الیکشن 2024میں مسلمانوں کا متحد ہونا اشد ضروری

اُن کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں:میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی،صحافی و ادیب،گلبرگہ
8277465374
الیکشن 2024کا باضابطہ اعلان ہو چکا ہے اندیشہ ہیکہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی زبردست مہم شروع ہو جائیگی ،خود اپوزیشن پارٹیاں تک اس کا اندیشہ ظاہر کر رہی ہیں ، ہمارے علاقے کے نمائندہ لیڈر اور ملکی سطح پر اپوزیشن کے لیڈر ملیکارجن کھرگے نے صاف کہہ دیا ہیکہ اس الیکشن میں ملک کوآمریت اور تانا شاہی سے بچانے کیلئے اپنا ووٹ دیں اور اس الیکشن کوملک کو بچانے کا آخری موقع سمجھ کر جمہوریت کو مظبوط کریں،اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈیا نے ببانگ دہل یہ کہہ دیا ہیکہ موجودہ حکومت میں ملک برباد ہورہا ہے اورملک کو بچانے کیلئے اب اپوزیشن کا یہ اتحاد موجودہ حکومت کو اقتدار سے بے دخل کریگا ۔دوسری جانب عام تاثر یہ ہیکہ ملک میں شفاف الیکشن نہیں ہو رہے ہیں، ای وی ایم مشین پر سوال اٹھ رہے ہیں اور عوام میں انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات کے سبب دلچسپی کم ہورہی ہے اور رائے دہی کا فیصد کم ہوتا جارہا ہے جو جمہوریت کیلئے نقصاندہ ہے جبکہ الیکشن کمیشن اس بات کو ماننے تیار ہی نہیں کہ ای وی ایم مشین میں کوئی گڑ بڑ ہے ،اس وقت ملک کے جو تشویش ناک حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں،ہر شعور رکھنے والا جانتا ہے کہ مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف دن بہ د ن تنازعہ اور مسائل پیدا کئے جارہے ہیں،ملکی حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں، جو حالات اس وقت ہیں،اس کے خلاف نہ کوئی سیاسی پارٹی آواز اٹھارہی ہے، نہ کوئی سیاسی لیڈرکھل کر سامنے آرہاہے ،ملک میں پہلے بھی فسادات ہوتے تھے کچھ دکانوںاور کچھ مکانات میں آگ لگائی جاتی تھی، کچھ لوگوںکی جان جاتی،پھر آہستہ آہستہ زخم مندمل ہوجاتے تھے،لیکن اب شرعی احکام اور شعائرِ اسلام پر حملے کئے جارہے ہیں،حجاب پر، نمازِ جمعہ کھلے میں اداکرنے پر اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی عائد کی جارہی ہے ،بابری مسجد رام مندر تنازعہ کے بعد ملک کے دیگر مساجد کو متنازعہ بنا کر ان پر قبضہ کی سازشیں ہورہی ہیںنیز اس طرح کے کئی ایک مسائل برابر مسلسل اٹھائے جارہے ہیں اور ماحول کو زیادہ سے زیادہ زہریلا اور نفرت انگیزکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس کے علاوہ ایسے قوانین بھی بنائے جارہے ہیں جس سے مسلمانوں کو پریشان کیا جاسکے ان میں سی اے اے قانون کا نفاذ اور نئی تعلیم پالیسی کا نفاذ سرفہرست ہے ۔ملک میں مسلمانوں کیخلاف مسلسل ناموافق حالات پیدا کئے جارہے ہیں ،اسلامو فوبیا کا زہر پھیلایا جارہا ہے جس کیخلاف اقوام متحدہ میں تک قرارداد پاس ہوئی ہے ،موجودہ حکومت میں اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی آوازیں ہر طرف سے بلند ہورہی ہیں اورملک کے آئین کو بدلنے تک کے منصوبے بنائے جارہے ہیں ،یہ بات بھی ذہن نشین رہیکہ یہ موجودہ حکومت ایک فرقہ پرست مذہبی تنظیم کے زیر سایہ ہے اور یہ تنظیم مکمل طور پر سیاسی نظریات سے متاثر جمہوریت کی بجائے آمریت کی حامی رہی ہے،سیاست کے تعلق سے اس تنظیم کے مخصوص نظریات،طئے شدہ منصوبہ اور متعینہ اصول ہیںاور یہ مکمل فرقہ پرستی پر مبنی ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم و آگہی نہیںہے ۔سب جانتے ہیں،مگر اس کے مقابلے کے لیے کوئی فکر مند نہیں، ان کے پاس کوئی تیاری نہیں، کوئی عملی اقدام نہیں؟ جو لوگ دانشور کہلائے جاتے ہیں یا اپنے آپ کو فکرمند ظاہرکرتے ہیں وہ سوائے قائدین کو کوسنے اور سوشل میڈیا پر زبانی جمع خرچ کرنے کے کچھ نہیں کررہے ہیں، اور جو عام مسلمان ہیں انہیں تو معلوم ہی نہیں کہ اس موقع پر انہیں کیا کرنا چاہیے؟ یہ بات کوئی انہیں بتا بھی نہیں رہا ہے نہ کوئی ان کی رہنمائی کر رہا ہے ،اور نہ ہی مسلمانوں میں کوئی سیاسی شعور بیدار ہوتا نظر آرہاہے یہ جتنا افسوسناک ہے اتنا ہی خطرناک بھی ہے ، یہ واضح طور پر سمجھ لیں کہ ہمیں جو کچھ کرنا ہے اپنے زور بازو اور قوت ایمانی کی بنیاد پر کرناہے،اس لیے اپنی سیاسی و سماجی طاقت و قوت پیدا کریں اور ساتھ ہی اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں ۔
ہمارا کہنا یہ ہیکہ جو کام اہل سیاست و اہل اقتدار و اہل ثروت و اہل طاقت افراد کو کرنا ہے وہ تو انہیں کرنا ہی ہے اور وہ اس کیلئے کیا اور کیسے کر رہے ہیں وہ یا تو وہ خود طئے کریں گے یا ماہرین واکابرین ان کی رہنمائی فرمائیں گے ،لیکن موجودہ حالات میںاسلامی نکتہ نظر سے جو ہر مسلمان کو اس وقت کرنے کی ضرورت ہے ان میں سے چند پہلووں پر ہم نظر ڈالیں گے۔اس وقت مسلمانوں کو کرنا یہ ہے کہ فوری طور پرمتحد ہوجائیں اور آپسی انتشار کو بالکل ختم کردیں،ووٹر کارڈ اور رائے دہی سے متعلق شعور بیداری مہم چلائیں اور رائے دہی میں سو فیصد حصہ لیںاس کے علاوہ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا صحیح پیغام لوگوں تک پہونچائیں،یہ اس لیے ضروری ہیکہ وہ تصویر جو اسلام اور مسلمانوں کی دوسروں کی طرف سے دنیا کو بتائی جارہی ہے کہ یہ مسلمان تشدد پسندہیں، دہشت گرد ہیں، بد اخلاق ہیں، قاتل ہیں، خونی ہیں وغیرہ وغیرہ اس کا جھوٹ بے نقاب ہوجائے اورجواسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے ،یعنی ہم خیر امت ہیں ،امن پسند ہیں، غریبوں، مسکینوں اور پڑوسیوں کے مددگار ہیں، انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور ہمدردی کرنے والے ہیںیہ بالکل واضح ہوجائے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اِس کو ثابت کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں!اغیار کی غلط تشہیروں، فرضی فلموں اور بے بنیاد پروپیگنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کے تشدد پسند، دہشت گرد اور خونخوار ہونے کا جو تصور ذہنوں میںبٹھایا جارہاہے،یہ صرف تقاریرو بیانات سے ختم ہونے والانہیں ہے بلکہ عمل کے ذریعہ اس کوبے بنیاد ثابت کرنا ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا!ابھی گذشتہ سال دوسال پہلے لاک ڈاؤن کے زمانہ میں جو پریشانیاں آئی ہیں،لوگوں کوزندگی کے لالے پڑگئے تھے ، کھانے پینے کی چیزوں کا قحط ہوا تھا، اس موقع پر جن مسلمانوں نے اسلامی اخلاق اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا، اُس کا اثر برادرانِ وطن پر بہت اچھاپڑا اور جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے تھے، ان کے اندر بھی یہ احساس پیداہوا اور اُنھیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں غلط رائے رکھتے تھے!۔ سوچیں ایسا کیوں ہوا؟ اِس لیے کہ اُس وقت اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کیاگیا، اسلام کا عملی تعارف پیش کیا گیا اور نبوی تعلیمات کا نمونہ دکھایا گیا۔اگر ہماری زندگی میں یہ کام ہمیشہ ہوتا رہے اور ہم نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے بجائے محبت سے دینے لگ جائیں تو ان شاء اللہ اُس کا ضرور اثر ہوگا اور اچھے نتائج سامنے آئیں گے،اسلام نے یہی تعلیما ت ہمیں سکھائی ہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیںاور جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابع تابعین، ائمہ اکرام، صالحین ،اولیائے اکرام نے عمل کر کے دکھایا ہے۔ ہمیں محبتوں کو بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے، محبت کا پیغام ہر سوپہونچانا چاہیے اور محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے۔یہ اشد ضروری ہیکہ برادران وطن اور پڑوسیوں کے سامنے اسلامی اخلاق و کردار کی وہ تصویر پیش کریں جو مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے،جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے، تاکہ ان کے ذہن کو گندگی سے بھرنے کی جو کوشش ہورہی ہے اس کا عملی توڑ ہوسکے۔
آج ہمارے مسئلوں میں ایک بڑا مسئلہ آپسی اور مسلکی اختلافات ہیں ان اختلافات نے ہمیں بکھیرکے رکھ دیا ہے اوریہ اختلافات امت کیلئے سم قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔اس سے بھی ہلاکت خیز ایک اور مسئلہ یہ ہیکہ ہمارے دلوں میںدین و آخرت کی بجائے صرف دنیا اور اس کی محبت گھر کر گئی ہے ،دنیا کی محبت یہ ہے کہ ہم آخرت کی زندگی سے غافل ہوجائیں اور دنیا کی فانی لذتوں کے اسیر بن جائیں۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج ہمیں نماز سے زیادہ نیند پیاری ہے،نمازوں کی پابندی نہیں ہوتی ہے،وارثوں کا حق مار رہے ہیں، پڑوسیوں کو تکلیف پہنچارہے ہیں، ہم جھوٹ بول رہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، خیانت کررہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں ،سود لے رہے ہیںاور یہ سب کام دنیا بنانے اور چار پیسے کمانے کی خاطر، تھوڑی سی راحت اور تھوڑی سی لذت کی خاطر کیے جارہے ہیں،اسی کو دنیا کی محبت کہتے ہے ،جس کے ہم پر حاوی ہوتے ہوئے اللہ کی مدد نہیں آسکتی۔ایک اوراہم بات یہ ہیکہ ہم اپنے آپ کوکسی بھی طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رکھیں ، اپنے اندر قوت پیدا کریں اور جن وجوہات سے کوئی بھی کسی بھی طرح کی کمزوری آرہی ہے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں، یاد رکھیں!صرف فریاد کرنے اور حالات کا شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی کے ہاں ایمان و اعمال اور اخلاق کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں اورایمان والوں کے امتحانات بھی ہوتے ہیںتو وہ ان امتحانات میں ثابت قدم رہتے ہیں، ان حالات میں ایک اور کام یہ ہے کہ ہم دعاؤں کا خوب اہتمام کریں۔میں نے سب سے اخیر میں دعا کا ذکر کیا ہے اس لیے کہ صرف قنوتِ نازلہ پڑھنے سے، صرف آیاتِ کریمہ کا اہتمام کرنے سے اور صرف حصنِ حصین پڑھ کر ہاتھ اٹھانے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ حالات بدلیں گے عملی طور پر میدان میں آنے سے اور اپنے اندر انقلاب پیداکرنے سے،اوراپنے آپ کو بدلنے سے ،ہم اپنے آپ کو بدلیں گے تو سب کچھ بدلے گا،دعائیں اپنی جگہ ضروری ہیں،اللہ پاک دعائیں قبول کریں گے لیکن دعاؤں کے ساتھ ہمیںکچھ عمل بھی کرنا ہوگا،دعا ئیں بھی کرتے رہیں اوراس کے ساتھ ساتھ عملی اقدام بھی کریں،اپنے دل کو مضبوط رکھیں، خوف و دہشت دل سے نکالیں، موت کا خوف ختم کریں،یاد رکھیں!موت اپنے وقت پر آئے گی،اور وہ ضرورآئے گی، کوئی موت کو روک نہیں سکتا؛لیکن موت کے ڈر سے ہم گھر کے اندر بیٹھے کانپتے رہیں، یہ طریقہ بھی تو درست نہیں ہے، اپنی حفاظت کا جوحق شریعت اور قانون نے ہم کو دیا ہے،اس کا مکمل استعمال کریں، خدانخواستہ حالات ایسے آجائیں کہ ہماری جان اور مال پر حملہ ہوجائے تو ہم بزدل بن کر گھر میں نہ بیٹھے رہیں۔ہم امن و امان کے محافظ ہیں اس لیے اپنی طرف سے امن کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں گے لیکن اگر ہماری جان و مال اورعزت وآبرو پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو پوری قوت سے اس کا مقابلہ کریں گے،صرف چھت پر چڑھ کر نعرہ تکبیر لگانے کی بجائے اللہ نے جتنی طاقت و ہمت دی ہے، جتنی استطاعت ہے، جو اسباب فراہم ہیں، ان کے ذریعہ مقابلہ اور اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریںگے،اس کے لئے دل کے اندر ہمت پیدا کریں صرف دعاؤں،احتجاج یا نعروں پر اکتفا نہ کریں۔اس وقت ضروری ہیکہ اپنا ایمان و یقین مضبوط کریں، اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور نئے سرے سے اسلامی زندگی کا آغاز کریں۔اب جو الیکشن 2024کا اعلان ہوا ہے اس میں سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں،آج ہندوستان دنیا بھر میں سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ ہم کو اب ہندوستان کو دنیا میں بہترین جمہوریت ثابت کرنے کے لئے کام کرناہے۔ ہمارے پاس یہ ایک بہترین موقع ہے کہ اس خواب کو پورا کریں۔ ہمیں ووٹ کے حق کااستعمال کرنا ہے، ووٹ عوام کا سب سے طاقتور آئینی ہتھیار ہے اس کا صحیح استعمال کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ملک کے نظام حکومت کے معیار کو بدلنے کے لئے اپنے حق رائے دہی کااستعمال کرناچاہئے تاکہ ملک میں امن و امان ہو ،بیروزگاری اور غریبی کا مداوا ہو،عوام چین و سکون سے رہ سکیں ،نفرت اور تقسیم کا ماحول ختم ہوجائے،ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو پھر سے جلاء ملے۔ اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے اور صحیح طورپرعمل کرنے کی توفیق بخشے،آمین!

Comments are closed.