وِشو گرو سے وِش گرو تک

ڈاکٹر سلیم خان
ہندی زبان میں عالمی رہنما کو ’وشوگرو ‘ کہتے ہیں اور درمیان سے اگر حرف ’و‘ نکال دیا جائے تو وہ ’وِش گرو‘ یعنی زہریلا رہنما ہوجاتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے وطن عزیز کو ’وشوگرو‘ بنانے کے چکر میں ’وِش گرو‘ بنادیا۔ اس کا تازہ نمونہ ان کے اور وزیرداخلہ کے صوبے آدرش گجرات میں سامنے آیا جہاں احمد آباد کی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہفتے کی شب نمازِ تراویح کے دوران ایک مشتعل ہجوم نے حملہ کرکے پانچ غیر ملکی طلبہ کو زخمی کر دیا ۔ ان زخمیوں کا تعلق افغانستان، سری لنکا، ازبکستان اورجنوبی افریقہ سے ہے۔ اس طرح پوری دنیا کے سامنے سنگھی ذہنیت اور تربیت روز روشن کی مانند عیاں ہوگئی۔ احمد آباد کے پولیس کمشنر جی ایس ملک نے اس سانحہ کا اعتراف کیا کہ تقریباً 20 سے 25 لوگ احمد آباد میں گجرات یونیورسٹی کے ہاسٹل میں داخل ہوکر وہاں نماز ادا کرنے پر اعتراض کیا اور اسی درمیان لاٹھیوں اور چاقوؤں سے لیس ایک ہجوم نے ہاسٹل میں گھس کرنہ صرف طلبہ پر حملہ کیا بلکہ کمروں میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ ہاسٹل کے سیکیورٹی گارڈ ہجوم کو روکنے میں ناکام رہے۔
جئے شری رام کا نعرہ لگانے والے یہ وشو گرو کے رکشک( محافظ) پولیس کے پہنچنے سے قبل فرار ہو گئے ۔ اس کے بعد زخمی طلبہ کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں ٹوٹی ہوئی بائیک اور لیپ ٹاپ اور کمروں میں توڑ پھوڑ کے مناظر ، ہاسٹل کی جانب پتھراؤ اور گالی گلوچ نے پوری دنیا میں مودی و شاہ کا نام روشن کردیا تو اب قصور واروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے کیا حاصل؟ ویسے دنیا کو دکھانے کے لیے ہتیش میوادہ اور بھارت پٹیل کو ضابطہ فوجداری کی مختلف دفعات کے تحت گرفتارتو کرلیا گیا ہے مگر عدالت انہیں ناکافی ثبوت کا بہانہ بنا کر رہا کردے گی۔ر کن پارلیمان اسدالدین اویسی نے سوال کیا ہے کہ ’ گجرات مودی اور امت شاہ کی آبائی ریاست ہے تو کیا وہ اس معاملے میں مداخلت کریں گے؟‘ بی جےپی تو اس طرح کی گھٹناوں پر فخر جتا کر سیاسی فائدہ اٹھانے والی جماعت ہے۔
مودی جی دنیا بھر میں گھوم کر دہشت گردی کے خلاف صفر برداشت کا راگ الاپتے ہیں لیکن ہندو دہشت گردوں کے معاملے میں ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے بلکہ اندر ہی اندر ہمدردی کا اظہار کرتےہیں ۔ اس کا واضح ثبوت گجرات فساد میں ملوث سارے مجرمین کی رہائی ہے نیز سرکاری افسران کی جیل سے نکال کر عہدے پر بحالی اور ترقی ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں ملوث سارے مجرمین رہائی ہے اور مالیگاوں بم دھماکے میں ملوث نام نہاد سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو رکن پارلیمان بناکر اس کی پذیرائی اس کا ثبوت ہے۔ مودی نے 2019میں پرتاپ چند سارنگی کو مرکزی وزیر بنایا جبکہ وہ جنوری 1999 میں اڑیسہ میں بجرنگ دل کے صدر تھے اور آسٹریلیائی مشنری گراہم اسٹینس کو ان کے 11 اور 7 سال کی عمر کے دو بیٹوں سمیت بجرنگ دل والوں نے زندہ جلا دیا تھا۔ سارنگی پر حلف لیتے وقت ۷؍ مجرمانہ معاملے زیر التوا تھے، ان میں دھمکی، فساد، مذہبی منافرت پھیلانا اور جبراً وصولی کے بھی الزام شامل تھا ۔ مارچ 2002 میں ان کو اڑیسہ پولیس نے فساد، آگ زنی، حملہ اور سرکاری جائیداد کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
گجرات کے اندر صرف سیاستدانوں سے زیادہ شرمناک گجرات یونیورسٹی کی وائس چانسلر نیرجا گپتا کا ردعمل ہےجنھوں اسے جائز ٹھہراتے ہوئے کہا ’چوں کہ طلبہ کا تعلق دوسرے ملکوں سے ہے اس لیے انہیں ’ثقافتی حساسیت‘ کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ جب آپ بیرون ملک جاتے ہیں تو آپ کو ثقافتی حساسیت سیکھنی چاہیے‘۔ یعنی سارا قصور معتوب طلبہ کا ہے حملہ آوروں کا نہیں جن کی تربیت سنگھ کی شاکھا میں ہوچکی ہے۔ یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے دل میں اگر اس قدر زہر بھرا ہو تو اساتذہ اور طلبہ کے بارے میں کیا کہا جائے بعید نہیں کہ اسی خباثت نے اس زہریلی ناگن کو اس عہدے سے نوازہ ہو۔یہ تضاد بھی دلچسپ ہے کہ ایک طرف یونیورسٹی کی وائس چانسلر مظلوم طلبہ کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہے دوسری جانب وزارتِ خارجہ گجرات کی ریاستی حکومت سے تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کروارہا ہے۔ گجرات کے وزیر مملکت برائے داخلہ ہرش سنگھوی میٹنگ میں بلاکر ڈی جی اور سی پی کو فوری ایکشن لینے کی ہدایت کررہےہیں ۔ ملزمین کی گرفتاری کے لیے 9 ٹیمیں تشکیل دے کر25 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہورہی ہے۔
گجرات یونیورسٹی کے اندر مختلف کورسز میں 300 غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے 75 مذکورہ ہاسٹل کے اے بلاک میں رہتے تھے۔ان کا تعلق ازبکستان، سری لنکا، بھوٹان، بنگلہ دیش، شام اور افغانستان سے ہے۔ ہندو توانواز دہشت گردوں کی اس بزدلانہ حرکت نے ہاسٹل میں مقیم تمام غیر ملکی طلبہ کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے۔ غیر ملکی طلبہ کا یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم یہاں پڑھنے آتے ہیں اگر حالات ایسے ہیں اورسرکار تحفظ فراہم کرنے کی اہل نہیں ہے تو ہمیں ویزہ نہ دے یعنی ہماری ذمہ داری نہ لے ۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہمیں یہ امید نہیں تھی۔ مودی سرکار نے ہندو اوباش نوجوانوں کے دماغ میں جو زہر بھرا ہے اس سے ان کی رگوں کے اندر نہ صرف نفرت بلکہ عدم برداشت کا لاوہ دوڑ رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ’’بگ باس او ٹی ٹی 2‘‘ کے فاتح اور مشہور ہندوتوانواز یوٹیوبر ایلوش یادو ہے۔ اس نے 12 فروری(2024) کو ریسٹورنٹ میں بیٹھے شخص کو زوردار تھپڑ مار دیا اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔یوٹیوبر کے ہاتھوں تھپڑ کھانے والے شخص نے احتجاج کیا تو ایلوش یادو نے دوبارہ اُسے مارنے کی کوشش کی مگراس کے ساتھیوں نے روک دیا ۔ پولیس موقع واردات پر موجود تھی مگر نہ کوئی شکایت درج ہوئی اور نہ گرفتاری عمل میں آئی۔ اس بدمعاش کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ یوٹیوب پر اس کےدو چینلز پرجملہ 21 ملین سبسکرائبرز ہیں۔
ایک ماہ قبل اس ہاتھا پائی کے معاملے میں تو ایلوش بچ گیا مگر 8 ؍نومبر کو نوئیڈا پولیس نے اس کےخلاف ایک ریو پارٹی میں سانپ کا زہر بیچنے کے معاملے میں ایف آئی آر درج کر لیا۔ نوئیڈا پولیس نے اسے سانپ کا زہربیچنے والوں کے ساتھ گرفتار کر کے مقامی عدالت سے 14 روزہ ریمانڈ پر لے کر تفتیش شروع کردی کیونکہ اس کے ساتھ گرفتارہونے والےراہل کے پاس سے 20 ملی لیٹر زہر بھی ملا تھا۔ ایلوش یادو نے پہلے تو انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب جھوٹ اور جعلی ہے۔ اس کا منشیات کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بعد میں اقرار کرلیا ۔ایلوش صرف سانپ کے زہر کا بیوپاری نہیں ہے بلکہ ہندو منافرت کے کاروبار میں بھی ملوث ہے۔ بگ باس سیزن 17 میں منور فاروقی کے خلاف اپنے مغرور دوست بابو بھیا کے کی وہ ہندو توا کی بنیاد پر حمایت کرتا تھا۔ ایلوش اپنے یوٹیوب چینل پر ہمیشہ ہندو مذہب کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سبب مسلمانوں کابھی مخالف سمجھا جاتا ہے ۔ سانپ کے زہر کی معاملے تواسے سزا ہوجائے گی مگر فرقہ واریت کا زہر پھیلانے والوں کو انعام و اکزام سے نوازہ جاتا ہے۔
احمد آباد میں تشدد کا شکار ہونے والے چونکہ غیر ملکی طلبہ تھے اس لیے تھوڑی بہت ہلچل ہو گئی لیکن اگروہ ہندوستانی باشندے ہوتے تو پولیس اور میڈیا الٹا معتوب لوگوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرادیتا ہے ۔راہل گاندھی اپنی یاترا کے اختتام پر کہا کہ میں نے ملک بھر میں گھوم کر جانا کہ نفرت کے جراثیم عام ہندوستانی کے ڈی این اے میں نہیں ہیں ۔ یہ بات درست ہے کہ فرقہ وارانہ نفرت انسانی فطرت کے خلاف ہے لیکن اپنے سیاسی مفاد کی خاطر سنگھ پریوار اس کو پروان چڑھاتا ہے۔ امریکہ کی ایک تنظیم ’انڈیا ہیٹ لیب‘ نے حال میں اعدادوشمار کے ساتھ ہندوستان کے اندر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی کی ایک دستاویزی رپورٹ پیش کی ہے ۔ اس کے مطابق 2023 میں، ہندوستان کے اندر 668 نفرت انگیز تقاریر کے ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے جن میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔
اشتعال انگیزی کےوارداتوں کی تعداد سال کے پہلے نصف میں 255 تھی مگر انتخابات کے سبب دوسری ششماہی میں بڑھ کر 413 ہو گئی، جو کہ 62 فیصدکا اضافہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابی فائدے کے لیے نفرت انگیزی کی جاتی ہے۔ ان میں سے تقریباً 75% واقعات (498) بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں یا بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقوں اور دہلی میں رونما ہوئے جبکہ 36% (239) واقعات میں "مسلمانوں کے خلاف براہ راست تشدد کی پر ابھارا گیا۔ 63% (420) میں "سازشی نظریات، بنیادی طور پر لو جہاد، زمینی جہاد، حلال جہاد اور آبادی کے جہاد” کے حوالے نفرت انگیزی کی گئی۔ تقریباً 25% (169) مرتبہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے پر زور دینے والی اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں۔ اسی نفرت انگیز مہم کے سبب وہ ذہن بنتا ہے جو غیر ملکی طلبہ پر انسانیت سوز حملہ کرواکر ان پر ظلم کرواتا ہے اور ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ وشو گرو ایسے نہیں بناجاتا اس کے لیے تو نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنی پڑتی ہے۔ مودی جی سے چونکہ یہ نہیں ہوسکا اس لیے انہوں نے ملک کو وشو گرو تونہیں بلکہ وِ ش گرو بنادیا ۔
Comments are closed.