مئو کی شان جناب مختار انصاری مرحوم

از قلم : مولوی عزیز الرحمٰن ندوی
کوپاگنج مئو
اگر انگریز شیر میسور سے ڈرتے تھے تو شیر مئو سے پورا پوروانچل ڈرتا تھا ادھر حکومت تھی تو ادھر انفرادی شجاعت تھی۔ لاکھوں انسانوں کی بھیڑ میں جناب مختار انصاری کو دیکھنا ہر ایک کے لیے آسان تھا۔ تقریباً کوئی سات فٹ کا لمباتڑنگا قد ۔گورا چٹا۔ خوبصورت و خوب سیرت ۔ کردار کا غازی۔مظلوموں کے لیے مضبوط پلر ۔ چہرہ پر بہادری نمایاں ۔مونچھوں پر تاؤ۔ایمان و عقیدہ میں جما ہوا پہاڑ۔ توکل علی اللہ میں کامل۔زبردست نشانہ باز۔
ہزاروں دشمنوں کے ہوتے ہوۓ کھلی گاڑی کے اوپر بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کو لہرانا مجھے یاد ہے اورسیل رواں کی طرح انکے آگے پیچھے عوام کا امنڈتا سیلاب بھی مجھے یاد ہے ۔ ہر شخص اپنے مسیحا کو دیکھ کر گویا فدائی ہوا جاتا تھا۔ اسٹیج پر ان کی دھاڑ سے بڑے بڑے بھیا بھی ہل جایا کرتے تھے۔ وہ اسٹیج پر برملا کہتے تھے کہ مجھے اتنے ووٹوں سے جتاؤ کہ وزیر اعلیٰ کو جاکر تھپڑ لگاؤں۔اس خاندان نے قدیم زمانہ سے اس ملک کے گیسو کو سنوارا اور سلجھایا ہے۔ ان کے دادا ڈاکٹر مختار احمد انصاری آزادی کے بڑے علم بردار تھے اور اس وقت کانگریس کے راشٹریہ صدر تھے تو دوسری جانب ان کے نانا شہید محمد عثمان برگیڈئیر رہ چکے تھے۔ نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری صاحب بھی اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔
جب مختار انصاری کا مئو کی سرزمین پر سیاست کی دنیا میں قدم پڑا تو مئو ہی کے ایک معروف سیاست داں جناب مولانا حبیب الرحمن صاحب نعمانی نے اسٹیج پر انصاری صاحب کا ہاتھ اٹھا کر اہل مئو سے اپیل کیا کہ اے لوگو اس ہاتھ کی لاج رکھنا۔ اور مئو کی عوام نے بھی ایسی لاج رکھی کہ ان کو پانچ مرتبہ مئو سے ودھایک بنایا ۔
مختار انصاری کی خوبیاں اور انکی بہادری کے چند واقعات۔
1 ۔ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ ضلع مئو سے حاجیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تھی ۔ شاید اس کے بعد سے اتنی بڑی تعداد ضلع مئو سے اب تک نہ ہوسکی۔ حجاج کرام اور ان کو رخصت کرنے والوں کی مئو اسٹیشن پر بھیڑ لگ گئی۔ جس سے افراتفری کا ماحول ہوگیا۔ بدنظمی ہوگئی۔ تب پولیس نے لاٹھی چارج کر دی۔ اسی وقت مختار انصاری اوربریج سے گزررہے تھے کرتا پائجامہ والوں کو بھاگتے ہوۓ دیکھا۔ عینی شاہدین کا بیان ہے کہ انصاری صاحب گاڑی سے اترے اور بریج کی ڈھلوان سے کود کر دوڑے ہوۓ اسٹیشن آۓ اور لوگوں سے معلومات حاصل کرکے پولیس افسر کا کالر پکڑ کر کہا یہ سب کیا ہورہا ہے۔ چونکہ ڈر کی وجہ سے لوگ ادھر ادھر منتشر ہو گئے تھے۔ ٹرین آئ اور چلی بھی گئی کچھ لوگ بیٹھے اور کچھ نہ بیٹھ سکے۔ تب انصاری صاحب نے اپنے پاور کا استعمال کرتے ہوئے ٹرین کو جو کہ تین کیلومیٹر تک آگے جا چکی تھی پیچھے واپس بلوایا اور اپنی نگرانی میں جانے والے تمام حاجیوں کو بٹھا یا اور پولیس کے ڈنڈے کی ڈر سے جو لوگ ٹرین میں پناہ لئے ہوۓ تھے سب کو نیچے اتارا۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ٹرین بھی واپس آتی ہے؟ یہ کمال تھا مختار کا۔ آج بھی بوڑھے لوگوں سے کوئی پوچھتا ہے کہ مختار نے مئو کے لیے کیا کیا؟ تو پرانے لوگوں کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارے لئے ٹرین کو واپس بلایا یہی ہمارے لئے کافی ہے۔
2 ۔ شہر مئو کی کوتوالی والی مسجد کافی عرصہ سے تعمیر کی محتاج تھی مگر انتظامیہ کی طرف سے بار بار رکاوٹیں آجاتی تھیں اور برسوں سے تعمیری کام ہو نہیں پاتا تھا۔ مختار انصاری ہی وہ ہستی ہے جس نے وہیں بیٹھ کر مسجد کی مضبوط و مستحکم تعمیر کرائ۔اور مسجد کو ایک نئی زندگی دے دی۔
3 ۔ ہر سال دسہرہ کے موقع پر مئو میں فساد کا اندیشہ رہتا تھا اور پولیس انتظامیہ کا سکون غارت ہوجاتا تھا۔ در اصل بات یہ ہے کہ ایک زمانہ سے برادران وطن جب مورتی پھینکنے کے لئے لے جاتے تھے تو کٹرہ کی شاہی جامع مسجد کی دیوار سے اس کو ضرور ٹچ کرتے تھے جس کی وجہ سے ہنگامہ ہوجاتا تھا اور فساد تک نوبت آجاتی۔ مختار انصاری ہی کی حکمت عملی سے وہ جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔مختار انصاری صاحب کی بااثر ثالثی سے اور فریقین کے باہمی سمجھوتہ سے سرکاری دستاویزات کے ساتھ مسجد کی دیوار سے دس بارہ فٹ چھوڑ کر زمین میں موٹے موٹے پائپ گاڑ دئیے گئے اس کے بعد سے ہر سال دسہرہ کے موقع پر اس میں بانس بلی لگا کر مسجد کو محفوظ کردیا جاتا ہے اور مورتی باہر ہی باہر ٹچ کرنے کی کوشش کے باوجود ٹچ ہوۓ بغیر اور بغیر کسی خطرہ کے روانہ ہو جاتی ہے ۔ اس طرح امن کے علم بردار جناب مختار نے ہندو مسلم کے درمیان صلح و مصالحت کرا کر مئو کے لئے امن کا ماحول سازگار بنا دیا۔
یہ کمال تھا جناب مختار انصاری کا۔
4 ۔ جب برجیش اور اس کے ساتھیوں نے اچانک راستہ روک کر ان کی گاڑیوں پر حملہ کر دیا اور گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی تو اس مرد مجاہد نے اپنی گاڑی کا اگلا شیشہ توڑا اور باہر نکل کر گاڑی کے نیچے بیٹھ کر کئی ایک کو کیفر کردار تک پہونچا ڈالا۔
غریب اور مظلوم انسان جیل تک پہونچ کر ان سے بھر پور مدد حاصل کرتا ۔
غریب پروری اور مظلوموں کی داد رسی تو اس خاندان کا شیوہ رہی ہے۔ گھر ہو یا جیل ہر جگہ غریبوں اور مظلوموں کے لئے دربار لگاۓ جاتے تھے۔ ان حضرات کی حکومت لوگوں کے دلوں پر ہوا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ پورے بھارت میں غازی پور ایک ایسی سیٹ ہے جہاں مسلمان گیارہ فیصد اور غیرمسلم نواسی فیصد ہیں پھر بھی چالیس پینتالیس سال سے لگاتار ایم پی اسی خاندان سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ سن اسی (80) کے بعد سے غیر مسلموں کے ووٹ سے لگاتار کامیاب ہونا اس بات کی کھلی ہوئ دلیل ہے کہ یہ گھرانہ لوگوں کے دلوں میں بستا ہے خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ٹھیک اسی طرح مختار احمد انصاری مئو سے پانچ بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں اور چھٹی بار ان کا بیٹا عباس انصاری موجودہ ایم ایل اے ہے ۔
یہی نہیں بلکہ 2005 کے آس پاس مختار انصاری صاحب نے اپنے بل پر قرب و جوار سے سماج وادی پارٹی کو نصف درجن سیٹوں پر جیت درج کروائی تھی ۔
5 ۔ ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں زمینوں کے ناجائز قبضے ہٹوا کر لوگوں کے مسائل کو حل کردیا ۔
6 ۔ بے شمار غریبوں اور مریضوں کی مدد فرمائ اور ہزاروں بچیوں کی شادیوں میں خاصا تعاون فرمایا۔
7 ۔ ظالم ان کے نام سے کانپ جاتا تھا ۔ ظلم کے لئے وہ بہت بڑی چٹان تھے ہر مظلوم کی فریاد ان کے یہاں پوری ہوتی۔
8 ۔ امت مسلمہ کی ناک سمجھا جانے والا یہ بہادر ہمیشہ علماء کرام سے خصوصی لگاؤ رکھتا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ مئو کے مفتی محفوظ الرحمٰن صاحب اور کوپاگنج کے مفتی خلیل صاحب سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ جب بھی کوپاگنج آتے تو مفتی صاحب کے یہاں ضرور حاضر ہوتے ۔ اور مدارس میں حاضری دیتے تھے۔ ان کا یہ وصف دین سے تعلق کی بنا پر تھا ۔
میں نے کبھی بھی کسی مقامی لیڈر کے یہاں انہیں جاتے نہیں دیکھا اگر جاتے تو بزرگوں کے یہاں جاتے۔ اور ان کی دعائیں لیتے ۔ اللہ تعالی نے انہیں بڑی مقبولیت عطا فرمائ تھی۔
گفتار کے غازی تو نہیں تھے البتہ کردار کے غازی ضرور تھے۔
مختار انصاری کی وفات جیل میں ہوئ وہ ایک طویل عرصے سے مختلف جیلوں میں بند تھے غزوہ بدر کی تاریخ یعنی سترہ رمضان المبارک کو ان کے خدشات ظاہر ہوۓ ۔ کہتے ہیں کہ شیر کا شکار پنجرہ میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ کھلے میں شکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح امت مسلمہ کا ایک مضبوط ستون ہمیشہ کے لئے گر گیا ۔
چنانچہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے پورے غازی پور کو چھاؤنی میں بدل دیا گیا اور چھبیس نامزد گاڑیاں ایک بہادر کی مردہ لاش کو باندہ سے لے کر ان کے وطن غازی پور پہونچیں جو اس بات کی شہادت ہے کہ مختار گرچہ مرچکے ہیں مگر ان کی جلالت شان اور وہی سابقہ رعب و دبدبہ باقی ہے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کی شان کے مطابق ان کے درجات بلند فرماۓ۔ ان کے گھر کے سارے افراد کو صبر جمیل عطا فرمائے۔مقدمات سے چھٹکارا نصیب فرمائے اور مظلوموں کے لئے ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
Comments are closed.