بھوپال کے حفاظ اور ان کے مدارس

عارف عزیز(بھوپال)
٭ قرآن کریم وہ آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے اور اس کے لئے جو مختلف سامان کئے ہیں ان میں ایک، لاکھوں انسانی سینوں میں اس کا محفوظ رہنا ہے، دوسری کتابوں اور صحیفوں میں تحریف وتبدیلی ممکن ہے لیکن قرآن پاک کیونکہ بے شمار حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے لہذا کسی طرح کی ردوبدل کا اس میں خطرہ نہیں، اسی لئے قرآن مجید حفظ کرنا فرضِ کفایہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کتابِ الٰہی کو سوچے سمجھے بغیر پڑھنا بھی نیکیوں سے اپنا دامن بھرنا ہے، قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے کو ہر ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں، جو اسے پڑھتے ہیں گویا اللہ تبارک وتعالیٰ سے شرفِ کلامی حاصل کرتے ہیں۔
نبی پاک ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کلام کو ایسی توجہ سے نہیں سنتے جیسا کہ بندہ کی قرأت کو سنتے ہیں، اس کا پڑھنا ہی نہیں سننا اور قرآنی حروف کو صرف دیکھنا بھی باعث ثواب ہے، اللہ جل شانہ نے اسے یاد کرنا بندوں پر نہایت آسان کردیا ہے، اسی لئے دنیا کی کسی کتاب کی عبارت اتنی جلد یاد نہیں ہوتی جتنی کہ قرآن کی آیات یاد ہوجاتی ہیں، دس سال سے کم عمر کا بچہ بھی اسے چند سال میں زبانی یاد کرلیتا ہے۔
قرآن حکیم ایک معجزانہ کلام ہے، اس کا پڑھنے والا تھکتا نہیں بلکہ جتنا پڑھے اسے ایک نئی لذت کا احساس ہوتا ہے، انسائیکلیوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق ’’دنیا میں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن مقدس ہے ‘‘، کسی حادثے یا سازش کے تحت اگر قرآن پاک کے سبھی نسخے خداناخواستہ ضائع ہوجائیں تو بھی متن قرآن کا ایک ایک حرف اور شوشہ حفاظ کے سینوں میں محفوظ اور زبانیں اس کے الفاظ سے معمور رہیں گی، یعنی کتاب اللہ کو نازل کرنے والے نے پہلے دن سے اس کی حفاظت وبقا کا انتظام کردیا ہے۔
ہندوستان میں جن شہر اور مقامات پر حفظ قرآن کا چرچا رہا، اُن میں وسطِ ہند کے بھوپال کا نام قابل ذکر ہے، ایک زمانہ تھا کہ یہاں مسلمان کے ہر گھر سے صبح کے وقت تلاوتِ کلام پاک کی آواز آتی تھی، بڑے بڑے عہدیدار حافظ وقاری ہوا کرتے تھے، یوں تو حفظ قرآن سے یہ شغف پورے ہندوستان میں عام تھا، آج بھی شاید ہی کسی دوسرے اسلامی ملک میں حفاظ کی اتنی تعداد ہو جتنی ہندوستان میں پائی جاتی ہے لیکن بھوپال میں دوسرے علاقوں کی بہ نسبت کم مسلم آبادی کے باوجود حفاظ کا تناسب زیادہ رہا ہے اور ایسے مدارس ومکاتیب شروع سے قائم ہیں جن میں نونہال پڑھ کر بآسانی حافظ بن جاتے ہیں۔ ایک زمانہ میں مساجد تعمیر کرتے وقت اس کا خیال رکھا جاتا کہ اس میں قرآں پڑھنے اور پڑھانے کے مدرسوں کی جگہ موجود ہو، بعض مسجدوں میں تو طلباء کے قیام کی گنجائش بھی ہوا کرتی تھی، بنگال، بہار، آسام ، پنجاب یہانتک کہ افغانستان سے طلباء آکر علوم قرآنی کے حصول میں سرگرداں رہتے تھے۔
ایسے قرآنی مدارس میں سب سے قدیم مدرسہ جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ، مسجد ابراہیم پورہ میں قائم ہے تقریباًڈیڑھ سو سال پرانے اس مدرسہ سے اب تک ہزاروں حفاظ فارغ ہوکر ہند-پاک کی مختلف مساجد میں امام وخطیب کے عہدہ پر فائزہوچکے ہیں حافظ علی احمد صاحب ستر برس تک نہ صرف اس مدرسہ میں استاد کی خدمت پرمامور رہے بلکہ انہوں نے مسجد کے امام وخطیب کے فرائض بھی انجام دیئے اب تقریباً ۶۵ سال سے حافظ محمد اسحاق صاحب یہ ذمہ داری نبھارہے ہیں، ان کے سینکڑوں شاگردوں میں جامع مسجد کے امام وخطیب حافظ قاری جسیم داد خاں اور حافظ محمدخالد صاحب شامل ہیں، حفظ کا ایک اور مدرسہ نوابی دور میں حافظ عطاء اللہ صاحب کا گوجرپورہ میں قائم تھا، اس کے فارغ حفاظ میں حافظ قاری عبیدالرحمن صاحب، حافظ نذیر صاحب، حافظ نصیر صاحب اور حافظ کبیر صاحب کے علاوہ ان کی ہمشیرہ صوفی شیخ محمد صاحب کی اہلیہ نیز اشفاق مشہدی ندوی کی والدہ تھیں، جنہوں نے اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے علاوہ پوتے پوتیوں کو قرآن حفظ کرایا، ایک بیٹے حافظ قاری اسحاق کمال حیدرآباد میں امام وخطیب ہیں۔
دارالعلوم تاج المساجد کے شعبہ حفظ سے ۷۵ سال کے عرصہ میں حفاظ بڑی تعداد میں فارغ ہوئے اس کے فاضل اساتذہ میں حافظ بلال صاحب، قاری عبدالرئوف صاحب، قاری محمد صدیق صاحب، قاری لطیف الرحمن صاحب، حافظ عبدالحفیظ صاحب، حافظ پناہ محمد صاحب، حافظ عبدالرشید صاحب حافظ وقاری عبدالشکور صاحب، حافظ وقاری عبدالعزیز صاحب ، حافظ احد بیگ صاحب کے نام قابل ذکر ہیں۔ آج کل دارالعلوم تاج المساجد کے چھ درجوں میں اتنے ہی اساتذہ تعینات ہیں۔
اسی طرح جامعہ اسلامیہ عربیہ مسجد ترجمہ والی کا شعبہ حفظ ۴۵-۵۵ سال سے قائم ہے، دوبھائی حافظ عبدالرحیم اور حافظ عبدالکریم صاحبان اس کے پرانے استاد تھے، درمیان میں حافظ محمد رئیس احمد صاحب مرحوم اس کے استاد رہے۔ مسجد شکور خاں کے مدرسہ حفظ میں حافظ محمد منظور صاحب ۴۰ سال سے استاد ہیں اور ان کے ساتھی کی حیثیت سے حافظ شاہد صاحب کام کررہے ہیں جبکہ جامع مسجد کے مدرسہ میں امام وخطیب حافظ بشیر اللہ صاحب برسوں طلباء کو حافظہ کراتے رہے اور حافظ یوسف صاحب اب یہی خدمت انجام دے رہے ہیں، جہانگیرآباد کی تھانہ والی مسجد میں حفظ کا مدرسہ حافظ عبدالشکور صاحب مرحوم کی نگرانی میں تیس سال تک جاری رہا۔ اب ان کے لڑکے حافظ عبدالمعبود اس کے ذمہ دار ہیں، اسی مدرسہ کے فارغ حافظ وقاری خالد مشتاق صاحب کا مدرسہ جنسی میں قائم ہے، شہر کے دیگر مساجد میںبھی حفظ کے مدرسے ہیں خاص طور پر مسجد آصفیہ میں مولانا رحیم اللہ خاں قاسمی کا ’’مدرسہ آصفیہ‘‘ حفظ قرآن کیلئے مخصوص ہے۔حافظ عبدالحفیظ صاحب کا مدرسہ مسجد قلندر شاہ میں کافی عرصہ تک قائم رہا۔ موصوف کے ہی زیر نگرانی مسجد بلقیس جہاں عارف نگر میں دوسرا مدرسہ زینت القرآن قائم ہوا ، جہاں بچوں کی قرآنی تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ اور شہر کے ممبر اسمبلی الحاج سید عارف عقیل صاحب اس کی سرپرستی فرمارہے ہیں۔
حفظ کا ایک اہم مدرسہ خانقاہ مجددیہ پیردروازہ میں برسوں سے قائم ہے، حافظ عبدالحمید صاحب مرحوم یہاں مدرس رہے۔ مدرسہ کے سرپرست حضرت مولانا محمد سعید صاحب مجددی کے انتقال کے بعد حضرت حافظ سراج الحسن صاحب نے اس کی سرپرستی فرمائی۔ بھوپال کے پرانے کہنہ مشق حفاظ میں جنہوں نے قرآن پاک کو نئی نسل کے سینہ میں محفوظ کرنے کے لئے اپنے شب وروز صرف کردئیے ان میں حافظ نظر علی صاحب کا مدرسہ، مسجد مداروبی میں، حافظ عبدالمجید صاحب کا مدرسہ مسجد ٹول والی میں، حافظ قاری عبید الرحمن صاحب کا مدرسہ کچی مسجد شاہ جہاں آباد میں، حافظ جانی صاحب کا مدرسہ مسجد امرائو دولہا میں، حافظ صمد صاحب اور زماں خاں صاحب کا مدرسہ حمیدیہ میں گھاٹی بھربھونجہ میں ، حافظ اشفاق صاحب کا مدرسہ پرانا قلعہ کی بُرجی والی مسجد میں اور حافظ طیب صاحب کا مدرسہ مسجد کلثوم بیا میں قائم تھے۔ حافظ طیب صاحب نے حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب اور ان کے فرزند حافظ وقاری مصباح الحسن صاحب (منے میاں) کا بھی برسوں قرآن سنا اور پچاس برس مسجد کلثوم بیا میں امام وخطیب کے عہدہ پر فائز رہے، یہ اسی خاندان کے جد امجد ہیں جن کے صاحبزادے حافظ عبدالرشید صاحب کے علاوہ فرزندزادوں میںحافظ محمدطاہر انصاری، مولاناحافظ قاری محمد قاسم انصاری، حافظ قاری عبدالحافظ انصاری، اور حافظ قاری محمد ہاشم انصاری شامل ہیں اور ان میں سے آخری الذکر تینوں قراء نے قرآنِ کریم کے عالمی مقابلوں میں حصہ لیکر بھوپال کا نام روشن کیا، قاری محمد قاسم انصاری جنوبی ہند کے چینئی شہر کی مسجد پیرامیٹ میں امام وخطیب کی خدمت انجام دیتے رہے۔
بھوپا ل کے جن خاندانوں نے علوم قرآنی کی بیش بہا خدمت انجام دی ، ان میں سرفہرست خاندانِ مجددیہ ہے اس خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت پیر ابواحمد صاحبؒ ان کے صاحبزادے حضرت شاہ محمد یعقوب صاحبؒ (پیر ننھے میاں)، ان کے فرزندگان حضرت مولانا محمد سعید مجددی حافظ وقاری مصباح الحسن صاحب (مننے میاں) اور حافظ سراج الحسن کے امتیازات میں یہ بھی شامل ہے کہ مذکورہ حضرات نے قرآن حکیم سے اپنے تعلق کو اس کی تلاوت، تفسیر اور تعلیم تک دراز رکھا، اسی خاندان سے نسبت رکھنے والے تین بھائی حافظ کمال الدین، حافظ جمال الدین اور حافظ جلال الدین(مرحوم) بھی اسم بامسمیٰ ہیں،
بھوپال کے جن خاندانوں میں نسل درنسل حفظ قرآن کا چرچا رہا ان میں مفتی قاری عبدالہادی خاں صاحب کا خاندان قرآن سے نسبت وتعلق میں شروع سے ممتاز رہا ہے، مفتی عبدالہادی خاں صاحب، مفتیٔ شہر کے علاوہ نواب سلطان جہاں بیگم کے فرزند حافظ جنرل عبیداللہ خاں کے استاد تھے، یہ ان کے تعلقِ قرآنی کا ہی ثبوت ہے کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم ﷺ نے خواب میں تشریف لاکر ان کا قرآن سننے کی خواہش ظاہر کی، مفتی صاحب کے صاحبزادے حافظ محمد الیاس خاں صاحب اور حافظ محمد ادریس خان صاحب بھی جید حافظ تھے، بالخصوص حافظ محمد الیاس صاحب نے جمعراتی والی مسجد میں سات یوم کے اندر تراویح میں قرآن سنانے کا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے، ان کے فرزند مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری جامع مسجد میں برسوں قرآن سناتے رہے، چھوٹے بھائی مولانا محمد نعمان خاں ندوی نے جوانی کے بعد قرآن حفظ کیا، مولانا محمد عمران خاں صاحب کی اہلیہ محترمہ جو حافظ ادریس صاحب کی دختر اور حافظہ تھیں کی توجہ وکوشش سے بیٹی کے علاوہ تین بیٹے حافظ محمد رضوان خاں ندوی، حافظ صفان خاں ندوی او ر پروفیسر محمد حسان خاں حافظ ہیں اور ان کی اولاد میں بھی حفاظ کی فہرست طویل ہے جن میں ڈاکٹر اطہر حبیب، حافظ سفیان خان ندوی کے نام قابل ذکر ہیں جبکہ مولانا حافظ محمد نعمان خاں اور مولانا محمد سلمان خاں ندوی کے سبھی صاحبزادگان حافظ ہیں اور ملک وبیرون ملک جاکر قرآن کریم سناتے ہیں۔ ان میں حافظ محمود صاحب، حافظ محمد رئیس الرحمن ندوی، حافظ سلیم الرحمن ندوی ، حافظ منظور نعمانی ندوی، اور حافظ عبیدالرحمن ندوی کے نام قابل ذکر ہیں۔
حکیم آشٹہ والوں کا خاندان بھی قرآن سے اپنی نسبت کیلئے یاد کیا جاتا ہے، تین پشتوں سے اس میں حفاظ کا سلسلہ قائم ہے اسی طرح حافظ سید حافظ علی صاحب، حافظ سید سخاوت علی صاحب، حافظ عبدالجلیل صاحب، اور حافظ وقاری عبدالحمید صاحب کا خاندان جس میں ان کے فرزند حافظ قاری عبدالرشید صاحب اور حافظ وقاری عبدالعزیز صاحب بھوپال کے نامور حفاظ وقراء میں شمار ہوتے ہیں، اسی سلسلہ کی کڑی حافظ قاری یونس صاحب ، حافظ عادل صاحب اور حافظ عبدالرشید صاحب تھے۔
بھوپا ل کے حفاظ کا یہ تذکرہ اس شہر کے بزرگ اور خوش اوقات حافظ مولانا محمد احمد رضوی کے ذکر کے بغیر مکمل نہ ہوگا، ان کے صاحبزادے مولانااحمد سعید ندوی بھی اس دولت ِ بیش بہا کے امین ہیں، حافظ قاری سید برکت علی صاحب(جو انضمام ریاست کے بعد یہاں سے کراچی چلے گئے) اور قاری شفیق الحسن خاں فضلی کو قرآن پاک پر زبردست عبور حاصل تھا، حافظ برکت صاحب بآسانی الٹا قرآن پڑھتے تھے کسی بھی سورۃکی آخری آیت سے شروع کرتے اور اول آیت پر اختتام کردیتے، قاری شفیق الحسن کو قرآن پاک کے متشابہات پر غیر معمولی عبور حاصل تھا، کئی سال انہوںنے تین یوم میں تراویح کی ۲۰ رکعات میں قرآن سنایا، حافظ بشیر صاحب ۵۸ برس تک جمعراتی دراوزے سے متصل مسجد میں اور حافظ عبدالحفیظ صاحب ۲۵ برس تک مسجد مانجی صاحبہ سیڑھی گھاٹ میں سات یوم کے اندر رمضان میں قرآن سناتے رہے۔ حافظ صابر علی صاحب کلام اللہ روانی سے پڑھنے کی وجہ سے حافظ ریل کے نام سے مشہور ہوئے ، حافظ نوشہ میاں صاحب بھی منفرد لب ولہجہ میں قرآن پڑھتے تھے۔
بھوپال کے ایک اور فرزند ڈاکٹر ظفر علی شاہ کے بیٹے حافظ اختر علی شاہ نیوی مرچنٹ میں انجینئر تھے اور اپنے بحری سفرکے دوران بارہا انہیں رمضان میں شپ (جہاز پر) جہاں نیچے پانی اور اوپر آسمان ہوتا ہے قرآن پاک پڑھنے کا موقع ملا۔ شہر مفتی قاری محمد سید فاضل صاحب، نائب مفتی محمد رئیس خاں صاحب، مفتی محمد ابوالکلام صاحب قاسمی، تبلیغی جماعت کے امیر حافظ قاری مصباح صاحب مرحوم، حافظ اختر انصاری صاحب، حافظ انیس انصاری خوش الحان حفاظ میں شمار ہوتے ہیں۔ حافظ عبدالعزیز صاحب امام مسجد اکبری بھی برسوں سے ترجمہ والی مسجد میں پانچ شب کے دوران قرآن شریف سنا رہے ہیں۔ان دنوں شہر بھوپال کی نئی بستیوں میں حفظ قرآن کریم کے اور بھی کئی مدارس قائم ہیں جن میں مدرسہ تحفیظ القرآن پی جی بی ٹی کالج، جامعہ شریفیہ ناریل کھیڑا، دارالعلوم ابوالحسن علی میاں ندوی بڑوانی، نئی جیل روڈ اور دارالعلوم علامہ عبدالحئی حسنی ندوی جنسی جہانگیر آباد شامل ہیں جہاں کے حفظ کے شعبوں میں ہر سال بڑی تعداد میں لڑکے حافظ ہورہے ہیں۔٭٭
Comments are closed.