لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

 

ڈاکٹر سلیم خان

صیاد کو اپنے دام پھنستے اگر کسی نے نہیں دیکھا ہو تو بی جے پی کو دیکھ لے۔ اروند کیجریوال کو گرفتار کرنے کی حماقت بی جے پی کو اتنی مہنگی پڑی کہ موصوف  کو اپنے دفاع کے لیے وکیل  کی ضرورت بھی نہیں رہی۔  اروند کیجریوال فی الحال  اپنی گرفتاری سے محظوظ ہونے لگے ہیں کیونکہ ان کی  مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔  اسی لیے انہوں نے اپنی پیروی کے دوران یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ای ڈی کے ریمانڈ کی مخالفت نہیں کررہے ہیں۔ وہ جتنے دن چاہے انہیں اپنی حراست میں رکھ لے مگر یہ بدعنوانی ہے ، کیجریوال نے عدالت میں  خود بی جے پی کو  بدعنوان  ثابت کر  کے اسے پرت در پرت کھول  کر رکھ دیا ۔   عدالت میں پیشی سے قبل  جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ دہلی  کے لیفٹننٹ گورنر نے کہا ہے کہ   سرکار جیل سے نہیں چلائی جاسکتی تو اس کے جواب میں کیجریوال بولے یہ  ان کے خلاف ایک سیاسی سازش ہے اور عوام اس  کا جواب دیں گے ۔ 

اروند کیجریوال  دھڑّلے کے ساتھ  جیل کے اندر سے سرکار چلا ر ہے ہیں ۔  ہر روز وہ  ایک حکمنامہ نکال کر ذرائع ابلاغ پر چھا جاتے ہیں ۔ انہوں   نے اس دوران نریندر   مودی کی مانند سرمایہ داروں کے لیے کوئی  سہولت فراہم  کی نہ   ٹھیکہ دیا  بلکہ پہلے دن پانی کا مسئلہ حل کرنے کی خاطر ٹینکر  بھیجنے کا فرمان جاری کیا۔   دوسرا حکم صحت سے متعلق سہولیات کا تھا اور تیسرا  نجی تعلیمی اداروں کوبلا ا جازت  فیس بڑھانے سے روکنے کا تھا۔ ان  عوامی مسائل کا تعلق ہر خاندان سے ہے۔ ایک زمانے میں روٹی ، کپڑا اور مکان  بنیادی مسائل ہواکرتے  تھے اب دہلی جیسے شہر  میں متوسط اور غریب لوگ پانی، صحت اور تعلیم کو لے کر پریشان  ہیں۔اس صورتحال میں اگر  کوئی وزیر اعلیٰ ان کی جانب توجہ کرتا ہے تو یہ عوام کی دکھتی رگ کو چھیڑنے جیسا ہے۔ یہ غریب پرور  حکمتِ عملی  رائے دہندگان کو  ان کا ہمنوا اور بی جے پی کا مخالف بنارہی ہے ۔

 کیجریوال اگر گرفتار نہیں ہوتے توان اقدامات کومیڈیا  نظر انداز کردیتا مگر اب  خوب تشہیر مل رہی ہے ۔ ای ڈی نے اب  یہ تفتیش شروع کردی ہے کہ حراست سے کیجریوال احکامات کیسے  دے رہے ہیں کیونکہ   اس   کے مطابق ان کے پاس نہ تو کاغذ ہے اور نہ کمپیوٹر یا فون وغیرہ  ۔ سوال یہ ہے کہ وقفہ وقفہ سے انہوں نے یہ حکمنامہ کیسے صادر کردئیے؟ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اس پر ای ڈی کس نتیجے پر پہنچتی ہے؟ حالانکہ بظاہر ایسا لگتا ہے جیل جانے سے قبل نظام الاوقات کے ساتھ یہ منصوبہ بندی کردی گئی تھی کہ کب کیا نشر کرنا ہے ۔ یہ چانکیہ نیتی ہے ورنہ ای ڈی اور سی بی آئی کی مدد سے کوئی گھامڑ کندۂ ناتراش  بھی حکومت چلا  سکتا ہے۔  بی جے پی یہ تو نہیں   چاہتی کہ  دہلی کی سرکار چلے مگر اس کو برخواست کرکے شہید کا درجہ  دینے سے  ڈرتی ہے۔  دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کے لیے اس نے   ایک مقدمہ درج کروادیا۔

سرجیت سنگھ یادو  نامی وکیل نے  پی آئی ایل داخل کرکے عدالت  میں  گہار لگائی  کہ   جیل سے سرکار چلانے کے سبب  معاملہ متاثر ہوتا ہے اور آئینی مشنری  تباہ ہوتی ہے۔ہائی کورٹ  نے اس دلیل کو خارج کرکے معاملہ پھر سے انتظامیہ یعنی بی جے پی کی جانب لوٹا تے ہوئے کہا کہ استغاثہ کوئی ایسا قانون یا ضابطہ  دکھانے  میں ناکام رہا جس سے مذکورہ پابندی لگائی جاسکے۔ عدالت نے اس مکڑ جال میں پھنسنے کے بجائے اپنی جان چھڑاتے ہوئے  یہ کہہ کر بی جے پی کو رسوا کیا  کہ ہمیں سیاست میں نہیں اترنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اسے دیکھیں گی ۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے ۔ عدلیہ کی دخل اندازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اب دوسرے لوگوں کا معاملہ ہے ۔ یہ فیصلہ اب عوام کے درمیان ہوگا۔ یعنی  عدلیہ نے جیل سے سرکار کے غیر قانونی ہونے سے انکار کردیا اوربی جے پی کایہ حربہ بھی ناکام ہوگیا۔  

 مودی سرکار کی اس حماقت نے اروند کیجریوال کی اہلیہ سنیتا کو بھی مقبول کردیا ہے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے کیجریوال کے حراست سے آنے والے خط کو سنا کر اپنا تعارف کروایا۔ ذرائع ابلاغ  میں وہ  خط جنگل کی آگ کے مانند پھیل گیا اور ایک جھٹکے میں ساری دنیا ان سے واقف ہوگئی ۔ اب کیجریوال کے لیے ہمدردیاں جٹانے کی خاطر وہ  مودی سرکار کوگھیر رہی ہیں ۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کے خاوند کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔  انہیں بہت تنگ کیا جارہا ہے۔ عوام اس کا انتقام لیں گے۔  عدالت کے اندر مزید ریمانڈ مانگنے کے لیے ای ڈی کے اٹارنی سالیسیٹر جنرل  ایس وی راجو  نے چار دلائل پیش  کیے۔ پہلا تو یہ تھا کہ کیجریوال نے اپنے بیانات میں ٹال مٹول کرنے کی کوشش کی۔  وہ گوا سے گرفتار شدہ عآپ امیدوار سے کیجریوال کا سامنا کروانا چاہتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ  پاس ورڈ دینے سے انکار کرنے والے وزیر اعلیٰ نے وکیل سے مشورہ کرنے کی خاطر وقت مانگا ہے۔ وہ اگر پاس ورڈ نہیں دیں گے تو اسے توڑنا ہوگا۔   آخری دلیل یہ تھی کہ پنجاب سے کچھ  ایکسائز اہلکاروں کو کیجریوال  کاآمنا سامنا کروانے کے لیے بلایا گیا ہے۔ 

 کیجریوال نے ان دلائل کا جواب دینے کے لیے کسی وکیل کی مدد لینے کے بجائے خود ای ڈی اور سی بی آئی کی کھال ادھیڑنا شروع کردی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ دوسال سے جاری ہے اس کے باوجود کسی عدالت میں انہیں  مجرم ثابت نہیں کیا جاسکا پھر بھی  انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ سی بی آئی نے 31؍ ہزار اور ای ڈی نے 25؍ ہزار  صفحات  داخل کیے ، اس کے باوجود گرفتاری کی وجہ ندارد ہے۔  عدالت کے اندر  کیجریوال نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا (ان ۵۶؍ ہزار صفحات) میں ان کا نام صرف چار مقامات  پر آیا ہے۔ ایک گواہ  سی اروند کا کہنا ہے کہ اس نے کیجریوال کی موجودگی میں کچھ دستاویزات  منیش سسودیا کو دئیے۔ اس پر انہوں نے سوال کیا  کہ ان کے گھر پر ہر روز ارکان اسمبلی آتے ہیںتو کیا یہ بیان ان کی گرفتاری کے لیے کافی ہے؟ اس معاملے میں  ایک اور گواہ راگھو منگٹا کا حوالہ دے کر کیجریوال نے الزام لگا دیا کہ لوگوں کو بیان بدلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ای ڈی نے اس  بیان کی مخالفت  کی تو کیجریوال کا رخ جارحانہ ہوگیا ۔ 

کیجریوال نے مذکورہ بالا الزام کی حمایت میں      اگلے گواہ  شرد چندر ریڈی نامی گواہ  کاحوالہ دے کر کہا ای ڈی کا مشن صرف انہیں پھنسانا تھا اس لیےعدالت  کے سامنے ان کو پھنسانے والا بیان لایا گیا۔ ریڈی  کے پہلے ۶؍ بیانات میں ان کا نام نہیں تھا تو انہیں نظر کیا گیا مگر ساتویں میں  کیجریوال کا نام آتے ہی اسے رہائی مل گئی۔  کیجریوال کے مطابق ان چار بیانات کے علاوہ خود ای ڈی کے ہزاروں صفحات اس کی بے گناہی کے شاہد ہیں۔    انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ آخر سو کروڈ کی رقم کہاں چلی گئی؟ عدالت کے اندر ای ڈی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے وہ بولے  اصل بدعنوانی  توای ڈی کی تفتیش کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس کا پہلا مقصد عآپ کو ختم کرنا اور دوسرا اس کے ذریعہ پیسے اکٹھا کرنا ہے۔ یہ ریکیٹ چل رہا ہے۔ شرد ریڈی نے 55؍ کروڈ کا چندہ بی جے پی کو دیا اس کے ثبوت موجود ہیں۔ منی ٹریل ثابت ہوگئی ہے کہ اس نے گرفتار ہونے کے بعد 50 ؍ کروڈ بی جے پی کو دئیے۔ اس کے ذریعہ وہ یعنی بی جے پی والے  روپیہ جمع کررہے ہیں  ۔

عدالت میں ای ڈی نے اپنی مدافعت میں کہا کہ اس موقع پر ان باتوں کا کوئی معنویت  نہیں ہے۔ پہلے ان کا نام کیوں نہیں آیا اس سے وہ کھیلنا چاہتے ہیں۔ ان کو کیسے پتہ چل گیا کہ ای ڈی کے پاس کتنے دستاویز ہیں۔ یہ ان کی خام خیالی ہے۔ عآپ کے ذریعہ  حوالہ سے رقم لے کر اسے گوا میں استعمال کرنے کے  ثبوت موجود ہیں  ۔ بی جے پی کی وکالت کرتے ہوئے ای ڈی  نے کہا  الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ اس کو ملنے والی رقم کا شراب کی  بدعنوانی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔  ای ڈی نے الزام لگایا کہ کیجریوال کی رشوت مانگنے کا ثبوت ان کے پاس ہے اور بیان بدلنے کا معاملہ تفتیش کا موضوع ہے۔ ای ڈی کے بیان سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا یہ ہے کہ ثبوت موجود ہے تو پیش کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور ریمانڈ  طلب کرنے کی  حاجت کیا  ہے ؟ شرد چندر کا گواہی بدلنا اگر تفتیش کا موضوع ہے تو اسے سرکاری گواہ بنا کر رہا کیوں کیا گیا؟اور ای ڈی نے سرکار کو کلین چِٹ  کیوں دے دی؟  ای ڈی کے عذرِ لنگ اور بی جے پی حالتِ زار  پر مومن خان مومن کا یہ مشہور شعر پوری طرح صادق   آجاتا ہے؎

یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا                       میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

 

Comments are closed.