سی اے اے اور ہم ؛جلیان والا باغ کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا

 

ڈاکٹرعابدالرحمن(چاندور بسوہ)
سی اے اے سے پہلے محترم وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک پورے ملک میں این آرسی کروانے کی بات کررہے تھے وزیر داخلہ تو بہت جارحانہ انداز میں لوک سبھا میں بھی اس کااعلان کرچکے تھے اور شاید این آرسی کی آسانی کے لئے ہی این پی آر میں شہریوں کی معلومات کے کچھ نکات بڑھا بھی دئے گئے تھے اس کے لئے فنڈ بھی مختص کردیا گیا تھا لیکن کووڈ اور شاید مسلمانوں کے ملک گیر احتجاج کی وجہ سے این پی آر وغیرہ ہو نہیں سکا بعد میں مسلمانوں کے طویل احتجاج خاص طور سے شاہین باغ تحریک کے بعد انہوں نے انکار کردیا تھا کہ این آرسی ان کی حکومت کے ایجنڈے میں نہیں ہے اور اب سی اے اے کے قوائدوضوابط جاری ہونے کے بعد پھر یہی کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں اور این آرسی اس سے جڑا ہوا نہیں وغیرہ لیکن چونکہ مسلمانوں کو ان کی وہ باتیں زیادہ یاد رہ گئیں جو انہوں نے این آرسی کے ضمن میں کہی تھیں اور چونکہ بولی ہی اس انداز سے گئی تھیں کہ یاد رہیں اس لئے اب مسلمانوں کے سامنے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ ان کی کس بات پر بھروسہ کیا جائے؟اور جب تک اس بات کی عملی ضمانت نہیں مل جاتی کہ ملک گیر این آرسی کی صورت میں مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کی طرح کوئی فرق نہیں پڑے گا اس وقت تک مسلمانوں نے ان کی کسی بات کا بھروسہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن حکومت کو اس ضمانت کے لئے مجبور کرنا ہمارے لئے انتہائی مشکل کام ہے۔ہم سیاسی سماجی اور معاشی طور پر اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ حکومت پریشر میں آئے ۔ ہمارے پاس قانونی چارہ جوئی اور پر امن احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ قانونیچارہ جوئی سب سے محفوظ راستہ ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے اسی سے امید لگائے بیٹھے تو چڑیا کھیت چگ جائے گی۔ اس قانون کے خلاف اس وقت سے معزز اپریم کورٹ میں ہماری درخواستیں‘‘زیرالتوا’’ہیں جب اس قانون پر محترم صدر جمہوریہ کے دستخط ہوئے تھے اس وقت سپریم کورٹ نے حکومت سے جواب مانگا تھا اور اس کے اس جواب سے مطمئن ہوگئی تھی کہ چونکہ اس قانون کے قوائد نہیں بنائے گئے ہیں تو اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ اور اب جبکہ اس قانون کے قوائد بنائے جاچکے یعنی اس پر عمل درآمد کا راستہ صاف ہوچکا تو اب بھی معزز عدالت نے اس پر اسٹے دینے سے انکار کردیا کہ سرکار کے پاس اس قانون کو لاگو کرنے کے لئے انفراسٹرکچر نہیں ہے تو وہ اگلی سماعت یعنی9، اپریل تک کیسے اسے لاگو کرے گی۔ جبکہ اسی عدالت نے کسان احتجاج کے چلتے زرعی قوانین پر اسٹے لگادیا تھا کہ اس سے کسانوں کو ہونے والی تکلیف کا احساس کم ہوگا، عدالت نے اس ضمن میں احتجاج میں شامل ضعیفوں عورتوں اور بچوں کا ذکر کرتے ہوئے سردی اور کووڈ کی وجہ سے ان کی صحت کو لاحق خطرے کا بھی ذکر کیا تھا جبکہ سی اے اے کے خلاف اسی دلی کی سردی میں احتجاج کرنے والی ضعیف العمرمسلم مائیں بہنیں اور بچے سپریم کورٹ کی نظر میں اس طرح کے کسی کنسیشن کے لائق نہیں سمجھی گئی تھیں۔ جمہوریت میں عدلیہ ہی کمزوروں اور مظلوموں کا واحد مسیحا ہوتی ہیں اور وطن عزیز میں بھی بارہا عدلیہ نے ہماری مدد کی ہے خاص طور سے دہشت گردی کے معاملات میں تو عدلیہ نے جس طرح ہمیں انصاف دلایا ہے وہ بے نظیر ہے لیکن جس رفتار سے دہشت گردی کے مقدمات فیصل ہوئے اگرسی اے اے پر اسٹے نہ مل سکا اور اسی رفتار سے یہ کیس بھی چلا تو ہمیں ڈر ہے عدالتی چارہ جوئی کی تکمیل تک اگر سرکارنے اس الیکشن میں اب کی بار چار سو پار کا جو حدف مقرر کیا ہے وہ حاصل کرلیا تو ہو سکتا ہے کہ پھر عدالت بھی اس قانون پر سنوائی کی مختار نہ رہے۔ دوسرا آپشن ہمارے پاس احتجاج کا ہے لیکن ابھی احتجاج کا وقت نہیں ابھی اس الیکشن سیزن میں ہم احتجاج کریں گے تو منفی پولرائزیشن خوب ہوگا ہمارے احتجاج کو اشو بناکر ہندوؤں کو پولرائزیز کرنا آسان ہوجائے۔ویسے پچھلے وقت کے احتجاجات کی جگہ سلامتی اہلکاروں کی بھاری نفری لگاکر گویا انہیں سیل کیا جاچکا ہے اور اس میں شامل ہوئے لوگوں کو نظربند کرنے کی بھی خبریں ہیںلیکن ہمارے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے ہمیں اس قانون کے خلاف یا اس قانون میں مسلمانوں کو بھی جگہ دینے کی مانگ کو لے کرمناسب وقت پر طویل اور سخت احتجاج کے لئے تیار رہنا چاہئے۔لیکن یہ بات یقینی بنائی جانی چاہئے کہ احتجاج ہر قیمت پر امن رہیں دلالوں یا تشدد پسند عناصر کے ذریعہ ہائی جیک بھی نہ کئے جائیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ احتجاج انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کے جو احتجاجات ہوئے تھے ان سے بہت زیادہ مشکل ہوگا کیونکہ اس وقت ملک کی عوام کی اکثریت بلا تفریق مذہب و ملت ایک ساتھ تھی اور سامنے غاصب حکمراں لیکن اب حکومت غاصبوں کی نہیں ہماری اپنی ہے اور عوام بہت گہرائی تک ہندو مسلمانوں میں بٹ گئی ہے اب مسلمانوں کی بات ملک مخالف بناکر پیش کی جارہی اور سمجھی جارہی ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ شاہین باغ احتجاج کے خلاف جنرل پبلک میں سے بھی کچھ سر پھرے تشدد پر اتر آئے تھے اور دوسری جگہوں جب ہمارے احتجاجات’’پرامن حدود سے باہر نکلے‘‘تو کس طرح سرکار نے ان کے خلاف طاقت اور قانون کا بے دریغ استعمال کیاتھا۔اور جو پرامن احتجاج میں آگے آگے تھے ان میں سے زیادہ تر دہلی فسادات کے الزامات یا اور کسی سبب جیلوں میں ہیں ۔ قوی خدشہ ہے کہ ہمارے پرامن احتجاجات کے خلاف بھی حکومت اس سے بدتر کرے گی جو انگریزوں نے جلیان والا باغ میں کیا تھا ہمیںاپنے آپ کو اس کے لئے تیار کررکھنا چاہئے ۔

Comments are closed.