بچپن کا روزہ اور خوبصورت یادیں

محمد عارف اقبال(صحافی)
استاد، پلس ٹو اپگریڈیڈ ہائی اسکول مُریا، دربھنگہ
بچپن کی بہت سی خوبصورت یادیں میرے حافظے میں محفوظ ہے، جیسے انسان کی زندگی کے بہت سی یادیں اس کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، ویسے ہی ہر شخص کی زندگی میں اس کے بچپن کا رمضان اور اس کے روزے بھی یادگار ہوتے ہیں، ہمارے ذہن میں بھی رمضان المبارک کی بہت سی ناقابل فراموش اور دلکش یادیں ترو تازوہ ہے جسے یاد کر آج بھی ان لمحوں میں کھو جاتا ہوں۔
وہ بھی کیا دن تھے جب رمضان المبارک کے چاند کا دیدار کرنے بڑے بزرگ چھت پر کھڑے ہوتے اور ہم بچوں کی ٹولی مسجد کے پاس میدان کا رخ کرتی۔ جیسے ہی چاند نظر آتا فضاوں میں ایک شور برپا ہو تا۔ وہ رہا چاند، وہ رہا چاند،چاند نظر آ گیا، چاند نظر آ گیا۔ بچوں کے ان شوروغل سے چاروں طرف پرکیف اور ایک عجیب سماں پیدا ہو جاتا۔ اس وقت ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوتی تھی، مگر نہ جانے وہ خوشی آج کہاں گم ہو گئی۔ جب چھوٹا تھا تو خواہش تھی جلدی سے بڑا ہو جاؤں، اللہ نے یہ خواہش جلدی جلدی پوری کر دی، اب جب کہ مکمل جوانی کی دہلیز پر ہوں تو دل چاہتا ہے کہ کاش وہ بچپن کے گزرے دن دوبارہ لوٹ آتے۔
توچاند آتے ہی ہم گھر کی جانب دوڑ لگاتے، دوڑ لگانے والوں میں میرے علاوہ چھوٹا بھائی دانش اقبال سلمہ، بھانجہ وسیم اختر اور محلے کے کچھ بچے ہوتے تھے۔گھر آکر ہم بڑوں کو چاند کی خبر دیتے ہوئے کہتے ”چاند نظر آ گیا، کل سے روزہ، شام میں افطاری اورآج سے تراویح کے لئے تیار ہو جائیں“۔ اس وقت رمضان کی اہمیت و فضیلت جانے بغیرہمارے دل میں ایک خوشی کی نامعلوم سی لہر دوڑتی تھی۔ عشاکی اذان ہوتے ہی روز مرہ معمول کے خلاف لوگوں کو مسجد کی طرف لپکتے ہوئے دیکھتا۔ یہ بات بھی آج ایک حقیقت ہے اور احساس ہے کہ بچپن سے لے کر آج تک کچھ نہیں بدلا،کچھ بھی نہیں،ہاں! وقت بدل گیا۔ جیسے اس وقت محلہ کی مسجد میں رمضان المبارک کے آغاز میں نمازی زیادہ ہوتے تھے، ویسے ہی آج بھی رمضان شروع ہوتے ہی مسجد اب بھی بھر جاتی ہے اور جیسے جیسے رمضان کا مبارک مہینہ گزرتا اور آخری ایام کو پہنچتا ہے ویسے ویسے نمازی بھی کم ہوتے جاتے اور کم ہوتے ہوتے آخر میں وہی نمازی نظر آتے جو رمضان کے علاوہ دنوں میں بھی پانچ وقتوں میں حاضر ہوتے۔یہ حال صرف ہماری مسجد کا نہیں آج تقریباََ بیشتر مساجد کاہے۔
مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں رمضان کڑاکے کی ٹھنڈ میں آیا کرتا تھا۔ رمضان کیا ہوتا، سمجھ لیجئے پورا ایک مہینے کا جشن ہوتا۔ ویسے اس سے یہ نہ سمجھئے گا کہ ہم بہت پرانے یعنی ”انیس سو ساٹھ“ کے زمانے کے ہیں یا واجد علی شاہ ہمارے ہم جماعت تھے۔ ہمارا بچپن گزرے ہوئے زیادہ سے زیادہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں۔ اس لئے اس وقت آج جیسی بھوک اور پیاس کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ اسکول میں چھٹی کی مناسبت سے اتوار (Sunday)کے دن مجھے اور عزیزم دانش کو گھر سے روزہ رکھنے کی اجازت ملتی تھی۔ والدین سخت تاکید کرتے گھر پر ہی رہنا اور کھیلنے کودنے سے پرہیز کرنا ہے مگر پھر بھی ہم لوگ چوری چھپے روزہ رکھ کر کرکٹ کھیلنے جاتے اور اصل مزہ تو تراویح کی نماز میں آیا کرتا تھا۔اس وقت ہم لوگوں کی مسجد میں تراویح لمبے قد کے حافظ و مولانا بدر الہدیٰ قاسمی صاحب(جو ککوڑھا دربھنگہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت غالباََ سعودی عرب میں کسی اعلیٰ عہدہ پرفائزہیں)پڑھانے آیا کرتے تھے۔والد صاحب کے ہمراہ بڑے بھائی آصف رضا مسجد جاتے اور ہم دونوں بھائیوں کو والدہ چادر اوڑھا کر پیچھے سے تراویح پڑھنے بھیجا کرتی۔اس وقت چادر کے بڑے فائدے ہوتے تھے۔ دل چاہا تو اوڑھ لیا،دل چاہا تو بچھا لیا اور تو اور بوقتِ ضرورت کسی کے پاوں میں پھانس کر گرا دیا۔خیر! بڑوں کے لئے اس وقت جو عبادت تھی ہمارے لئے وہ تفریح ہوتی۔ نمازِ تراویح میں حافظ صاحب روزانہ ایک ڈیڑھ سپارہ پڑھتے۔ ہم کھڑے رہ رہ کر تھک جاتے توچند رکعتوں کے بعد بیٹھ کر پڑھتے، مگر اس کے بعد بھی بہانے ڈھونڈتے،کبھی چادر درست کرنے میں ہی کئی کئی منٹ لگا دیتے،تو کبھی اِدھر اُدھر ہو جاتے، کبھی مسجد کے صحن میں چلے جاتے اوراگر پھر بھی کوئی بہانہ سمجھ میں نہیں آتا تو سخت سردی ہونے کے باوجود بلاوجہ وضو کرنے چلا جاتا اور جیسے ہی رکوع کا وقت قریب آتا فوراً نماز میں شامل ہو جاتا۔ کبھی کبھی حافظ صاحب بھی ہوشیاری کرتے اور جلدی چپکے سے رکوع کر دیتے تو ہم فوراََ بھاگ کر رکوع میں شامل ہوتے۔
تراویح سے آنے کے بعد ہم لوگ سحری میں جلد اٹھنے کے لیے سویرے سو جاتے، اس وقت سحری میں جگانے کے لئے قافلہ والوں کی آمد ہوتی تھی جو پورے ماہ صبح سحر کے وقت گھوم گھوم کر جگاتا، اس وقت یہ قافلہ ہمارے محلہ کٹرہیا پوکھر(دربھنگہ)سے متصل محلہ دلاور پور سے آتا تھا، جیسے ہی قافلہ والوں کی آواز کانوں سے ٹکراتی لوگ بیدار ہو نا شروع ہو جاتے، قافلہ والے ہر دروازے پر کچھ دیر رک رک کر فلمی گانوں کی طرز پر رمضان کے خود ساختہ نظم اور گیت گاتے تھے، اس قافلہ والوں کے گیت مجھے بہت پسند تھے، میں بھی ان کی آواز پر آنکھیں ملتا اٹھتا اور ان کے پاس جا کھڑا ہوتا، یہ قافلہ پانچ چھ افراد پر مشتمل رکشہ پر ہوتا، ایک شخص کے ہاتھ میں ٹارچ ہوتی، جس کی روشنی میں وہ کاپی میں لکھے ہوئے گیت نہایت خوبصورت آوازمیں گاتااور باقی لوگ اس گیت کو جھوم جھوم کر دھرانے کا عمل کرتے۔ ان گیتوں کی آواز اتنی بلند ہوتی کہ سارا محلہ جاگ جاتا، پانچ دس منٹ کے بعد یہ پھر دوسری گلی میں جاتے اس طرح سب گلیوں میں گھوم گھوم کر اٹھاتے۔ قافلہ والے رمضان کی آمد اور رخصت کے اعتبار سے نظم اور گیت بناتے تھے، یہی قافلہ عید کے دن ہر گھر کے دروازے پر دستک دیتیں اور“ گائے گا مسکرا کر، اب عید کا ترانہ”گا کر عیدی وصول کرتیں، اب اکثر جگہوں پر رمضان میں سحری جگانے والوں کا یہ سلسلہ تقریبا ختم سا ہو گیا ہے، کسی کے پاس گنگنانے کا وقت ہے، سننے کا اور نہ جگانے کا۔ہمارے بچپن میں جو قافلہ آتا تھا اب وہ نہیں آتا البتہ سحری میں اٹھانے کا کام اب ہمارے محلہ کے ہی کچھ نوجوان انجام دے رہے ہیں جو اس روایت کو زندہ کئے ہوئے ہیں۔
سحری میں جاگنے کے بعد روزہ داروں کی طرح ہم سحری کرتے، ہم تو جاگتے ہی اور کبھی کبھی ہمارے ساتھ چھوٹا بھائی دانش اقبال جاگ جاتا توپھر اللہ کی پناہ،والدہ کے لئے مصیبت کھڑا کر دیتا۔ اس وقت ہم دونوں کی فرمائش پوری کرنا والدہ کے لئے محال ہوتا۔ ہم لوگ روزہ داروں کی طرح اہتمام کے ساتھ سحری کرتے، اگر سحری میں تھوڑی سی بھی کمی ہوتی تو پورا گھر سر پر اٹھا لیتا۔
دن کی شروعات ہوتے ہی ہم بچے ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے کہ کس نے آج روزہ رکھا اور کس نے نہیں، مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کئی دفعہ روزہ رکھ کر وضو کرتے وقت پانی پی لیتا اور بعد میں دل کو تسلی دیتا کہ بھول کر پی لیا ہے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اسی طرح ہم بچے آپس میں سر گوشیاں کرتے کہ آج کون اسکول کے غسل خانے میں جا کر پانی پی آیا اور کون لنچ میں دوسرے کے ساتھ چپکے چپکے کھا کر آیا ہے، تودن بھر ہم لوگوں کا ایسے ہی چھپ چھپ کر کھانا پینا ہوتا رہتا اور دن میں کئی دفعہ ایسے روزہ افطار ہو جاتا مگر پھر بھی بچپن میں رمضان اور روزے کی اہمیت اور اسے رکھنے کا شوق ہمیشہ دل میں رہتا تھا، اس سب شوق اور لگن میں والدین کی تربیت اور ان کا روزے کی اہمیت اور شوق احساس کا دلانا بڑا اہم ہوتا تھا، آج بھی ہمارے گھر میں بچوں کو روزہ کی فضیلت اور اس کی اہمیت کے بارے میں والد صاحب تربیت فرماتے رہتے ہیں (اللہ والد صاحب کی عمر دراز کرے، آمین)۔
دن بھر اسی طرح کی سرگرمیوں کے بعد شام ہوتے ہوتے ہم لوگ جس پل کا انتظار کرتے وہ افطار کا وقت ہوتا۔ عصر کی نماز کے بعد افطار کا سما بندھنا شروع ہو جاتا۔ شام میں افطار کی تیاری عام دنوں سے مختلف اور دلچسپ ہوتا تھا، بچپن میں روزہ نہ بھی ہوتا مگر افطاری گھر والوں کے ساتھ دسترخوان پر لازمی طور پر بیٹھ کر کرتا، سحری کبھی کبھی چھوٹ بھی جاتی مگر کیا مجال کہ افطار میں کوئی روک ٹوک کرے تو ان سے ہی دو دو ہاتھ کرنے کو تیا ر رہتا۔ اب تھوڑا حال افطار سے قبل کا سن لیجئے۔ عصر کی نماز کے بعد باورچی خانہ گرم ہو نے لگتا، افطار کے لئے ساز و سامان کی تیاری ہوتی، والدہ اور بہنیں افطار کے لئے طرح طرح کے پکوان چھان کر ایک طرف رکھتی اور میں چپکے چپکے پیچھے سے کبھی گوشت کے سموسے تو کبھی کچری اور پکوڑے لے بھاگنے کے فراق میں رہتا اور جیسے ہی موقع ہاتھ آتا عقاب کی طرح جھپٹ مارتا اور جب تک والدہ کی نظر مجھ پر پڑتی اور وہ ارے…..ارے…. ارے…. رک….. رک….. رک کرتی میں نو دو گیارہ ہو جاتا۔ کچھ دیر بعد گھوم پھیر کر منھ ہاتھ صاف کر پھر اسی اڈے پر جم جاتا جہاں سے اس کام کو دوبارہ انجام دینا ہوتا۔ اب کی بار آتا تو والدہ سے دانٹ بھی پڑتی کہ تمہارا کون سا روزہ ہے جو اتنی بے صبری کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے اور میں والدہ کی شفقت بھری ڈانٹ پر مسکرا دیتا۔ شام ہوتے ہوتے افطار کا سامان تیار ہوتا، گوشت کے سموسے، کچری، پیاز کے پکوڑے،بیسن کی بیگنی،چنے کا گھوگنی اور پھل کی خوشبو سے ہمارا دل مچلنے لگتا۔ پانی سے بھرے ایک جگ میں پیالی بھر روح افزا ڈال دیا جاتا تھا اور اس پر سے برف۔ بڑے لوگوں کے لئے الگ سے چوکی پر افطار کا نظم ہوتا جس پر والد، چچا اور دوسرے بڑے بھائی بیٹھتے اور ہم پانچ چھ بچوں کے لئے نیچے الگ سے چٹائی بچھائی جاتی۔ پھر ہم لوگوں کا افطار اوپر بڑے پلیٹ سے تھوڑی تھوڑی چیزیں ایک پلیٹ میں کر کے ہمارے سامنے رکھی جاتی۔ بڑوں کے ساتھ ہم بچے بھی اذان کا انتظار کر رہے ہوتے جیسے شدید بھوک اور پیاس سے جان نکل رہی ہو، ہم لوگ افطار کے انتظار میں بے چینی سے مسجد سے اٹھنے والی اذان کی آواز پر کان لگائے رہتے، مجھے یاد آتا ہے کہ اذان کی آواز پر چھوٹے ابو اپنے کان زیادہ کھڑے رکھتے اور جیسے ہی مائک پر موذن صاحب کے کھرکھرانے کی آواز آتی وہ فوراَ کھجور ہاتھ میں اٹھا لیتے، ہم لوگ بھی انہیں دیکھ کر فورا کھجور ہاتھوں میں لے کر مورچہ سنبھال لیتے اور اذان ہوتے ہی ٹوٹ پڑتے۔اس وقت ہم لوگوں کی کوشش ہوتی کہ جو عمدہ اور ذائقہ دار سامان ہے اس پر پہلے ہاتھ صاف کیا جائے، لہٰذا ایک نوالہ منھ میں تو دوسرا ہاتھ میں ہوتا، لیکن اس بات کا بھی خیال ہوتا کہ اوپر بیٹھے والد صاحب کی نظر ہم لوگوں پر تو نہیں، ورنہ اسی وقت ان کی طرف سے وارننگ ہو جاتی…… آہستہ، آہستہ……..ہم لوگ پہلے سموسے،پکوڑے، کچری اور پھل کو نشانہ بناتے، اس کے بعد سائڈ میں پڑا چنا، چوڑا کا نمبر آتا۔اس وقت کی ایک دلچسپ یادیں یہ بھی ہیں کہ اکثر رمضان کے موقع پر نیتا جی(نام نہیں معلوم، نیتا جی کے نام سے ہی معروف تھے)افطار کے وقت دلاور پور سے تشریف لاتے تھے،والد صاحب سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے، نیتا جی زندہ دل اور مزاحیہ شخصیت کے مالک تھے،جتنا لمبا ہاتھ اس سے زیادہ تیز منھ، افطار میں کبھی کبھی ہم بچوں کا مقابلہ نیتا جی سے ہو جایا کرتا تھا، ان کے ساتھ مقابلہ ہونے سے پہلے ہم لوگ آپس میں مشورہ کر لیتے تھے کہ نیتا جی کے پاس اور ان کے سامنے جو چیزیں ہوں گی پہلے اسے صاف کرنا ہے پھر اپنے حلقہ پر زور دینا ہے، ہماری بدمعاشی کو نیتا جی خوب سمجھتے تھے، لہٰذا وہ بھی ہماری طرف موجود عمدہ چیزوں پر حملہ کرتے اورہم لوگ ان کی طرف، اوراس طرح خاموشی سے مقابلہ چلتا رہتا۔
اس وقت ہمارے گھر میں دو بار افطار ہوتی تھی، ایک دفعہ نماز سے پہلے اور دوسری دفعہ نماز کے بعد، اور پھر تراویح کے بعد بھی کچھ نہ کچھ کھا لیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے رمضان کے اختتام پر وزن دگنا ہو جاتا تھا، لیکن اب الحمد اللہ اس بری عادت پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے اور اب زیادہ تر ایک بار ہی افطار کرتا ہوں اور کبھی کبھی زیادہ طلب ہو تو نماز کے بعد، درمیان میں کچھ نہ کھاتا۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب روزے کا صحیح مطلب سمجھ آچکا ہے۔
پھر جب عید آتی تو اس وقت اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ رمضان کے آخری عشرہ سے عید کی تیاریاں شروع ہو جاتیں۔چاند رات سے پہلے پہلے گھر میں ساری بہنیں اچھی سے اچھی مہندی کا انتظام کر لیتی اور عید کا چاند نظر آتے ہی مہندی لگاتیں اور ساری رات اسے سکھاتیں اور پھر ایک دوسرے کو دکھاتی پھرتیں کہ دیکھو میری مہندی کا رنگ کتنا گاڑھا ہے۔ دوسری طرف ہم لڑکوں کے بھی اپنے ہی ”فیشن“ ہوتے۔نئے کپڑوں کو ایک جگہ جمع کرنا، جوتے پالش کرانااور جو چیزیں باقی رہ گئیں اسے والد صاحب کے ہمراہ بازار جا کر خرید کر لانا پھردیر رات تھک ہار کر گھوڑے بیچ کر سو جانا، یہ چاند رات کا عمل ہوتا۔
پھراہل صبح اٹھ کر عید کی نماز کی تیاری کرتا،اس وقت عید کے دن کاسب سے خوبصورت پہلو یہ ہوتا کہ اپنے بیگانے، امیر غریب یا کسی بھی قسم کے فرق کو خاطر میں لائے بغیر ہر کوئی عید کی نماز کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگا کر عید کی مبارک پیش کرتا۔اس دن میں عیدگاہ میں بڑے، بوڑھے، بچوں کا حسین سنگم ہوتا،چاروں طرف رنگ برنگی ٹوپیاں اور نئے نئے لباس ہی نظر آتے، نماز کے بعدخاص طور سے والد صاحب، چھوٹے ابو، منا بھائی اور دوسرے بڑوں سے نئے نوٹوں کی عیدی ملتی تھی، جو آدھی کھانے پینے اور آدھی گھومنے اور کھلونے خریدنے میں خرچ ہو جاتے تھے، لوگ صحیح کہتے ہیں کہ عید صرف بچوں کی ہی ہوتی ہے، مجھے لگتا تھا کہ شاید وقت بدل گیا ہے، اب عید پر ویسی خوشیاں نہیں ہوتی جیسی پہلے ہوا کرتی تھی مگر پھر جب بازار میں بچوں کو ویسے ہی ہنستا کھیلتا عید مناتے دیکھتا ہوں تو میرا خیال غلط لگتا ہے کہ وقت نہیں بدلا، ہم بڑے ہو گئے ہیں کیوں کہ عید تو صرف بچوں ہی کی ہوتی ہے۔
اب ہمارا بچپن صرف یادوں کے سہارے ہے،بچپن میں بزرگوں کا پیار، ان کی محبتیں، ان کی عنایتیں، سب خواب و خیال بن گئے ہیں۔ اس وقت ہمیں بڑوں کا احترام، آپسی بھائی چارگی، ہمدردی اور پڑوس کی خیر خواہی کی ترغیب دی جاتی تھی، مگر اب وہ نہ ماحول ہے، نہ سادگی ہے، نہ پاس و لحاظ ہے،نہ اخوت ومحبت ہے اور نہ صبر و تحمل ہے۔ چاروں سمت خود غرضی، مفاد پرستی، عدم توجہ اور عدم فرصت کی کیفیت سی ہے۔
دو دن کو اے جوانی دیدے ادھار بچپن
Comments are closed.