اروند کیجریوال کی تو لاٹری لگ گئی

ڈاکٹر سلیم خان
اروند کیجریوال کی گرفتاری نے فی الحال قومی سیاست میں ایک بہت بڑا زلزلہ برپا کردیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر موجودہ دور کے چندر گپت اور چانکیہ سے یہ حماقت کیسے سرزد ہوگئی ۔ اس کے پسِ پشت الیکٹورل بانڈ سمیت عدلیہ یکے بعد دیگرے کئی فیصلے ہیں جنھوں نے حکومت میں بیٹھے ارباب ِ حل و عقد کے دماغ کی چولیں ہلا دی ہیں اور حواس باختہ ہوکر کیجریوال کو گرفتار کرنے کی غلطی کرچکے ہیں ۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ہر ہفتہ عدالتِ عظمیٰ سرکار کے لیے کسی نہ کسی نئے دردِ سر کا اہتمام کرتا رہا ہے لیکن گزشتہ کل تو اس نے ایک دن میں تین تین خوراک کڑوی دوائی پلا کر سرکار کو ایسا پریشان کیا کہ بدحواسی کے عالم میں اس نے اروند کیجریوال پر ہاتھ ڈال دیا ۔ یہ سرکاری علاج دراصل بیماری سے زیادہ پریشان کن ثابت ہوا اور دیکھتے دیکھتے پورے ذرائع ابلاغ پر خاص طور سوشیل میڈیا میں صرف اور صرف کیجریوال کا جھاڑو لہرا نے لگا۔عدلیہ کے کڑے رخ کا آغاز چنڈی گڑھ میئر الیکشن سے ہوا ۔ اس معاملے سپریم کورٹ نے وہ کردیا جس مودی جی نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ اس کے بعد الیکٹورل بانڈ کے معاملے میں موجودہ حکومت کی عدالت کے آنکھ میں دھول جھونکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور بالآخر ایس بی آئی رسوا ہوکر ساری تفصیل منظر عام پر لانے کے لیے مجبور کردی گئی ۔
وزیر اعظم نریندر مودی فی الحال تمل ناڈو کی جانب بہت زیادہ متوجہ ہیں ۔ ایوان پارلیمان کی عمارت کے افتتاح کی خاطر وہیں سے پجاری منگوائے گئے تھے ۔ اس کا جواز پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے یہ جھوٹ کہا تھا کہ ’’ آزادی کے 75 سال بعد بھی، بھارت کے زیادہ تر لوگ اس واقعہ سے واقف نہیں ہیں کہ کس طرح پنڈت جواہر لعل نہرو کو سینیگول سونپنے کے ذریعے اقتدار کی منتقلی عمل میں آئی تھی‘‘ ۔ آزادی کے وقت تمل ناڈو کے تھرو وادو تھورائی مٹھ کے پجاریوں نے پنڈت نہرو کو سینیگول کا تحفہ ضرور دیا تھا لیکن اس کااقتدار کی منتقلی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لیے آزادی کے جشن کو سینیگول کے سونپے جانے سے منسوب کرنا بھرم پھیلانے کی احمقانہ کوشش تھی ۔ خیر تمل معاشرہ ویسے ہی پنڈوں سے بیزار ہے اس لیے اس پر سینیگول یا وارانسی میں تمل سماگم کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوتا لیکن وہاں پر موجود بددماغ گورنر آر این روی کی دھاندلی سے ان کے جذبات ضرور مشتعل ہوتے رہتے ہیں ۔ اس گورنر نے پچھلے دنوں اجلاس کا افتتاحی خطاب پڑھنے سے انکار کرکے تمل وقار کو ٹھیس پہنچانے کا کام کیا اور اب حلف برداری میں روڈا بن گیا ۔ اس طرح تمل ناڈو میں بی جے پی کی قبر اس کا اپنا پٹھو کھود رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن ڈی ایم کے کے سینئررہنما کے پونموڈی کو وزیر کے طور پر حلف دلانے کی سفارش گورنر آر این روی کو بھیجی تو انہوں نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے انکار کردیا ۔ وہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو اس پر بینچ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے گورنرکو 24؍ گھنٹے کے اندر اس تعلق سے فیصلہ کرنے کی ہدایت دی۔ اس معاملے میں سرکاری وکیل نے پونموڈی کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرنے سے آئینی اخلاقیات کے خلاف ورزی کی دلیل دی تو چیف جسٹس چندرچڈ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ کا پارہ چڑھ گیا ۔ سپریم کورٹ نے گورنروں کے طرز عمل پر سخت ناراضی جتاتے ہوئے متنبہ کیا کہ وہ آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں۔جج صاحب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسٹر اٹارنی جنرل، ہمیں گورنر کے طرز عمل پر شدید تشویش ہے۔ ہم اسے عدالت میں بلند آواز میں نہیں کہنا چاہتے تھے لیکن وہ سپریم کورٹ آف انڈیا کی توہین کر رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو سپریم کورٹ اور قانون سے بالاتر سمجھ رہے ہیں۔ جن لوگوں نےانہیں مشورہ دیا، انہوں نے غلط مشورہ دیا۔ گورنر چونکہ مرکزی حکومت کا کٹھ پتلی ہوتا ہے اس لیے عدالت نے نام لیے بغیر سرکار کے کان اینٹھ دئیے ۔
سپریم کورٹ میں دوسرا معاملہ دو نئے الیکشن کمشنرس کی تقرری پر عبوری روک لگانے اور نئے قانون پر غور کرنے کا تھا ۔ اس میں سے پہلے والے مطالبے کی عرضی کو خارج کر کے تو عدالت نے دوسرے کو قبول کرلیا ۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی آئینی بنچ نے کہا کہ وہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، سروس و دفتری شرائط) ایکٹ2023ء کے جواز کو چیلنج کرنے والی اہم عرضیوں پر غور کرے گی لیکن اس کے تحت کی گئی تقرریوں پر فی الحال روک لگانا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے بدانتظامی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجائےگی ۔ ویسے ان پر کوئی الزام بھی نہیں ہے مگر دورانِ سماعت بینچ نے دو نئے الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لئے اختیار کئے گئے طریقہ کار پر مرکزی حکومت سے سوالات کئے اورسلیکشن کمیٹی کو مزید وقت د ئیے جانے کی بات بھی کہی۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب نئے قانون پر غور و خوض کیا جائے گا تو حکومت کے لیے مشکلات ہوں گی۔
سپریم کورٹ نے اس سے قبل چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) اور الیکشن کمشنروں کی تقرری سے متعلق معاملے میں دائر کردہ درخواست کے اندر مرکز کے موجودہ نظام پر سوالات اٹھائے تھے ۔ اس میں اپنی پسند کے حاضر سروس بیوروکریٹس کو بطور سی ای سی اور ای سی تعینات کرنے سے متعلق وضاحت طلب کی گئی تھی۔ ایسے میں نئے لیکشن کمشنر گیانش کمار اور ڈاکٹر سکھبیر سنگھ سندھو کی بطور الیکشن کمشنر تقرری پر عدم استحکام کی تلوار لٹکنے لگی ہے ۔ وزارت قانون و انصاف کے نوٹیفکیشن پر چند گھنٹوں کے اندر صدر مملکت دروپدی مرمو نے دستخط کیے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ حکم کی تعمیل کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔ انہوں نے اس معاملے میں عدالت کے فیصلے کا انتظارکرنے کی زحمت بھی نہیں کی حالانکہ وہ صرف ایک دن کا معاملہ تھا ۔ کانگریس کے سینئر رہنما ادھیر رنجن چودھری بھی سلیکشن کمیٹی میں شامل تھے لیکن انہوں نے ان تقرریوں سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اس پر اختلافی نوٹ لکھ دیا جسے بڑے آرام سے کوڑے دان کی نذر کردیا گیا۔
نئے قانون کے مطابق سلیکشن کمیٹی میں سرکار کی جانب سے وزیر داخلہ امیت شاہ کا تقرر کیا گیا مگر اس ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیر قانون ارجن رام میگھوال کو بھی بلا لیا گیا۔ وہ اگر مختصر لسٹ بنانے کی اپنی ذمہ داری ادا کرتے تب تو اس کا جواز تھا لیکن ویسا بھی نہیں ہوا۔ اب اگر وزیر قانون خود ضابطوں کو پامال کرے تو کس سے توقع کی جائے۔ ادھیر رنجن چودھری کو شکایت ہے کہ میٹنگ میں شرکت سے پہلے انہوں نے مختصر فہرست مانگی تھی اور یہی روایت ہے مگر انہیں جو فہرست دی گئی ہےاس میں 212؍ نام تھےاس لیے تمام ناموں کے بارے میں جاننا مشکل تھا۔ ویسے بھی چونکہ کمیٹی میں اکثریت حکومت کے حق میں ہےاس لیے ان کےکچھ کہنے یا نہ کہنے سے کوئی فرق تو پڑتا نہیں ہے،فیصلہ تو وہی ہوتا جو حکومت چاہتی یعنی سرکاری منشا کے مطابق ہی الیکشن کمشنر کا انتخاب ہونا تھا ۔ ادھیر رنجن چودھری کے خیال میں چیف جسٹس آف انڈیا کو اس کمیٹی میں ہونا چا ہئے تھالیکن گزشتہ سال مودی حکومت کی جانب سے بنائے گئے قانون نے اس میٹنگ کو ایک رسمی نشست میں بدل دیا ہے ۔
چیف جسٹس کادودن کے اندر اس معاملے میں سماعت کی تاریخ دلوانا ان کے تیور ظاہر کرتا ہے۔حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلوں کو نظر انداز کرنا اب ذرائع ابلاغ کے لیے ناممکن ہوتا جارہاہے۔ موجودہ رسہ کشی کے سبب اگر سپریم کورٹ کا اس بابت حکومت کے خلاف کوئی سخت فیصلہ آجائے تو انتخابی موسم میں مودی سرکار کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی ۔ تمل گورنر اور الیکشن کمیشن کے علاوہ تیسرا معاملہ مرکزی حکومت کے فیکٹ چیکنگ یونٹ کا زیر سماعت آیا۔ اس پر نوٹیفکیشن جاری ہونے کے اگلے ہی دن سپریم کورٹ نے پابندی عائد کرکے حکومت کے گال لال کردئیے ۔ اس بابت عدالتِ عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق ایک کیس پہلے ہی بامبے ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جب تک ہائی کورٹ اس معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرلیتا یہ پابندی برقرار رہے گی۔
مودی سرکار آج کل قانون و ضابطے کا پاس و لحاظ پوری طرح بھول چکی ہے ورنہ بامبے ہائی کورٹ میں2023ءکے آئی ٹی قوانین میں ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواست کے زیر التوا ہونےپر بھی مرکزی حکومت نے سوشل میڈیا پر اپنے کام سے جڑے مواد کو دیکھنے یا چیک کرنے کے لئےفیکٹ چیکنگ یونٹ کی بابت حکمنامہ جاری کرنے میں جلد بازی نہیں کرتی ۔ سوشیل میڈیا کی یلغار سے پریشان مرکزی حکومت کی الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی وزارت نے ایک دن قبل اچانک انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ بیورو کے تحت فیکٹ چیکنگ یونٹ کو نوٹیفائی کردیا ۔ دن رات جھوٹ پھیلانے والی مودی سرکار کا دعویٰ ہے کہ اس یونٹ کی مدد سے فرضی خبروں پر روک لگانے کی کوشش کرنا مضحکہ خیز اعلان تھا ۔چیف جسٹس چندر چڈ ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بینچ نے فوراً روک لگانے کا جواز یہ پیش کیا کہ یہ معاملہ آزادی اظہار رائےسے جڑا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کو اس کی پروا نہیں ہے مگر عدالت کو ہے۔ اروند کیجریوال کی گرفتاری بھی اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک کوشش ہے مگر مودی سرکار کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں فوج بھی عمران خان کو جیل بھیج کر ان کی آواز دبانے میں ناکام ہوگئی۔ انہوں نے سب زیادہ امیدواروں کو کامیاب کرمجروح سلطانپوری کے اس شعر کی تفسیر بن گئے (ترمیم کی معذرت کے ساتھ) ؎
روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مودی ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
Comments are closed.