خواتین کی حمایت میں مگر مچھ کے آنسو

ڈاکٹر سلیم خان
ہندوستانی عوام کو راہل گاندھی کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ ان کی ایک بات کا بتنگڑ بنانے کے چکر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی توجہ خواتین کے احترام کی جانب مبذول ہوگئی ۔ ممبئی کے خطاب عام میں راہل نے وزیر اعظم کارپوریٹ کی طاقت(شکتی ) کے لیے کام کرنے والامکھوٹا (نقاب)کہہ دیاجو عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے ان کا مقابلہ کسی فرد یا سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ اس طاقت سے ہے۔ وزیر اعظم نے اسے مہیلاشکتی(یعنی خواتین کی قوت) سے جوڑ کر راہل گاندھی کوخاتون دشمن قرار دے دیا اورخود کو ان کا پوجک یعنی بندہ بناکر پیش کردیا اور کانگریس شکست دینے کی دعوت بھی دے دی ۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے جب خواتین کی خاطر جان دینے کا اعلان کیا تو سامعین کو ہنسی آگئی کیونکہ ایک زمانے میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے جان دینے کی بات کہی تھی لیکن جب چین نے گلوان پر حملہ کیا تو وہ اپنی قسم بھول گئے ۔ اپنے جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ چھین لیا۔ جان تو دور عوامی حکومت بھی نہیں دے سکے ۔ آر ایس ایس کی تاریخ میں ملک کے لیے جان قربان کرنے والی ایک مثال بھی نہیں ہے۔
خواتین کے حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی جیسا خراب ریکارڈ کسی کا نہیں ہے ۔ منی پور میں پچھلے سال بھیانک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ۔ وہاں پر خواتین کو سرِ عام برہنہ کرکے ویڈیو بنانے کے بعد عصمت دری بھی کی گئی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سنگین معاملے کوہلکا کرنے کے لیےکانگریس کی حکومت والے صوبوں میں خواتین پر اکا دکا واقعات کا حوالہ دیا ۔ وہ ایک مرتبہ بھی ان مظلوم خواتین کے آنسو پونچھنے کے لیے منی پور نہیں گئے جبکہ راہل گاندھی نے اسی زمانے میں ریاست کا دورہ کرکے ان کے زخموں پرمرہم رکھا تھا ۔ اس کے بعد اپنی بھارت جوڑو نیائے یاترا کی شروعات وہاں سے کرکے مظلومین کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔ اس ایک معاملے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک میں خواتین کا دوست اور دشمن کون ہے؟ اس دوران وزیر اعظم انتخاب جیتنے کی خاطر مدھیہ پر دیش کا دورہ پہ دورہ کررہے تھے جہاں شیوراج سنگھ چوہان خواتین کو لاڈلی بہنا کے نام پر بہلا پھسلا رہے تھے۔ انتخابی کامیابی کے بعد لاڈلے بھیا کی چھٹی کر کے ان کے ذریعہ کیے جانے والے وعدوں کو بھی دریا برد کردیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی خواتین کے تئیں خیر خواہی کی یہ بھی ایک مثال ہے۔
خواتین کے احترام کی خاطر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات کا صوبائی انتخاب جیتنے کی خاطر یوم آزادی سےایک دن پہلے بلقیس بانو کے خاندان کو تباہ برباد کرنے والے قاتلوں کو اپنی ریاستی حکومت کی سازش کے تحت رہا کروایا۔ اس طرح ظلم و جبر کے خلاف لڑنے والی ایک دلیر خاتون کی عظیم جدو جہد پر پانی پھیرنے کی سازش کی گئی ۔ عدالتِ عظمیٰ نے ان بدمعاشوں کو دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج کرحکومت کی خواتین دشمنی پر مہر ثبت کردی ۔ نریندر مودی سرکار نے مظلومین کے ساتھ ساتھ ان کی خاطر لڑنے والی تیستا سیتلواد جیسی دلیر خاتون کو بھی بدنام و ہراساں کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کو بدترین قوانین کے تحت جیل بھیج کر گجرات ہائی کورٹ میں ضمانت تک سے محروم کردیا۔ ذکیہ جعفری اور بلقیس بانو جیسی خواتین کے لیے جان کی بازی لگانے والی تیستا سیتلواد کے معاملہ میں بھی سپریم کورٹ کے اندر مودی سرکار بے نقاب ہوگئی۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے سیاسی فائدے کے لیے نریندر مودی کے دامن پر سہراب الدین کی بیوی کوثر بی بی کے قتل اور عشرت جہاں کے فرضی انکاونٹر کا بدنما داغ ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی خواتین دشمنی صرف ان کی جنم بھومی گجرات کے مسلم خواتین تک محدود نہیں ہے بلکہ کرم بھومی کاشی میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے احاطے تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہاں ایک طالبہ کی عصمت دری ہوئی تو درندوں کی تصاویر سیکیورٹی کیمرے میں قید ہوگئیں ۔ اس لیے شناخت نہایت آسان ہوگئی اور پتہ چلا کہ وہ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ اکھل بھارتیہ ویادرتھی پریشد کے ایسے ارکان ہیں جن کی مودی ، یوگی اور سمرتی کے ساتھ تصاویر گوگل پر موجود ہیں۔ وہ لوگ واردات کے وقت بی جے پی کے آئی ٹی سیل میں ملازم تھے۔ اس کے باوجود انہیں گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے بجائے بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار نے مدھیہ پردیش میں لے جاکر نہ صرف چھپا یا بلکہ ان سے انتخابی مہم چلانے کا کام بھی لیا ۔ انتخابی کامیابی کے بعد احتجاج کے دباو میں انہیں گرفتار کیا گیا۔اس دوران وزیر اعظم اپنے حلقۂ انتخاب میں دورے پر گئے تو مظلوم طالبہ نے ان کے سامنے اپنی بپتا رکھنے کی کوشش کی مگر مودی جی منہ چھپا کر دوسرے راستے سے فرار ہوگئے اور ان کی بابت ایک لفظ نہیں کہا۔ اپنے حلقۂ انتخاب کے اندر جو رہنما طالبات کے آنسو نہیں پونچھ سکتاوہ بھلا ملک بھر کی خواتین کے دکھ درد کا مداوہ کیسے کرے گا؟
وزیر اعظم نریندر مودی کو دورِ سلطنت کو ان کے رکن پارلیمان برج بھوشن سنگھ کے خلاف خواتین پہلوانوں کے احتجاج کے لیے یاد کیا جائے گا۔ عالمی مقابلوں میں انعام یافتہ خواتین جب دہلی میں جنتر منتر پر مظاہرہ کررہی تھیں تو ملزم برج بھوشن ایوانِ پارلیمان کی نئی عمارت کے افتتاح میں شریک تھا۔ اس کے بعد گرفتاری سے بچنے کے لیےنابالغ لڑکی کو ڈرا دھمکا کر شکایت واپس لینے پر مجبور کیا گیا اور پھر پولیس نہایت بے دردی کے ساتھ احتجاجی خواتین کو جنتر منتر سے جیل لے گئی مگر برج بھوش سرن سنگھ آوارہ سانڈ کی مانند آزاد گھومتا رہا اور اب بھی بے لگام ہے۔ ان پہلوانوں نے اپنے تمغے دریا برد کرنے کا منصوبہ بنایا تو ایک سازش کے تحت انہیں روکا گیا۔ وزیر اعظم تو دور خواتین و اطفال کے فلاح و بہبود کی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی نے بھی ان کھلاڑیوں کے حق میں ایک جملہ نہیں کہا ۔ برج بھوشن کو ایسوسی ایشین کی صدارت سے ہٹایا گیا تو اس نے اپنے دست راست کو منتخب کروا دیا۔ اس انتخاب کو کالعدم تو کیا گیا مگر برج بھوش پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس کے گھر پر بلڈوزر تو دور سمن تک چسپاں کرنے کی جرأت نہیں کی گئی اور اب پھر سے اسے ٹکٹ دینے پر غور ہورہا ہے۔ کیا خواتین کے لیے اس طرح جان دی جاتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے سیاسی مخالفین کے معاملے میں صنف نازک کااحترام بالائے طاق رکھ کر بہت زیادہ نیچے گرجاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال مہوا موئیترا کی ایوانِ پارلیمان سے نکاسی کا معاملہ ہے۔ مہوا موئترا وہ تیز طرار اور پڑھی لکھی رکن پارلیمان تھیں کہ جن کے کھڑے ہوتے ہی زعفرانیوں کے پسینے چھوٹنے لگتے تھے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے دوست روشن ہیرانندنی کےایماء پر ایوان پارلیمان میں گوتم اڈانی کے خلاف سوال کرتی ہیں۔ اس پر مہوا نے یہ صفائی دی کہ وہ سوالات ٹائپ کرنے کے لیے ان کے دفتر کا استعمال کرتی ہیں اور ایسا ہر رکن پارلیمان کرتا ہے۔ بی جے پی کے الزام کو درست مان لیا جائے تب بھی اڈانی کے خلاف کیے جانے والے سوالات کا نہ تشفی بخش جواب دیا گیا اور نہ مبینہ سوال کروانے والے روشن ہیرا نندانی کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی کیونکہ وہ سرکاری گواہ بن گیا ۔ اس طرح ایک طاقتور خاتون رکن پارلیمان سے ایوان کو محروم کرنے والا اگر خواتین کی قوت سے متعلق پروچن سنائے تو بھلا کون یقین کرے گا؟
سنگھ کی شاکھا میں بدزبانی کی جوخصوصی تربیت دی جاتی ہے اس کا وقتاً فوقتاً وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ مغربی بنگال کی انتخابی مہم کے دوران نہایت تضحیک آمیز انداز میں ’دیدی او دیدی ‘ والا مکالمہ اور ’تین مئی ، دیدی گئی‘ والی ویڈیو سبھی نے دیکھی ہے۔ وہ ششی تھرور کی زوجہ سنندا پشکر کو وہ ’پچاس کروڈ کی گرل فرینڈ‘ کے لقب سے نواز چکے ہیں۔ تلنگانہ کی رکن پارلیمان رینوکا چودھری کی سپر نکھا سے تشبیہ دے کر دونوں کا تمسخر اڑایا جا چکا ہے۔ سونیا گاندھی کے تئیں ان کی نفرت کا یہ عالم ہےکہ کبھی ان کو ’کانگریس کی بیوہ‘ تو کبھی ’جرسی گائے ‘کہا۔ ان کے حوالے سے راہل کو ہابرڈ بچھڑا تک کہہ دیا۔ کیا خواتین کے احترام کا یہی سلیقہ سنگھ کی شاکھا میں سکھایا جاتا ہے۔
مودی جی کو مسلمانوں کے ذریعہ یکمشت تین طلاق دے کر اپنی بیوی چھوڑ دینے کا غم ستاتا ہے لیکن اس کے بعد وہ خاتون کم از کم دوسری شادی کرنے کے لیے آزاد توہوجاتی ہے۔ انہوں نے خود اپنی اہلیہ جسودھا بین کو بغیر طلاق کے چھوڑ دیا۔اس طرح اس ابلہ ناری کو دوبارہ گھر سنسار کرنے کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ۔آخری بات یہ ہے کہ مودی جی نے حزب اختلاف پر ہندو مذہب کی مخالفت کا الزام لگایا مگر خود اپنی والدہ محترمہ کے انتقال پر ہندو روایات کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اپنے بال نہیں کٹوائے۔ کیا ایسے میں انہیں دوسروں پر یہ الزام لگانے کا حق ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وزیر اعظم کی زبان سے خواتین کے احترام کی لن ترانی ایک منافقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
Comments are closed.