڈزسے شفافیت آئے گی۔ اب وزیراعظم نریندر مودی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیاجانا انہیں اس بات کا احساس دلانا ہے کہ آخر یہ سب کیسے ممکن ہوا۔
سپریم کورٹ نے اس تعلق سےتمام حسابات طلب کئے ہیں۔سیاسی سطح پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ تاریخی فیصلہ عوام کا اعتماد اورملک کی جمہوری قدروں کو بحال کرے گا۔ بلکہ کانگریس ترجمان جے رام رمیش کا اندازہ ہے، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مرکزکی مودی حکومت کے خاتمے کی ابتداء ثابت ہوگا،لیکن اسے ایک قیاس ہی کہہ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اس ہفتے اسٹیٹ بینک آف انڈیا ( ایس بی آئی) کی الیکٹورل بانڈز کے یونک الفانیو میرک نمبروں سمیت مکمل تفصیلات جسے الیکشن کمیشن کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے عدالت نے اس کا انکشاف نہ کرنے پر سرزنش کی اور بینک کو سخت نوٹس جاری کرتے ہوئے پیر تک جواب داخل کرنے کی ہدایت دے دی ہے،چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ ، جسٹس سنجیو کھنہ ، جسٹس بی آر گاوئی، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی آئینی بینچ نے ایس بی آئی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ الیکٹورل بانڈز جاری کرنے والے بینک نے ہر ایک بانڈ کا یونک الفانیو میرک نمبر کا انکشاف نہیں کیا ہے۔ عدالت عظمی کے سامنے سینئر وکیل کپل سبل نے دلیل دی ہے کہ 15 فروری 2024 کے آئینی بنچ کے فیصلےکے مطابق تمام تفصیلات کا انکشاف کیا جانا چاہیے تھا۔ اس پر سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ چونکہ ایس بی آئی فیصلے میں فریق ہے ، اس لیے اسے نوٹس جاری کیے جا سکتا ہے۔بنچ نے کہا کہ ایس بی آئی کے وکیل کو یہاں ہونا چاہئے تھا۔ بینچ نے کہا ” اگر آپ فیصلے کو دیکھیں گے تو آپ کومعلوم ہو گا کہ ہم نے بتا دیا ہے کہ بانڈ نمبر فراہم کرنا ہو گا“۔ اهم درخواست گزار این جی او ایسوسی ایشن فار ڈیمو کریٹک ریفارمز کی جانب سے ایڈو کیٹ پر شانت بھوشن پیش ہوئے۔الیکشن کمیشن کی درخواست پر بینچ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے عدالت عظمی میں جمع کرائے گئے الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے مقصد سے اسکین کر کے واپس کی جانی چاہیے۔
الیکشن کمیشن نے ایڈوکیٹ امیت شرما کے توسط سے عدالت عظمی میں ایک درخواست دائر کی جس میں 2 اپریل 2019 اور 2 نومبر 2023 کے اپنے سابقہ احکامات کے لحاظ سے عدالت عظمی کو جمع کرائے گئےالیکٹورل بانڈز کے اعدادو شمار کو جاری کرنے کی ہدایت کا مطالبہ کہ کیا گیا۔ عدالت عظمی کے 11 مارچ 2024 کے حکم کے مطابق ، الیکشن کمیشن نے جمعرات کو ایس بی آئی کے ذریعہ دیئےگئے الیکٹورل بانڈ ز کاڈیٹا اپ لوڈ کر دیا تھا۔
کانگریس سمیت حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں نے مودی حکومت کے انتخابی بانڈ جاری کرنے کے فیصلے کو لوٹ کی پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بی جے پی کا خزانہ بھرنے کے لئے پیسہ اکٹھا کرنے کی ‘چندہ دو،دھندہ ہوا کی اس کی پالیسی ثابت ہوئی ہے، حکومت کی الیکٹورل بانڈ پالیسی نے واضح کر دیا ہے کہ اس نے صرف ان کمپنیوں اور افراد کو کام دیا ہے جنہوں نے انتخابی بانڈز کے ذریعے بی جے پی کو چندہ دیاالزام عائد کیا گیا ہے کہ انتخابی بانڈز سے متعلق معلومات کے منظر عام پر آنے کے بعد سے یہ پہلا تجزیہ ہے، جسے ایس بی آئی نے انتخابات کے بعد تک ملتوی کرنے کی کئی ہفتوں کی کو ششوں کے بعد کل رات عام کر دیا۔ اس میں 1300 سے زیادہ کمپنیاں اور افراد نے انتخابی بانڈز کی شکل میں چندہ دیا ہے ، جس میں 2019 کے بعد سے بی جے پی کو 6000 کروڑ روپے سے زیادہ کا عطیہ شامل ہے۔جوکہ تمام سیاسی پارٹیوں سے زیادہ ہے۔
دراصل ملک میں الیکٹرل باؤنس متعارف کرانے کا مقصد یہ تھا کہ ملکی سیاست میں استعمال ہونے والے غیر قانونی دولت کا راستہ روکا جائے سب ہے لیکن ان بانڈز کے اجرا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے اور اس اقدام کو جمہوریت میں بگاڑ سے تشبیہہ دی جا رہی ہے،دو برس کے بعد اب سپریم کورٹ نے دوبارہ اس معاملے کا جائزہ لینے اور الیکٹورل بانڈز کے خلاف دی جانے والی درخواستوں کی سماعت ایک مرتبہ پھر شروع کی اور ایس بی آئی کو تفصیلات پیش کر نے کی ہدایت دی گئی۔
یاد رہے کہ ملک میں سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کے لیے الیکٹورل بانڈز متعارف کرائے گئے تھے اور ان بانڈز کے ذریعے دی جانے والی رقم پر سود بھی نہیں لگتاہے۔ 2018 میں متعارف کرائے جانے والے یہ بلاسود بانڈز ایک خاص مدت کے لیے جاری کیے جاتے ہیں جن کے تحت سیاسی جماعتوں کو ایک ہزار سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کی رقم دی جا سکتی ہے۔اس اقدام کے تحت کوئی بھی شہری یا کمپنی سال کے مخصوص دنوں میں الیکٹورل بانڈز خرید کر اپنی پسند کی سیاسی جماعت کی مالی مدد کر سکتا ہے اور مذکورہ سیاسی جماعت 15 دن کے اندر یہ رقم کسی بھی سرکاری بینک سے نکلوا سکتی ہے۔
قانون کے مطابق ان بانڈز کے ذریعے کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کو پیسے دیے جا سکتے ہیں جس نے قومی یا ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ایک فیصد سے کم ووٹ نہ حاصل کیے ہوں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس اسکیم کے تحت ملک بھر میں 19 قسطوں میں ڈیڑھ ارب روپے کے بانڈز فروخت ہو چکے ہیں۔ اندازے کے مطابق اب تک سب سے زیادہ فنڈنگ بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) کو ملی ہے۔
2019 میں الیکٹورل بانڈز کے تحت دی جانے والی کل رقم کا تین چوتھائی بی جے پی کو ملا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت، کانگریس پارٹی کے حصے میں صرف نو فیصد رقم آئی ہے۔اگرملک میں انتخابات پر نظر رکھنے والی تنظیموں کے جائزوں کا دیکھا جائے تو ان کے مطابق 2019 میں ملک کی سات بڑی سیاسی جماعتوں کو ملنے والی فنڈگثنگ کا 62 فیصد الیکٹورل بانڈز سے آیا تھا۔الیکٹورل بانڈز کو متعارف کرانے کا مقصد ملکی سیاست کو ناجائز پیسے سے پاک کرنا اور سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کو زیادہ شفاف بنانا تھا، لیکن سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس سکیم کا نتیجہ الٹ نکلا ہے۔ ان کے خیال میں الیکٹورل بانڈز کے معاملے کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا جا رہا ہے۔
ایک چیز تو واضح تھی اور وہ یہ کہ اس بات کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا کہ کون سا بانڈ کس نے خریدا تھا اور اِس بانڈ کے تحت دی جانے والی رقم کس سیاسی جماعت کو ملی۔ یہی وہ چیز ہے جو الیکٹورل بانڈز کو ‘غیر آئینی’ بنارہی تھی کیونکہ عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کسی سیاسی جماعت کو پیسے کن ذرائع سے مل رہے ہیں۔سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اس پر سے پردہ ہٹا چکا ہے ، یہ کہنا بھی درست نہیں کہ الیکٹورل بانڈز کے ذریعے رقم دینے والے کا نام خفیہ ہی رہتا ہے،چونکہ سرکاری بینکوں کے پاس بانڈ خریدنے والے شخص یا کمپنی کا اندراج موجود ہوتا ہے، اس لیے حکمران جماعت آسانی سے یہ معلومات حاصل کر کے عطیہ دینے والوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔یہی سبب ہے کہ ‘ان بانڈز کے ذریعے حکمراں جماعت کو پر سبقت مل جاتی ہے جو کہ غیر منصفانہ چیز ہے۔’اور یہ ایس بی آئی کی تفصیل سے ثابت بھی ہوگیا ہے۔حالانکہ 2017 میں الیکٹورل بانڈز جاری کرنے کا پہلی مرتبہ اعلان کیا گیا تھا تو الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ ان بانڈز کی وجہ سے انتخابات میں شفافیت کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر انڈیا کے سٹیٹ بینک، وزارت قانون اور بہت سے ارکانِ اسمبلی کا بھی یہی کہنا تھا کہ بانڈز سے ملکی سیاست میں ناجائز دولت کی ریل پیل ختم نہیں ہوگی اور یہ سچ بھی ثابت ہوا ہے۔بعد میں الیکشن کمیشن نے بھی بانڈز کی حمایت کرنا شروع کر دی اور کچھ عرصہ بعد عدالتوں نے بھی اس معاملے پر اپنا فیصلہ مؤخر کر دیا۔
ایک عام خیال رہا ہے کہ ‘الیکٹورل بانڈز کے ذریعے دراصل حکومت نے غیر شفافیت کو قانونی شکل دے دی ہے۔بانڈز کے ذریعے ‘فنڈز دینے والے جتنا پیسہ چاہیں پارٹی کو دے سکتے ہیں اور کسی بھی فریق کے لیے یہ ضر وری نہیں ہے کہ اس معاملے کی تفصیل بتائے۔ اگر اس چیز کو ‘شفافیت’ کے نام پر بیچا جا رہا ہے تو یہ قابل افسوس ہے۔البتہ یہ حقیقت ہے کہ۔سیاسی جماعتوں کی مالی مدد کے عمل کو زیادہ شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔کیونکہ انتخابات ایک مہنگا کام ہے اور انتخابات میں زیادہ تر پیسہ کاروباری لوگ یا کمپنیاں لگاتی ہیں۔ اندازے کے مطابق 2019 کے عام انتخابات پر سات ارب روپے خرچ کیے گئے تھے جو کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات پر خرچ کی جانے والی رقم کے بعد دوسری بڑی رقم تھی۔
ملک میں ووٹروں کی تعداد 2019 کے انتخابات تک یہ تعداد 90 کروڑ تک پہنچ چکی تھی۔جوکہ اس بار 97 کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے اور نوجوان میں تعداد کے ساتھ پہلی بار ووٹ دینے والوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ظاہر ہے کہ ووٹرز کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے اب امیدواروں کو زیادہ پیسے کی ضرورت ہے۔ اور ملک میں تین سطح کے انتخابات کے نظام کی وجہ سے الیکشن کا مرحلہ بھی بہت طویل ہوتا ہے۔ اب انتخابات میں مقابلہ بازی کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ قانون کے مطابق سیاسی جماعتیں ہر سال اپنی آمدنی اور اخراجات کی تفصیل الیکشن کمیشن میں جمع کراتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے نظام میں اصلاحات کامرحلہ آسان نہیں ہے،لیکن اس حوالے سے بحث ہو سکتی ہے کہ مزید اصلاحات اور اس سے زیادہ شفافیت کی ضرورت ہے، الیکٹرول بانڈز پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک تاریخ رقم کرتے ہوئے ایک نظیرپیش کرے گا۔

Comments are closed.