چوتھی پاس راجہ تیسری فیل وزیر

 

ڈاکٹر سلیم خان

اروند کیجریوال نے اپنی گرفتاری سے ٹھیک گیارہ ماہ قبل دہلی کے ایوان اسمبلی میں ایک یادگار تقریر کی تھی جس کو چوبیس لاکھ لوگوں نے توعام آدمی پارٹی کے یو ٹیوب چینل پر دیکھا اور دوسرے چینلس پر دیکھنے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ نے در اصل ’چوتھی پاس راجہ ‘ کے عنوان سے ایک کہانی سنائی تھی۔ اس میں کہیں بھی مودی یا کیجریوال کا نام نہیں لیا گیا تھا مگر ساری دنیا سمجھ گئی کہ کب کس کاذکر ہورہا ہے۔ اس تقریرکے بعدغالباً کیجریوال کی گرفتاری کا فیصلہ ہوگیا ہوگا اب صرف موقع کا انتظار تھا جو گیارہ ماہ کے بعد آیا اور چوتھی پاس راجہ نے اپنے تیسری فیل سپہ سالار کے مشورے پر ا سے عملی جامہ پہنا دیا ۔ اروند کیجریوال نے جو”چوتھی پاس بادشاہ‘‘کی کہانی سنائی اس کو یاد کیا جائے تو ان کی گرفتاری کی ایک وجہ سمجھ میں آجاتی ہے ۔

مذکورہ بالاکہانی کے اندر راجہ کا شخصی تعارف اس طرح کرایا گیا تھا کہ ’وہ بہت مغرور اور بدعنوان تھا‘۔کیجریوال نے جب کہا کہ ’ میری کہانی میں کوئی ملکہ نہیں۔ وہاں صرف بادشاہ ہے‘ تو لوگ سمجھ گئے اشارہ کہاں ہے لیکن جب وہ بولے ’ اسے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے چوتھی کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔ وہ گاؤں کے قریب ریلوے اسٹیشن پر گھر کا خرچہ چلانے کے لیے چائے بیچتا تھا۔ اس لڑکے کو تقریریں کرنے کا بہت شوق تھا اور وہ کسی بھی مسئلے پر ایک بار بولنا شروع کرتا تورکتا ہی نہیں تھا ۔ وہ لڑکا بڑا ہوکر ایک عظیم ملک کا چوتھی پاس راجہ بن گیا‘‘ تو سب لوگ سمجھ گئے کہ کس کی بات ہورہی ہے۔ اس کے بعد تفصیل کے ساتھ کیجریوال نےچوتھی پاس راجہ کی جعلی ڈگری کا قضیہ بیان کرنے کے بعد کہاتھا کہ ’’ ایک دن کچھ لوگ چوتھی پاس بادشاہ کے پاس گئے اور بولے نوٹ بندی سے کرپشن اور دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ راجہ نے رات 8 بجے ٹی وی پر آکر نوٹ بندی کا اعلان کردیا ۔اس کی وجہ سے دہشت گردی توختم نہیں ہوئی اورنہ کرپشن ختم ہوا مگر وہ عظیم ملک تباہ ہو کر 10-20 سال پیچھے چلا گیا۔

وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنی کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ پھر ایک دن کچھ لوگ چوتھی پاس بادشاہ کے پاس گئے اور کہا کہ یہ کسان قانون پاس کرو، کھیتی بہت بڑی ہو جائے گی۔ ان پڑھ بادشاہ کو کوئی عقل نہ تھی، اس نے دستخط کر کے کسانوں کے تین کالے قانون پاس کر دیے ۔ ملک بھر سے کسان سڑکوں پر آگئے۔ ایک سال کے احتجاج میں 750 سے زیادہ کسانوں کی موت ہو گئی۔ آخر کار بادشاہ کو تینوں کالے قوانین واپس لینے پڑے‘‘۔ اس کے بعد یہ حملہ ذاتی نوعیت کا ہوگیا اورکیجریوال بولے’ ایک دن بادشاہ کو لگا کہ پتہ نہیں کتنے دن بادشاہ رہیں گے۔ اس نے اپنی زندگی غربت میں گزاری تھی۔ اسے لگا کہ پیسہ کمانا چاہیے۔ پیسہ کیسے کمایا جائے۔ میں پیسے کماؤں گا تو عوام میں امیج خراب ہوجائے گی۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو بلایا۔ اس نےدوست سے کہا کہ میں بادشاہ ہوں، میں آپ کو تمام سرکاری ٹھیکے دوں گا۔ نام تمہارا ہو گا اور پیسہ میرا ہوگا۔ آپ کو تمام رقم پر 10% کمیشن ملے گا۔ دوست نے اتفاق کیا۔ اس کے بعد دونوں نے مل کر ملک کو خوب لوٹا‘‘ اس کے بعد کہانی میں بنکوں کو لوٹنے کا طریقۂ کار تفصیل سے بیان کیا گیا تھا ۔

اروند کیجریوال آگے کہتے ہیں ’ بینکوں کو لوٹنے کے بعد راجہ اور ان کے دوست نے ملک خریدنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے اس نے ملک کے چھ ہوائی اڈے خریدے۔ پھر بجلی کمپنیوں کو خرید کر پورے ملک میں بجلی کی قیمتیں بڑھا دیں اور پولیس بھیج کر پرائیویٹ کمپنی مالکان سے ان کی کمپنیاں بھی چھین لی گئیں‘‘۔چوتھی پاس راجہ کی اندھی نگری اور چوپٹ راج کی تصویر کشی کیجریوال نے اس طرح کی تھی ’’ پورے ملک میں مہنگائی کا راج تھا۔ پہلے ایل پی جی کی قیمت 400 روپے فی سلنڈر تھی۔ لیکن چوتھی پاس بادشاہ کے آنے کے بعد یہ 1100 روپے ہو گیا۔ پہلے پٹرول کی قیمت 71 روپے فی لیٹر تھی، اس کے بعد97 روپے فی لیٹر ہو گیا۔ پہلے ڈیزل کی قیمت 57 روپے فی لیٹر تھی جو 90 روپے ہو گئی ۔ دودھ پہلے 46 روپے فی لیٹر تھا جو 66 روپے ہو گیا ۔ اس بادشاہ نے چھوٹے بچوں کا دودھ چھین لیا۔ سرسوں کا تیل 90 روپے فی لیٹر تھا جو 214 روپے ہو گیا ‘‘۔

اختتام کے قریب کہانی کا منظر بدلتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کہتے ہیں ’’ لوگ بادشاہ کے خلاف آواز اٹھانے لگے تو اس نے کہا کہ جو میرے خلاف بولے گا میں اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دوں گا۔ اگر کسی نے بادشاہ کا کارٹون بنایا تو اسے بھی جیل بھیج دیا گیا۔اگر کسی نے بادشاہ کا نام غلط لیا تووہ بھی جیل چلا گیا۔ ایک ٹی وی چینل کے مالک نے بادشاہ کے خلاف لکھا تو اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایک جج نے بادشاہ کے خلاف حکم صادر کیا تو اسے بھی جیل جانا پڑا۔ ججوں، صحافیوں، تاجروں، صنعت کاروں میں سے راجہ نے کسی کو نہیں بخشا اور ایک عظیم ملک کہاں پہنچ گیا۔‘‘ اس کہانی میں اب ایک نیا موڑ آتا ہے ۔اروند کیجریوال نے کہا تھا ’’ اس ملک کے اندر ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ اس ریاست کا وزیر اعلیٰ اپنے لوگوں کا بہت خیال رکھتا تھا ۔ وہ کٹر ایماندار، محب وطن ا ور تعلیم یافتہ تھا‘‘۔

آگے چل کر اروند کیجریوال نے اس وزیر اعلیٰ کے کارنامے بیان کرتے ہوئے کہاتھا’’ اس نے اپنے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے بجلی مفت کر دی۔ اس کے بعد چوتھی پاس راجہ دیوانہ ہو گیا۔ اس نے وزیر اعلیٰ کو بلا کر کہا ، تمہاری ہمت کیسے ہوئی بجلی مفت کرنے کی؟ بادشاہ نے تمام پاور کمپنیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسے لگا کہ اگر یہ وزیر اعلیٰ بجلی مفت کرنے لگے تو میرا بوریا بستر گول ہوجائے گا۔ میری پاور کمپنیاں لُٹ جائیں گی۔ بادشاہ نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ خبردار،وزیر اعلیٰ نے اتفاق نہیں کیا۔ وزیراعلیٰ نے غریب کے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کے لیے سرکاری اسکولوں کی مرمت شروع کر دی۔ چوتھی پاس راجہ نے اسکول کی مرمت کا کام روکنے کو کہا، لیکن وزیر اعلیٰ نے اتفاق نہیں کیا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ نے مفت علاج کے لیے محلہ کلینک کھولے توبالکل دیوانہ ہو گیا‘‘۔اب کہانی اپنے کلائمکس میں داخل ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے’’ آہستہ آہستہ عوام کو پتہ چلا کہ بادشاہ کیسا ہے؟ ایک دن لوگوں نے اس کو اکھاڑ پھینک دیا اور ایک ایماندار اور محب وطن آدمی کو وہاں بٹھا دیا۔ اس کے بعد ملک سے مہنگائی ختم ہوئی اور ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا‘‘۔

وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی بیان کردہ کہانی اس بات کی ترغیب دینے والی تھی کہ اگر آپ کے ملک میں مہنگائی سمیت دیگربہت سے مسائل ہوں اور سب کچھ غلط ہو رہا ہو تو سب سے پہلے یہ چیک کریں کہ کہیں آپ کا بادشاہ ناخواندہ تو نہیں ہے۔ اگر ملک کو بے روزگاری جیسے مسائل نے گھیر رکھا ہو تو دیکھیں کہ کہیں آپ کے راجہ کا کوئی دوست تو نہیں ہے۔ اگر ہے تو پہلے اپنے بادشاہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو ورنہ مسائل کا کوئی حل نہیں ہو گا۔ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بہت سوچ سمجھ کر یہ کہانی سنانے کے لیے دہلی کے ایوان کا خصوصی اجلاس طلب کیا تھا اس لیے کہ وہاں من کی بات کھل کر بولنےپر آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ حزب اختلاف شور شرابہ کرکے بھی اسے روک نہیں سکتا اور نہ مائک کو بند کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں بیٹھااسپیکر بھی جھاڑو بردار ہے۔ یہ خطاب اگر باہر کیا جاتا تو اروند کیجریوال گھر نہیں جیل جاتے لیکن بالآخر انہیں پابند سلاسل ہونا ہی پڑا ۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال عام آدمی پارٹی ’انڈیا‘ نامی وفاق کا حصہ ہے۔ اس لیے کیجریوال کو حزب اختلاف کے تقریباً تمام قائدین کی حمایت حاصل ہوگئی اور ان کے حق میں بیانات کا تانتا بندھ گیا کیونکہ گرفتاری کی تلوار توسبھی کے سروں پر لٹک رہی ہے۔ مودی جی کی شدید خواہش ہے کہ پوتن اور شی جن پنگ کی مانند اکیلے انتخاب لڑ کرکم جونگ یا حسینہ واجد کی طرح کامیابی کا پرچم لہرا دیں ۔ ایسے میں راہل گاندھی کا ایکس میسیج قابل توجہ ہے کیونکہ اس میں محض گرفتاری کی مذمت کے ساتھ اس کے مقصد اور وجہ کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ انہوں نے لکھا ’’ڈرا ہوا آمر ، ایک مری ہوئی جمہوریت بنانا چاہتا ہے۔ میڈیا سمیت سبھی اداروں پر قبضہ، پارٹیوں کو توڑنا، کمپنیوں سے ہفتہ وصولی، اہم اپوزیشن پارٹی کا اکاؤنٹ فریز کرنا بھی ’اَسُری شکتی‘ (بری طاقت) کے لیے کم تھا، تو اب منتخب وزرائے اعلیٰ کی گرفتاری بھی عام بات ہو گئی‘‘۔ اس بیان میں کیا ہورہا ہے؟ اور کیوں ہورہا ہے ؟ ان دونوں سوالات کا جواب موجود ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام چوتھی پاس راجہ کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں ۔ اس کی پھر سے تاجپوشی کرتے ہیں یا سر سے تاج ہٹا دیتے ہیں ۔

Comments are closed.