Baseerat Online News Portal

زبان ہی انسان کے اخلاقی قدروں کی امین ہوتی ہے

مفتی احمد نادرالقاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

میں کسی زبان کا مخالف نہیں ہوں ۔میرا ایمان ہے کہ اختلاف السنہ اورانسانوں میں پائے جانے والے اختلاف رنگ ونسل یہ قدرت کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔زبانیں ہمیشہ اپنے جغرافیائی حدود اورقیدوبند کی پابند بلکہ غلام ہوتی ہیں۔اسی لیے کرہ ارض کے الگ الگ خطے کا انسان الگ الگ زبانیں بولتاہے۔ خود بھارت کو لے لیجیے جو ایک ملک ہی نہیں بلکہ اقلیم ہے۔وہاں سیکڑوں ادبی اورغیرادبی یعنی علاقائی زبانیں موجود ہیں ۔ مگر دنیااس مرعوبیت کاشکارہوجائے کہ دنیا میں جو انگلش بولنا اورلکھناجانتاہو وہی تعلیم یافتہ کہلائے یا جوعربی جانتاہے وہی تعلیم یافتہ ہے باقی دنیاکی زبانیں بولنے والے ناخواندہ ہیں ۔ یہ غایت درجے کی انتہاپسندی ،بلکہ فکری دہشت گردی اورنظریاتی ٹیرورزم ہے۔ دنیاکے ہرملک میں کم وبیش یہی صورت حال ہے ۔
ہر وہ زبان جوادبی نوعیت کی ہیں اوران زبانوں میں ادبی لیٹریچر ،کتابیں اوررسائل موجود ہیں ان کا جاننے والابھی تعلیم یافتہ کہلائے گا۔ یہ ہماری سوچ ہونی چاہیے کہ میں جس ملک میں جارہاہوں ،میری ذمہ داری ہےکہ میں بات ان کی زبان میں پہونچانے کی کوشش کروں نہ کہ میں وہاں کے باشندوں کو مجبور کروں کہ وہ مجھے سمجھنے کے لیے میر ی زبان سیکھیں ۔آج یہی ہورہورہاہے ۔اگر کوئی امریکہ اوریورپ کا مہمان آجائےتواس قدر غلامی اورمرعوبیت کا عالم ہوتاہے کہ ہر ملک اپنی زبان اپنی لسانی شناخت کو بالائے طاق رکھ کر ان کی زبان میں گفتگو کو اپنی معراج تصورکرتاہے۔یہ بھی نہیں کہ اپنی زبان میں بات کرے اوراس کو سمجھانے کے لیے ترجمان رکھ لے۔ اس کے برخلاف امریکہ اوریورپ کے حکمرانوں میں اپنی لسانی اورملکی برتری کا اس قدراحساس ہوتاہے کہ وہ ہرحال میں اپنی زبان میں گفتگوکرتاہے ۔تم سمجھو یانہ سمجھو یہ تمہاری سردردی ہے۔ یہی نہیں اب تو دنیاکے ہرمجلس مقننہ اورپارلیمنٹ میں اچھی خاصی تعداد انگلش میں بات کرنے والے ممبران کی ہوتی ہے تاکہ اس کی گفتگو اپنے ملک کے لوگ سمجھیں یانہ سمجھیں مگر سمجھتاہے کہ تم اپنے ملک میں اوراپنی رعایاکے لیے قانون اورپالیسی کیابنارہے ہو ۔ یہ ضرورت نہیں مرعوبیت ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ انگلش بین الاقوامی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ دنیا کی ہرعدالت میں انگلش میں قانونی کارروائی ہورہی ہے۔ دنیا کے ہرملک کی کرنسی پر کوئی اورزبان لکھی ہویانہ ہو مگر انگلش ضرورلکھاہوتاہے۔ دنیاکےہرملک میں ہرچیز پر کسی اورزبان میں اس کی تفصیل ہویانہ ہو انگلش میں ضرورلکھارہتاہے ۔ یہ حیثیت اس زبان نے ازخود حاصل نہیں کی بلکہ دنیا اسے قبول کرنے پر مجبورہوئی تب اسے یہ حیثیت ملی ہے ۔دنیا میں قران کے توسط سے چونکہ یہ عالمی آسمانی کتاب ہے عربی زبان کی عالمی حیثیت ہونی چاہیے تھی ۔مگر کیا کہیے مرعوبیت کا اب تو خودعرب اس مرعوبیت کاشکار ہوکر اس کےآگے صف بستہ کھڑے ہیں بلکہ بصد شوق اسے عربی پر فوقیت اپنے عمل سے دے رہے ہیں ۔اب تو وہ بھی اس پہ تل آئے ہیں کہ بس قران عربی میں پڑھتے رہو، عربی زبان پر توجہ رہے نہ رہے بڑی تعداد دنیامیں اب عربوں کی ایسی ہے جو عربی کم اوراجنبی، لاطینی اورانگریزی زیادہ بولنے لگے ہیں ۔ اپنی زبان ، اپنی شناخت اور اپنی ثقافت کی حفاظت کرو ۔زبان ہی انسان کی اخلاقی قدروں کی امین ہوتی ہے ۔

Comments are closed.