Baseerat Online News Portal

روس:صدارتی انتخابات کے لئے ووٹنگ کاعمل جاری،موجودہ صدرپوٹن کی جیت یقینی

بصیرت نیوزڈیسک
روس میں ہر وہ اپوزیشن رہنما جو صدر پوٹن کے لیے کسی بھی طرح کا سیاسی خطرہ بن سکتا تھا، وہ یا تو جیل میں ہے یا جلاوطن۔ ملک کے تمام آزاد میڈیا ادارے جو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر سکتے تھے، بند کیے جا چکے ہیں۔ اس وقت 146 ملین آبادی کے اس ملک کے الیکٹورل عمل پر ماسکو حکومت کا مکمل کنٹرول ہے۔
تاہم اس کے باوجود گزشتہ دو برس سے جاری یوکرینی جنگ کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہیں روسی صدارتی انتخابات پر ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ روس میں انتخابات کا نظام کیا ہے اور بیلٹ پیپر پر کون کون ہے؟
تمام روسی شہری جن کی عمر اٹھارہ برس یا اس سے زائد ہو اور جو کسی عدالت سے مجرم قرار نہ دیے گئے ہوں، ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ مرکزی الیکشن کمیشن کے مطابق روس اور روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں میں اس وقت مجموعی طور پر ایک سو بارہ اعشاریہ تین ملین اہل ووٹر ہیں جب کہ مزید ایک اعشاریہ نو ملین ووٹر بیرون ممالک مقیم ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 67 اعشاریہ پانچ فیصد تھا جب کہ مبصرین اور عام افراد نے ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کی اطلاعات دی تھیں۔ سن 2021 کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ اکیاون اعشاریہ سات فیصد رہا۔
رقبے کے اعتبار سے دنیا کے اس سب سے بڑے ملک میںصدارتی انتخابات کے سلسلے میں ووٹنگ کا عمل جمعے کو شروع ہوگیا ہے اور اتوار تک جاری ہے۔ روسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ ایک روز کی بجائے تین روز تک ہو رہی ہے۔
اس سے قبل روس میں سن 2020 میںاُس ریفرنڈم کے لیے بھی ووٹنگ کئی روز تک جاری رہی تھی، جس کے نتیجے میں ولادیمیر پوٹن کو مزید دو مرتبہ صدر کے عہدے کے لیے انتخابی معرکے میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔
یہ پہلا موقع ہے کہ روسی صدارتی انتخابات میں آن لائن ووٹنگ کا استعمال بھی ہو رہا ہے۔ روس کے 27 خطوں کے علاوہ سن 2014 میں غیرقانونی طور پر قبضے میں لیے یوکرینی علاقے کریمیا میں لوگ آن لائن طریقے سے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ حالیہ دو برسوں میں غیرقانونی طور پر روس میں ضم کیے گئے یوکرینی علاقوں ڈونیٹسک، لوہانسک، زاپوریژیا اور خیرسون میں بھی روسی صدارتی انتخابات کے سلسلے میں ووٹنگ ہو رہی ہے تاہم ان علاقوں پر روسی فوج کا مکمل کنٹرول نہیں ہے۔
اکہتر سالہ پوٹن آزاد امیدوار کے طور پر پانچویں مدت صدارت کے لیے ان انتخابات میں شریک ہیں۔ اگر وہ انتخابات جیتتے ہیں تو اگلے چھ برس کے لیے وہ روسی صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ حالیہ دستوری ترامیم کے مطابق وہ دو ہزار تیس میں بھی صدارتی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے، یعنی قانونی طور پر وہ دو ہزار چھتیس تک ملکی صدر کے عہدے کے لیے اہل ہیں۔
پوٹن سن 2000 میں پہلی بار اقتدار میں آئے تھے۔ وہ سابق سوویت یونین کے آمر جوزف اسٹالن کے بعد روس پر سب سے زیادہ طویل عرصے تک حکومت کرنے والے رہنما ہیں۔ صدارتی انتخابات میں ولادیمیر پوٹن کے ‘مخالف‘ امیدوار بھی پارلیمان میں روسی حکومت کی حلیف جماعتوں ہی کے رہنما ہیں۔
صدارتی عہدے کی دوڑ میں کمیونسٹ پارٹی کے نکولائی خاریتونوف، نیشنلسٹ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیونِد سلوسکی اور نیوپیپلز پارٹی کے ولادیسلاف دوانکوف ہیں۔
خارتینوف سن 2004 کے صدارتی انتخابات میں بھی پوٹن کے مخالف کھڑے ہوئے تھے اور بھاری فرق سے ہارے تھے۔
انتخابات میں شریک تقریباﹰ تمام امیدوار یوکرین پر روسی حملے سمیت ماسکو حکومت کی پالیسیوں کے حامی ہیں۔ سابقہ انتخابات سے واضح ہے کہ ایسے امیدوار بہ ظاہر پوٹن کے مقابلے میں کبھی کوئی خطرہ نہیں بنے۔ پچھلے صدارتی انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو گیارہ اعشاریہ آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے جب کہ پوٹن نے 76 اعشاریہ سات فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
پوٹن کے مقابلے میں سب سے اہم رہنما بورس نادیزدن تھے، جنہوں نے یوکرینی جنگ کے خاتمے کا نعرہ لگایا تھا۔ صدارتی معرکے میں داخل ہونے کے لیے درکار انہوں نے غیرمعمولی حمایت کے ساتھ عوامی دستخط بھی حاصل کیے تھے تاکہ انتخابات میں شریک ہو سکیں، تاہم الیکشن کمیشن نے ان کے کاغذاتِ نامزدگی یہ کہہ کر رد کر دیے کہ ان کے مہیا کردہ عوامی دستخطوں میں زیادہ تر جعلی ہیں۔
ان انتخابات میں پوٹن کی مخالفت کرنے والا کوئی رہنما شریک نہیں ہے۔ ایسے تمام افراد یا تو اس وقت جیلوں میں ہیں اور یا پھر جلا وطن ہیں۔ حال ہی میں پوٹن کے شدید مخالف اور عالمی سطح پر سب سے زیادہ معروف اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی جیل میں انتقال کر گئے۔ سن 2018 میں انہوں نے صدر پوٹن کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی، مگر انہیں روک دیا گیا تھا۔
آزاد مبصرین کے مطابق روسی انتخابات کے صاف اور شفاف ہونے کے امکانات محدود ہیں۔ مبصرین نے انتخابات کو کئی روز تک پھیلانے اور آن لائن ووٹنگ پر بھی تنقید کی ہے اور انہیں انتخابی شفافیت کو مزید نقصان پہنچانے سے عبارت کیا ہے۔
اپوزیشن کے مطابق سن 2021 میں ڈیجیٹل ووٹنگ میں بے ضابطگیوں کے واضح شواہد سامنے آئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے بھی انتخابات سے جڑی بے ضابطگیوں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کردہ ویڈیوز سے ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سن 2018 کے صدارتی انتخابات سے متعلق یورپی تنظیم برائے ترقی و سلامتی (OSCE) کے انٹرنینشل الیکشن آبزرویشن مشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ انتخابات میں کوئی حقیقی مقابلہ موجود نہیں تھا اور روس تمام ناقدانہ آوازوں کو دباؤ کا سامنا ہے۔

Comments are closed.