انتخابی سرکس کا کھیل زبردست مگررنگ ماسٹر زیر دست

ڈاکٹر سلیم خان
انتخابی سرکس کا باقائدہ آغاز ہو چکا ہے۔ اس کھیل کے رنگ ماسٹر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری سارے وحشی درندوں کو قابو میں رکھنا ہے لیکن افسوس کے اس کی اپنی حالت نہایت خستہ ہے۔ پارلیمانی انتخابات 2024 کی تاریخوں کا اعلان 16 مارچ 2024 کو انتخابی کمیشن نے کردیا اور اس کے ساتھ اوڈیشہ، سکم، اروناچل پردیش اور آندھرا پردیش کے صوبائی انتخاب کا نظام الاوقات شائع ہوگیا۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار سمیت نئے تعینات ہونے والے الیکشن کمشنر گیانیش کمار اور سکھبیر سنگھ سندھو نے اپنا پہلا فرض منصبی تو نبھا دیا مگر آگے چل کر وہ اپنی ذمہ داری کے ساتھ کس حد تک انصاف کرپائیں گے اس کی بابت کافی اندیشے ہیں۔ اس لیے کہ جس طرح کے لوگوں کو الیکشن کمیشن میں شامل کیا گیا اور باہر جانے والوں کے ساتھ جو بدسلوکی کی گئی ہے اس کے سبب کوئی سرکار کی جانب آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ گیانیش کمار نے تو بابری مسجد سے لے کر کشمیر کی دفع 370 تک ہونے والی ہر سرکاری ناانصافی میں بڑی سعادتمندی سے ہاتھ بنٹایا ہے اس لیے ان سے آگے بھی یہی توقع ہے اور سکھبیر کو جس طرح ایک ماہ کے اندر لوک پال سے لایا گیا اسی طرح باہر بھی بھیجا جاسکتا ہے ۔ ارون گوئیل کی مثال ان کے سامنے ہے جنھیں بڑے طمطراق سے لایا گیا اور رسوا کر کے دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا گیا ۔
مودی سرکار نےمنصوبہ بند طریقے پرانتخابی کمیشن یعنی رنگ ماسٹر کو کمزور کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ارون گوئیل کا اچانک چلے جانا ہے۔ وہ جس طرح حیرت انگیز میں گئے اسی قدر تشویشناک ان کی آمد بھی تھی ۔1985 بیچ کے آئی اے ایس عہدیدار کو ایک ہی دن میں ان کی خدمات سے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ دےدیا گیا۔ وزارت قانون نے اسی دن میں ان کی فائیل کو منظوری دے دی جبکہ وزیراعظم کے سامنے 4 ناموں کا ایک پینل رکھا گیا تھا ۔ اس پینل میں شامل 4 ناموں میں سے کسی کو بھی وزیر قانون نے نہیں چُنا تھا ۔ اتنی ساری باضابطگی کے باوجود 24 گھنٹے کے اندر گوئیل کے نام کو صدر جمہوریہ سے منظوری بھی حاصل ہوگئی اور 6 سالہ کی میعاد کے لیے موصوف کا تقرر کردیا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ 6؍سال تو دور تین ماہ کے اندر ہی وہ رسیّ توڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی کیونکہ اس طرح سرکار تو دور پرچون کی دوکان بھی نہیں چلائی جاتی ۔ اپنی عدم سنجیدگی سے مودی وشاہ نے حکومت ہند کو ایک جگ ہنسائی کاسامان بنادیا ہے۔
ارون گوئیل کی تقرری کا معاملہ اس قدر مضحکہ خیز تھا کہ اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک پی آئی ایل داخل ہوگئی ۔ عرضی دہندہ کی نمائندگی کر نے والے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ موجودہ سکریٹری ہیں، انھیں جمعہ کو اپنی خواہش پر سبکدوشی دی گئی تھی۔ تقرری نامہ ہفتہ کو جاری کیا گیا تھا اور پیر کے روز انھوں نے الیکشن کمشنر کی شکل میں کام کرنا شروع کردیا۔یہ معاملہ زیر سماعت تھا پھر بھی حکومت نے آو دیکھا نہ تاو اس متنازع تقرری پر مہر ثبت کر دی۔ اس غیر معمولی جلد بازی اور ’غیر ضروری عجلت“ کے مظاہرہ پر جسٹس کے ایم جوزف کی زیر صدارت 5 رکنی دستوری بنچ نے اعتراض کیا تھا ۔عدالت عظمیٰ نے کہا تھاکہ ایک ہی دن میں تقرری پر یہ سوال تو بنتا ہے کہ مرکز نے کس طریقہ کار پر عمل کیا اور سیکورٹی کی کون سی ترکیب کی؟سپریم کورٹ نے اس وقت مرکزی حکومت سے ارون گوئیل کی الیکشن کمشنر کی شکل میں تقرری سے متعلق فائلوں کو دیکھنے کے لیے طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور وینکٹ رمنی سے کہا تھا کہ اس افسر کی تقرری کی فائلیں پیش کریں۔ آپ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ انھیں ان کی خواہش سے سبکدوشی کی بنیاد پر مقرر کیا گیا اور اگر کوئی لاقانونیت نہیں ہوئی تو آپ کو خوف نہیں کرنا چاہیے اور اگر سب کچھ مناسب طریقے سے چل رہا ہے تو ہمیں فائل دکھائیں۔
عدالت کے اس کڑے رخ پر اٹارنی جنرل نے عدالت سمجھا نے کے لیے کہا تھا کہ ہمیں اتنی دور کی نہیں سوچنی چاہیے یا ایسا کرنا چاہیے۔ جسٹس جوزف نے وضاحت میں یہ بھی کہا تھا کہ عدالت تقرری پر فیصلہ نہیں دے گی اور ہم اس فائل کو دیکھنا چاہتے ہیں جب تک کہ آپ کچھ خصوصی اختیار کا دعویٰ نہیں کرتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دیکھیں کہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں۔ ہم فائل دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہماری ذمہ داری سے جڑی منسلک ہے۔ یہ حکومت کے لیے شرمناک ہے کہ عدلیہ کو اس پر اعتبار نہیں رہا اور انتظامی امور کی جانچ پڑتال کرنے لگی ۔ حکومت کی باگ ڈور اگر نااہل اور غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں آجائے عدلیہ کو اپنا دائرۂ کار بڑھاکر حکومت کے کان اینٹھنا پڑتا ہے اورسرکار بے بس و لاچار ہوجاتی ہے۔ مودی سرکار کو اس قدر رسوا کر کےمقرر ہونے والے الیکشن کمشنر ارون گوئیل کے اچانک استعفیٰ نے اپوزیشن جماعتوں کو پھر سے مرکزی حکومت کو نشانے پر لینے کا نادر موقع عطا کردیا اور سب کے سب راشن پانی لے کر اس پر چڑھ دوڑے ۔
کانگریس کے سربراہ ملیکارجن کھرگے نے مرکز پر تنقید کرتے ہوئے پوچھا کہ کیایہ الیکشن کمیشن ہے یا الیکشن اومیشن؟ انہوں نے یاد دلایا کہ "ہندوستان میں اب صرف ایک الیکشن کمشنر ہے، یہاں تک کہ چند دنوں میں لوک سبھا کے انتخابات کا اعلان ہونا ہے۔ کیوں؟ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے، اگر ہم اپنے آزاد اداروں کو منظم طریقے سے ختم کرنے سے باز نہیں آتے ہیں، تو ہماری جمہوریت آمریت کے ذریعے غصب ہو جائے گی!‘‘ کھرگے نے سوال کیا تھا کہ ’’ آخر الذکر(پانڈے) کی مدت پوری ہونے کے 23 دن بعد بھی نئے الیکشن کمشنر کی تقرری کیوں نہیں کی گئی؟ مودی حکومت کو ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے۔ اور معقول وضاحت کے ساتھ سامنے آئیں،‘‘ ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان ساکیت گوکھلے نے اپنی تشویشناک کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’مودی حکومت نے ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے جس کے تحت اب الیکشن کمشنروں کا تقرر پی ایم مودی اور ان کے منتخب کردہ ایک وزیر کے اکثریتی ووٹ سے کیا جائے گا۔ لہذا، 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے، مودی اب تین میں سے دو الیکشن کمشنروں کا تقرر کریں گے۔ یہ نہایت تشویشناک ہے‘‘۔
کانگریس جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے یاد دلایا کہ ’’ 2019 کے انتخابات کے دوران، اس وقت کے ایک الیکشن کمشنر مسٹر اشوک لواسا نے ’ضابطۂ اخلاق ‘ کی خلاف ورزی کرنے پر پی ایم کو کلین چٹ دینے سے اختلاف کیا تھا۔ اس کے بعد انہیں مسلسل پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کی سبکدوشی سے قبل ای ڈی نے ان کی اہلیہ سے تفتیش شروع کردی اور پھر انہیں رسوا کرکے گھر بھیج دیا گیا۔ وینو گوپال کے مطابق ’’یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت جمہوری روایات کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کی وضاحت ہونی چاہیے، اور ECI کو ہر وقت مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے‘‘۔ انہوں نے ای سی آئی جیسے آئینی ادارے میں عدم شفافیت پر افسوس کا اظہار کیا اور مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی صحت کے لیے گہری تشویش کی بات ہے۔ یہ یا تو کانگریسیوں کی سادہ لو حی ہے یا منافقت ہے کہ وہ آج بھی اس ملک کو جمہوریت کہتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ہندوستان کا شمار انتخابی آمریت میں ہونے لگا ہے یہ حقیقت ہے کہ شمالی کوریا ،روس اور مصر میں بھی سے انتخابی نوٹنکی ہوتی ہے لیکن کوئی انہیں جمہوریت نہیں کہتا ایسے میں مودی سرکار کو عار دلانالا حاصل ہے ۔
ارون گوئیل کےنکل جانے کے بعد سوشیل میڈیا میں بڑی دلچسپ بحث شروع ہوگئی ۔ یار دوستوں نے یہ خبر اڑادی کہ بہت جلد چندی گڑھ کے بدنام زمانہ انل مسیح کو ان کی غیر معمولی دلیری کے مظاہرے پر الیکشن کمشنر بنادیا جائے گا کیونکہ اس خستہ حالی میں بی جے پی کے پاس الیکشن چرانے کے سوا کوئی چارۂ کار تو ہے نہیں۔ وہ ای ڈی اور سی بی آئی کا بھرپور استعمال کرکے بھی رائے عامہ کو اپنے حق میں نہیں کرسکی ۔ اڈانی و امبانی کے دھن دولت سے خریدا جانے والا گودی میڈیا بھی رائے دہندگان کو متاثر کرنے میں ناکام ہورہا یہاں تک کہ رام مندر کی گرمی بھی وقت سے پہلے نکل گئی۔ ایسے میں بس الیکشن کمیشن کے ذریعہ دھاندلی کا سہارا رہ گیا ہے۔اس دوران کچھ لوگوں نے سامبت پاترا کا نام اچھال کر بھی سرکار کا خوب مذاق اڑایا لیکن موٹی کھال والی حکومت کوکوئی فرق نہیں پڑا۔فی الحال مودی سرکار پر انتخاب کا جنون سوار ہے۔ اس نے انتخابی سرکس کےرنگ ماسٹر کو نہایت کمزور کردیا ہے۔وہ چونکہ کسی معاملے سنجیدہ نہیں ہے اس لیے سارے آئینی اداروں کا وقار پامال ہورہا ہے لیکن سرکار کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اس کی اپنی رسوائی بھی ہے۔ اقتدار کی ہوس میں اس کو نہ اپنی اور نہ قوم کے عزت و وقار کی پروا ہے۔
Comments are closed.