زعمائے ملت کے نام ایک کھلا خط

محترم حضرات! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ آپ تمام حضرات مع اہل خانہ و متعلقین اور اپنی جمعیت اور جماعت، متوسلین و معاونین اور عقیدت مندوں کے ساتھ بخیر و عافیت ہوںگے۔
اس وقت ملک میں جتنی بھی دینی، ملی،سماجی اور سیاسی جماعتیں اور قائدین ہیں، میں ان سب کے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہوں اور ان کی کوششوں، کا وشوں اور قربانیوں کو بہ نظر تحسین دیکھتا ہوں اور مو جو دہ حا لا ت میں ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ کب ملت کی رہنمائی کا فریضہ ادا کریں گے اور ملت کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لیے آگے آئیں گے۔
یہ کہنے کے بعد ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ چاہے وجہ جو بھی رہی ہو ہم اجتماعی طورپر حا لات کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہے ہیں جس میں خارجی عوامل کے ساتھ ساتھ خود ہمارے فہم و فکر کی کو تاہی اور ہماری تنگ نظری اور خود غرضی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ بہر حال میں اس وقت اپنے قائد ین اور ملت کی خامیاں گنانے اور ان کی نا کا میوں پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا ہوں جو بات اظہر من الشمس ہے اس پر تبصرہ کر کے وقت ضائع کرنا عقل مندی نہیں ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے بعد جو نیا ہندوستان نمو پزیر ہو رہا تھا ہم اس کے Dimensions &Dynamism یعنی اس کے سمت و رفتار کا اندازہ لگا نے اور اس کا صحیح ڈھنگ سے تجزیہ کرنے میں نا کا م رہے اور آج بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں بلکہ موہوم امیدوںاور کمزور شاخوں پر اپنا آشیانہ بنانے میں مشغول ہیں۔ یہ وہ Monumental Failure & Blunder ہے جس کی وجہ سے آج ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ تقسیم ہند ایک ایسا سانحہ ہے جس نے پوری مسلمان ملت کو یتیم اور سیاسی طور پر اچھوت بنا دیا ہے۔اب نہ علاحدہ انتخاب ہے( Separate Electorate) اور نہ متناسب نمایندگی (Proportional Representation )ہے اور نہ محفوظ نشستیں (Reserved Seats) ہیں۔ رہی سہی کسر تحدید (Delimitation)نے پوری کردی ہے اور پھر جہاں مسلمانوں کی دس سے تیس فی صد آبادی ہے اس کنسٹی چوئنسی کو شیڈول کاسٹ ریزرو سیٹ بنا کر مسلمانوں کی نمائندگی کے امکان کو کم اور ختم کر دیا گیا تاکہ مسلمان سیاسی طور پر بے آواز Voiceless ہوجائیں۔اس طرح بھارت میں مسلمان بڑی حد تک سیاسی جنگ ہار چکے ہیں اور ان کی نمائندگی ریاستی اسمبلیوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں لگاتار گھٹ رہی ہے اور اب یہ سیاسی پارٹیوں کے پوری طرح رحم و کرم پر ہیں کے وہ ان کو ٹکٹ دیں یا نہ دیں۔ چونکہ ان کا اپنا بیس(Base) بہت کمزور ہے اس لیے خوشامد، چاپلوسی اور بے ضمیری واحد طریقہ ہے جس کے ذریعہ کوئی عہدہ منصب اور مقام و مرتبہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ پارٹی میں مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں میں پارٹی کی نمائندگی کرکے انعام کے امیدوار ہوتے ہیں۔لہٰذا مسلمانوں کے بارے میں بولنے سے پہلے سو بار پارٹی قیادت کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ جب اور جتنا بولنے کی اجازت دیتی ہے بس اسی وقت اور اتنا ہی منہ کھولتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر دن بدن کمزور (Disempowerd & Marginalized) ہوتے جارہے ہیں۔سیاسی قوت سے محرومی کسی قوم کو غلامی کے دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔مسلمان بیس کڑور کی آبادی رکھنے کے باوجود اس وقت سیاسی طور پر جتنے بے وزن ہیں اتنا شاید پہلے کبھی نہیں تھے۔ یہ اس وقت ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے جس کو ہیڈ آن ایڈریس( address on Head )کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کی تقسیم اور آزادی کے بعد پورا سماجی اور سیاسی سانچہ (Equation)بدل گیا تاہم جب ملک کا دستور بنا تو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مذہبی،لسانی، ثقافتی اور دیگر تحفظات فراہم کئے گئے اور اس کو بنیادی حقوق کے باب میں درج کیا گیا جس میں ترمیم اور تنسیخ کرنا دستور بد لنے کے مترادف ہے۔سپریم کورٹ نے اسے بنیاد ی ڈھانچے،(Basic structure) میں شامل کر کے ناقابلِ تنسیخ بنا دیا ہے۔ اس کو آج کی سیاسی زبان میں مخالفین منہ بھرائی ( Appeasement) کہتے ہیں،مگر سیاست بدلتے ہوئے موسم کی طرح ہے۔ جب موسم بدلتا ہے تو سورج کی تپش میں بھی کمی بیشی ہو جاتی ہے۔اس وقت پارلیمنٹ اور عدالت دونوں نت نئے طریقے سے ان تحفظات پر شب خون مار نے میں جٹی ہوئی ہیں اور ان میں ترمیم و تحدید کی کوشش لگاتار جاری ہے۔ اس طرح مسلمانوں سے مذہی آزادی چھیننے کی کوشش، یکساں سول کوڈ کا نفاذ،مسلم اقلیتی اداروں کی خودمختاری پر حملہ اور اس کے روزمرہ کے معاملات میں مداخلت، مساجد پر قبضہ کر نے کی کوشش، مدارس، مساجد، قبرستان پر بلڈوزر کارر وائی،قبروں اور مزاروں کا انہدام،ارد و کے خلاف تعصب، اس کو نصاب سے خارج کرنے کی کوشش، بچوں کے نصاب سے ایک طرف مسلم عہد کی تاریخ کو خارج کرنے کی کوشش اور دوسری طرف ان کو ایسی مکروہ شکل میں پیش کرنے کی سا زش جس سے خود مسلمان بچوں میں احساسِ جرم اور احساسِ کمتری پیدا ہو، بعض شہروں اور علاقوں کو مسلمانوں سے خالی کرانے کا دباؤ،شہروںاور علاقوں کا نام بدلنا، سڑکوں، عمارتوں اور ریلوے اسٹیشن کے نام میں تبدیلی، اذان، نماز، حجاب پر پابندی، بڑھتا ہوا عدم تحفظ کا احساس بالخصوص سفر میں— ان باتوں نے ہمارے ثقافتی، سماجی اور معاشی دائرے(Cultural Social & Economic Space) کو محدود کر دیا ہے جس کا مسلمانوں کے تحفظ و بقا پر برا اثر پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف وہراس کا ماحول عام ہے، جس کا کچھ لوگ اس طرح مزہ لے رہے ہیںجس طرح قدیم روم میں ایک بھوکے شیر کے پنجرے میں ایک کالے غلام کو ڈال کر لوگ شیر کی چیڑ پھاڑ کا مزہ لیتے تھے اور تالی بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ یہ ان کی تفریح کا ذریعہ تھی، ٹھیک یہی چیز اس وقت بھارت میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بہت سے لوگ خوب مزا لے رہے ہیں اور واہ واہ کی صدا لگا رہے ہیں۔ بات اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مسلمانوں کو مارا کاٹا جا رہا ہے یا ان کے گھر پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں، ان کی مسجدیں توڑی جا رہی ہیں تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑ تا۔ لوگ اس کو نارمل سی چیز مان کر اس طرح صرف نظر کر جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور یہ کوئی خاص بات نہیں ہے، جس پر آواز اٹھانے کی ضرور ت ہے۔یہ اس وقت کا New Normal ہے۔چند سر پھرے لوگ جن کا ضمیر زندہ ہے ضرور شور غوغا کر تے ہیں مگر ان کو نت نئے ہتھکنڈوں سے خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بسااوقات عدالت بھی دھرم دیکھ کر اور حکومت کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ گویا سیاست کے بعد یہ دوسرا محاذ ہے جہاں مسلمان شکست وریخت سے دو چار ہیں۔
سرکاری اور غیرسرکاری رپورٹوں اور مطالعات سے ظاہر ہے کہ معاشی اور تعلیمی لحاظ سے اور اے بی سی اور ڈی گریڈ سروسز میں چاہے ریاستوں میں ہو یا مرکز میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔ پولیس اور فوج میں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے۔ گو یا مسلمانوں کو ہر میدان میں حاشیہ پر رکھنا ایک غیر تحریری سرکاری پالیسی رہی ہے جس پر ہر پارٹی کی حکومت نے پوری مذہبی جذ بے یعنی Religiously عمل کیا ہے۔
جب میں ہندو ستانی مسلمانوں کے ماضی،حال اور مستقبل پر غور کرتا ہوں تو مجھے ایک بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت غریب اور بے پڑھی لکھی ہے اور اس کے دن رات کی جانکاہ محنت کا مقصد دو وقت کی روٹی کا حصول ہے، تاکہ وہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھر سکے۔اس جد و جہد میں ان کی پوری عمر گزر جاتی ہے۔ان کو نہ تو حالات کا شعو ر ہے اور نہ اس کو بدلنے کی فکر۔مجھے لگتا ہے کہ مسلمان پس ماندہ برادریوں کی لیڈرشپ کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ موب لنچنگ کے 95%شکار غریب، پس ماندہ مسلمان ہی ہو رہے ہیں۔اس لیے یہ سمجھنا کہ مسلمانوں کی کچھ مخصوص برادریاں زد پر ہیں اور ہم محفوظ ہیں سا دہ لوحی ہے۔ پوری ملت اس وقت جارح فرقہ پرستوں کے نشا نے پر ہے بلکہ سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر کی زد میں زیادہ تر بے پڑھے لکھے، غریب اور پسمان دہ مسلمان ہی آئیں گے، لہٰذا اپنے غریب عوام کی ذمہ داری باشعور مسلمانوں کو قبول کر نی چاہیے۔
میں ان باتوں کو طول دینا نہیں چاہتا ہوں۔ہم لوگ ان تمام حالات سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ دن رات بھگت رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سے نبرد آزما کیسے ہوا جائے۔یہاں ایک بات توجہ طلب ہے ہندو سماج بنا وٹ کے اعتبار سے صرف بھارت کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بکھرا ہوا سماج ہے جہاں ہمیں ڈھونڈنے سے بھی بنائے اتحاد نہیں ملتا ہے لیکن اس سماج نے پچھلے سو سال میں جس طرح and Diversity Management Difference کا کام کیا ہے، اس سے ہندو مذہبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی قیادت کی بالغ نظری کا اندازہ ہوتا ہے اور آج ان کی نشاۃِ ثانیہ اسی کی مرہون منت ہے۔ ہمیں یہ حکمت عملی ان سے سیکھنی چاہیے۔
مدارسِ اسلامیہ چاہیے وہ جس مسلک کے ہوں دین کا قلعہ ہیں، جن کی اہمیت اور افادیت کا میں دل سے قائل ہوں اور اس کی حفاظت کی ہر جدوجہد میں شامل ہوں مگر جو چیز اتنے عظیم ادارے کو دین وملت کیلئے ضرر رساں بنا رہی ہے وہ چور دروازہ ہے جس نے ایک ایسی راہ داری کھول رکھی ہے کہ جتنا نقصان دین وملت کو دشمنانِ دین وملت سے نہیں ہو رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ یہ دین فروش خادمانِ دین پہنچا رہے ہیں۔یہ مدارس نہیں کفر ساز فیکٹریاں ہیں، ان کے فارغین End Product لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے بجائے مسلمانوں کو فروعی باتوں پر دین سے کاٹنے میں اس طرح جڑے ہیں کہ اگر حساب لگایا جائے تو کم از کم ہندوستان میں تو کوئی مسلمان بچا ہی نہیں ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو جب بھارت میں کوئی مسلمان بچا ہی نہیں تو اس کا مسئلہ بھی نہیں رہا۔ ہمیں مدارسِ اسلامیہ کے رول، ان کے نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم پر از سرے نو غور کرنا ہوگااور اس کی اصلاح کرنی ہوگی۔ اس سے دین کی خدمت نہیں ہو رہی ہے لوگوں میں دینی تعلیم اور دین داری عام نہیں ہو رہی ہے بلکہ دین مسخ ہو رہا ہے اور ملت کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔
میرا یہ احساس ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد جس نئے بھارت کا ظہور ہوا، وہ ماضی کے بھارت سے یکسر مختلف تھا لیکن مسلمان قیادت اور عوام اس شعور سے پوری طرح خالی تھے اور آنکھ بند کر کے اسی پرانی ڈگر پر چلتے رہے جس نے انہیں اس حال میں پہنچا دیا ہے اور آج بھی لوگ سب کچھ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنے کہ باوجود ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں۔
آزادی کے بعد بھارت کی ندیوں میں نہ جانے کتنا پانی بہہ گیا ہے، مگر نہیں بدلا ہے تو مسلمانوں کے سوچنے کا زاویہ نہیں بدلا ہے۔ ہم نے پچہتر قیمتی سال گنوا دیئے ہیں۔اب وقت ضائع کرنا اپنے پر وانۂ موت یعنی Death Warrant پر بہ عقل و ہوش و حواس دستخط کر نا ہے۔
اس وقت ملک میں دسیوں مسلمان جماعتیں ،پچا سوں تنظیمیں اور سینکڑوں ادارے ہیں جن کی اپنی شوریٰ ہے ، ارباب حل و عقد کا حلقہ ہے ،ایڈ وایزری بورڈ ہے ان تمام ذمہ داران کو اپنے ذاتی، گروہی، جماعتی اور مسلکی تعصبات اور تحفظات سے اوپر اٹھ کرسر جوڑ کر ایک جگہ بیٹھنا چاہیے اور ملت کے سامنے ایک قابل عمل Doable لائحہ عمل پیش کرنا چاہیے ورنہ دنیا میں ذلت و خواری اور آخرت کے خسارے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
میں خود آپ کے سامنے کوئی حل یا لائحہ عمل پیش کرنا نہیں چاہتا ہوں۔ میں یہ کام مسلمانوں کی اعلیٰ قیادت پر چھوڑتا ہوں۔ انہیں اپنے درمیان سے ماہرین پر مشتمل ایک تھنک ٹینک تشکیل دینی چاہے۔ جو موجود ہ حالات اور مسائل پر غور کر کے ایک لائحہ عمل تیا کر ے۔چونکہ معاملہ کسی ایک جماعت اور ادارے کا نہیں ہے بلکہ پوری ملت کا ہے۔اس لیے اس کو عام کرنے سے پہلے تمام جما عتوں اور ذمہ دار وں کے ساتھ ایک Brain Storming Session بلا کر خوب اچھی طرح غور فکر کے بعد عوام کے سامنے ایک قابل کار اور قابلِ عمل Doable لائحہ عمل سامنے لایا جائے اور مل جل کر ایک جدوجہد شر وع کی جائے۔ یہ فورمل نہیں اِن فور مل آرگنائزیشن ہوگی۔تمام جاعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل ایک Presidium تشکیل دی جائے اور ہر مہینہ اس کی میٹنگ ہو، جس کی ہر مہینہ باری باری سے کسی جماعت کا ذمہ دار Preside کرے۔اس کی تر تیب کیا ہوگی، اس کو یا تو حروفِ تہجی کی بنیاد پر یا تنظیم کی سن تاسیس یا باہمی رائے سے جو فورمولہ طے ہو جائے اس کی بنیاد پر کی جائے۔ جس مہینے جس جماعت یا ادارے کی باری ہو اس کے دفتر میں یہ میٹنگ ہو تو بہتر ہے۔میری رائے میں یہ وقت کی سب سے بڑی ضرور ت ہے اور عوام ایسی کوشش کے لیے اپنے قائدین کی طرف نظر اٹھائے دیکھ رہے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ ہمارے قائدین اس سلسلے میں اپنی ملی، دینی اور پختہ تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثبت فیصلہ کریں گے اور آپس میں مل بیٹھنے کی صورت نکالیں گے۔
اللہ آپ تمام لوگوں کو صحیح اور مفید فیصلہ کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
خاکسار
ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
صدر مسلم مجلس مشاورت بہار
Website: abuzarkamaluddin.com, Mobile: 9934700848
Comments are closed.