رمضان المبارک کے آخیر عشرے کی طاق راتوں میں تلاش شب قدرکا اہتمام

محمدعبدالحلیم اطہر سہروردی ،صحافی و ادیب،گلبرگہ
8277465374
رمضان المبارک بڑابابرکت مہینہ ہے اور اس کے آخری عشرے میں ایک رات ہے شب قدر جس میں عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔اس ایک رات کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ہے اور شب قدر عظیم اور فضیلت والی رات ہے یہ تقدیر ساز رات بھی ہے اللہ اس رات تقدیروں کا فیصلہ فرماتا ہے ۔شب قدر بابرکت و فضیلت والی رات جو تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت و ثواب کی رات ہے ۔سب سے بڑی فضیلت تو یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالی نے قرآن کریم کو نازل فرمایا۔اللہ تعالی نے فرما یا ’’ بیشک ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا‘‘(سورہ القدر۔۱)۔اللہ رب العزت نے اپنے محبوب نبی ﷺکی برکت سے یہ رات یعنی شب قدرامت کو عطا فرمائی ہے اللہ رب العزت کو امت محمدیہ سے بہت محبت ہے اس لئے اللہ نے اس پر کئی احسان اور انعام عطا فرمائے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مقدس رات اللہ نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں یہ شرف کسی کو نہیں ملا،گویا یہ عظیم نعمت بھی رسول رحمت ﷺکی غلامی کے صدقہ میںامت کو نصیب ہوئی ہے اور رب کریم کی اپنے محبوبﷺ کی امت پر خصوصی عنایتوں میں سے ایک عظیم عنایت ہے۔یہ عظیم رات بہت ہی خیر و برکت والی ہے طاق راتوں میں تلاش شب قدر کا اہتمام حضور اکرم ﷺ اور حضرات صحابہ اکرام ؓ بھی فرماتے تھے اس کیلئے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے ۔اسی رات کو اللہ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اور ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں یعنی جو بندہ اس رات میں عبادت کرتا ہے گویا اس نے تراسی برس چار ماہ عبادت کی ۔اور یہ کم سے کم ہے اللہ نے اس رات کو ہزار مہینوں سے بھی افضل قرار دیا ہے یہ مدت کتنی بھی ہوسکتی ہے یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہوا ، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جا تے ہیں اور اس رات میں فرشتے کثیر تعداد میں اترتے ہیں حضرت جبریل ؑ فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ اترتے ہیں اور جس شخص کو عبادت ذکر و غیر ہ میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور بندوں کی دعائوں پر آمین کہتے ہیں۔آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نقل فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو ‘‘ اس رات کو پانے والا ایک ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب پا تاہے ۔ طاق راتوں میں تلاش شب قدر میںجو عبادتیں کررہے ہیں، اللہ انہیں قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس کی فکر عطا فرمائے ۔شب قدر فضیلت والی رات ہے اوراس فضیلت کو حاصل کرنے اللہ نے بہت آسانی عطا فرمائی ہے ا سکے باوجود شب قدر کی فضیلتوں سے محرومی بدنصیبی ہی ہوگی۔ شب قدر سے جو محروم رہا وہ سال بھر کی برکتوں اور نعمتوں سے محروم رہا۔ہم پورے یقین کے ساتھ صرف ایک رات جاگ کر مان لیتے ہیں کہ ہمیں شب قدر مل گئی ایسا نہیںبلکہ ہمیں طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرنا چاہئے۔
رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے تربیت کامہینہ ہے اللہ رب العزت چاہتا ہے کہ اس کے بندوں میں تقوی پیدا ہو روزوں کی فرضیت کے ساتھ اللہ نے اسکا مقصد بھی یہی بیان کیا ہے ،ترجمہ: روزے تم پر فرض کئے گئے تا کہ تم میں تقوی پیدا ہو ۔لیکن ہم مسلمانوں پر روزہ فرض ہے یہ سمجھ گئے لیکن اس کے مقصد کو بھول گئے نتیجہ جب سے شعور آیا ہے روزہ پابندی سے رکھ رہے ہیں 30,20,10 سال گزرگئے روزہ رکھتے ہوئے لیکن تقوی پیدا نہیں ہوا مقصد سے لاعلمی نے ہمیں اس سے محروم رکھا ہوا ہے ۔ آج علم عام ہے سینکڑوں کتابیں مطالعہ میں ہیں لائبریریاں کم پڑرہی ہیں علم ہر کوئی حاصل کررہا ہے یہ بہت اچھی بات ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ عمل کے میدان میں سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ اسلام عمل کی دعوت دیتا ہے لیکن مسلمان عمل کے معاملے میں کوتاہی برت رہا ہے ۔رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے اس ماہ مبارک میںقر آن نازل کیا گیااور رمضان کا قرآن سے خاص تعلق ہے لیکن مسلمان اس عظیم کلام الہی سے جس کو اللہ رب العزت نے ساری انسانیت کیلئے ہدایت بنا کے نازل فرمایا۔ اس سے غافل ہے ہم خود بھی قرآن کی تلاوت کریں اس کو سمجھیں اس کی تعلیمات پر عمل کریں اپنی اولاد کو بھی قرآن کریم کی تعلیم دیں دورحاضر میں عصری تعلیم کیلئے بے شمار سہولتیں دستیاب ہیں قرآن کریم کی تعلیم کے لئے اس طرح بہترین سہولتیں فراہم کرکے قرآن کو پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے کا اہتمام کریں۔ رسول اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ نے فر ما یا تم لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے قرآن کریم کی تلاوت کر نا یقینا ًباعث ثواب ہے لیکن اگر اس کو سمجھا جائے تو اس سے ایک خاص تعلق پیدا ہو گا اور زندگی گذارنے کا صحیح سلیقہ و طریقہ سمجھ میں آجائیگا اور قرآن کی تعلیمات پر عمل کر نے کی سعاد ت بھی نصیب ہو گی اور وہ کامیاب ہو جائیگا ۔رمضان المبارک کی قرآن سے خاص نسبت ہے اور قرآن سے جس کی نسبت ہو گئی اس کا درجہ بلند ہو گیا ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ قرآن کو سمجھیں اور اس کے پیغام کو اوروں تک پہنچائیں۔ قرآن کے تین حق ہیں اس کو قرأت اور تجوید سے پڑھا جائے دوسرا حق یہ ہے کہ اس کے حلال کو حلال او رحرام کو حرام مانیں اور تیسرا حق یہ کہ قرآن مجید کا پیغام سمجھیں ترجمہ تفسیر کا مطالعہ کریں ۔اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کی ہدایت اور رہبری کے لیے کتاب اللہ اور انبیاء اکرام کو بھیجا ، بہت مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اللہ عز و جل نے انبیاء کو تو معبوث فرمایا لیکن کتاب اللہ کو نہیں بھیجا لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ نے صرف کتاب اللہ بھیجا ہو اور نبی کو نہ بھیجا ہو اللہ نے جب سے کائنات کو وجود بخشا ہے یہ دونوںچیزیں دنیا میں بھیجتا رہا ہے ۔ اللہ رب العزت نے جو کتابیں نازل فرمائی ان کی تعداد 106ہے جن میں معروف ومشہور چار ہیں ۔ توریت ، زبور، انجیل اور قرآن مجید ۔ انبیاء کا سلسلہ جو اللہ نے آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ حضور اکرم ﷺ پر ختم کیا تو اپنی آخری کتاب بھی نازل فرمادی جو قیامت تک کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے امت جب تک قرآن سے ہدایت حاصل کرتی رہے گی اور حضور اکرم ﷺ کی سنتوں پر عمل کرتی رہے گی کامیاب رہے گی ۔ اور جب قرآن کریم سے ہدایت لینا چھوڑ دے گی اور اتباع سنت سے منہ موڑ لے گی ، پستی اور گمراہی میں پڑ جائیگی ۔جب اللہ رب العزت نے رسول رحمت ﷺ کو مبعوث فرمایا اس وقت کا معاشرہ انتہائی پستی اور گمراہی کا شکار تھا بلکہ تمام برائیوں کا مرکز بنا ہوا تھا لیکن جب اللہ نے قرآن کریم نازل فرمایا اور حضور اکرم صلاۃ والسلام نے جب اللہ کا یہ آخری کلام سنایا تو وہ قوم جو ذلت پستی اور گمراہی میں پڑی ہوئی تھی اس کلام پاک سے ہدایت حاصل کرنے پر اللہ رب العزت نے اس قوم کو اتنا بلند کیا جسکا دنیا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی ۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں کسی پر اتنا ظلم نہیں ہوا جتنا ظلم امت قرآن کے ساتھ کررہی ہے ۔ امت نے نہ صرف قرآن کو بالائے طاق رکھ دیا بلکہ اس کی تعلیمات کو بھی بھلا دیا ہے اور یہود و نصاریٰ کے طریقوں کو اپنانے لگے اب وقت آگیا ہے کہ ایمان والے سنبھل جائیں کیونکہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور احادیث کی روشنی میں دنیانے اپنے ختم ہونے کا اعلان کردیا ہے لیکن ایمان والوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنا رشتہ قرآن سے جوڑنا چاہئے اور قرآن کے پیغام کو دنیا میں عام کرنے کا عزم و جستجو کرنا چاہئے ،اس وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ ہم قرآن کو صحیح سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور قرآن کریم کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں شامل کریں اور قرآن کی عملی تفسیربن جائیں صحابہ اکرام کے درمیان اس زمانے میں صرف تین یا چار قرآن کے نسخہ موجود تھے لیکن پورا قرآن تمام صحابہ اکرام کی زندگیوں میں تھا اور آج ہر مسجد میں قرآن بڑی تعداد میںرکھے ہوئے ہیں لیکن زندگیاںقرآن سے خالی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں ایک قرآن کریم اور دوسری میری سنت جب تک امت اس کو مضبوطی سے تھا مے رہے گی کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔ قرآن کریم کے مطابق اور نبی کریم ﷺکی سنتوں کے مطابق اپنی زندگی گذاریں اسی میں اصل کامیابی ہے ۔رمضان میں روزے فرض ہیں اور جو اس کی پابندی کرتا ہے تو روز قیامت قرآن اور روزہ اللہ سے اس بندے کی سفارش کرے گا رمضان میں کم سے کم ایک مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت مکمل کریںآج امت قرآن سے دور ہوگئی تو خیرو برکت سے محروم ہوگئی امت پھر سے قرآن سے رشتہ جوڑلے تو اللہ انہیں ا س کی برکت سے بلندی عطا فرمائے گا او راپنے گھروں کو تلاوت کلام پاک سے آباد رکھیں تا کہ قرآن ہماری زندگی میں آئے اور ہمیں ہدایت مل جائے ۔
اس ماہ مبارک میں دعاوں کا بھی خوب اہتمام کریں،اللہ اس ماہ مبارک میںنیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھا کر عطا فر ما تا ہے نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70؍درجہ بڑھا کر عطا کر تا ہے اس لئے مسلمان زکوٰۃ رمضان المبارک میں ادا کر تا ہے تاکہ اس کا ثواب 70؍درجہ بڑھا ہو احاصل کر ے ۔انسان کی مو ت کے ساتھ تمام معاملے ختم ہو جاتے ہیں لیکن تین اعمال اسے فائدے پہنچاتے رہتے ہیں۔ ایک صدقہ جاریہ دوسرا علم نافع اور تیسرا نیک اولاد ۔اپنی اولاد کو دینی تعلیم سے آراستہ کرو اور جوکچھ تم علم رکھتے ہو دوسروں تک پہنچائو اور اسے خرچ کرو کہ وہ طویل وقت تک فائدہ پہنچاتا رہے کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کے ذکر میں مشغول ہے اور جب تک اللہ کا ذکر ہو تا رہے گا کائنات کا نظام باقی رہے گا اس ماہ مبارک میں اللہ کو راضی کر نے کی فکر کریں نماز ہر برے کام سے روکتی ہے اور یہ اللہ کے ذکر کا بہترین ذریعہ ہے ،اللہ رب العزت فرماتا ہے نماز قائم کرو اور اس کا مطلب ہے کہ دن میںپانچ وقت بلاناغہ پابندی سے نماز پڑھیں تبھی اللہ کے حکم نماز قائم کرو کی تعمیل ہوگی لیکن مسلمان آج نماز سے بھی غفلت برت رہا ہے ۔اللہ سے جو بندہ گناہوں پر نادم ہوکر اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کر کے سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ اگر بندہ توبہ بھی کرے اور اس کو اپنے گناہوں پر ندامت نہ ہو اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا مصمم ارادہ نہ ہو تو اس کا دوبارہ گناہوں کی طرف لوٹنے کا اندیشہ ہے ۔ بہت سارے بندے ایسے بھی ہیں جو پنچ وقتہ نمازی ہیں حاجی بھی ہیں، زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں پھر بھی ان کا احساس ہے کہ ان کی دعا قبول نہیں ہو رہی ہے۔ اس کیلئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگاکہ ہمارے کس عمل کے سبب دعا قبول نہیں ہو رہی ہے۔ جس کے والدین اس سے ناراض ہوں ایسے بندے کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ والدین کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور عصر حاضر میں اکثریت والدین سے نافرمانی کر رہی ہے۔ دوسری وجہہ اگر ہمارا رزق حلال نہیں ہے تو اللہ دعا قبول نہیں کرتا دعا کی قبولیت کیلئے بندہ پہلے تو اللہ سے توبہ کرے اور پھر والدین کو راضی کرے اور رزق حلال کا پابند ہوجائے پھر اسکی دعائیں قبول ہونگی۔ جس بندہ کو ایمان کی قدر ہے اور جس بندہ کے ایمان کی اللہ کے پاس قدر ہے وہی بندے نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں تمام نیک اعمال کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ورنہ کتنے ہی ایسے ہیں جو بلا عذر روزے نہیں رکھتے نماز نہیں پڑھتے ۔ رمضان کا مہینہ آپ سے مجاہدہ چاہتا ہے اس ماہِ مبارک میں بے شمار گھڑیاں قبولیت دعا کی ہیں۔ اس لئے اس ماہ مبارک میں عبادتوں کے ساتھ دعا کا بھی خاص اہتمام کریں ۔ عیدین کی رات بہت اہم ہوتی ہے ان راتوں میں جو بندہ عبادت کرتا ہے روز محشر جب لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے ان کے دل زندہ رہیں گے آج عام ماحول بلکہ معمول مسلمانوں کا یہ بن گیا ہے کہ عید کی رات عبادت کی بجائے بازاروں میں خریدوفروخت اور سیروتفریح میں وقت برباد کرتے ہیں ان کو دیکھ کر لگتا نہیں ہیکہ انہوں نے رمضان کے پیغام کو سمجھا ہوگا اگر سمجھتے تواپنی مغفرت کی فکر کرتے عید کے معنی خوشی کے ہیں اور اصل خوشی اس کو حاصل ہوتی ہے جس نے رمضان کو پایا او راپنی مغفرت کروالی بلکہ جس نے رمضان کو پایا اور اپنی مغفرت نہ کرواسکا اس کے لئے جبرئیل امین نے ہلاک و برباد ہوجانے کی بددعا فرمائی اور رسول رحمت ﷺ نے اس پر آمین فرمائی ہے تو اس کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ اصل عید اس کی جس نے اس ماہ مبارک میں مغفرت کروالی او رجو اس سے محروم رہا اس کے لئے یہ وعیدبن جائے گی ۔آج مسلمانوں میں رمضان کی عظمت نہیں رہی اس ماہ مبارک میں بھی مسلمانوں کی ہوٹلیں کھلی رہتی ہیں اور مسلمان کھلے عام کھاتے پیتے ہیں حالانکہ اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے بھی زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان گناہ بھی کررہے ہیں او راس پر نڈر بھی ہوگئے ہیں جو بہت خطرناک ہے یہ دراصل اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے بغاوت کے مترادف ہے امت کی غالب اکثریت گناہوں میں مبتلا ہے تو اللہ کی مدد کیسے آئے گی اللہ نے رمضان عطا فرمایا تا کہ ہمارے گناہ ختم کردے ۔ہم سب اس ماہ مبارک کے ٓاخیر عشرہ میں اس خیر و برکت والی مقدس رات کوطاق راتوںمیںتلاش کریں اوراللہ کی رضا وخوشنودی کے حصول میں لگے رہیںاور ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ ہوںاور حسب توفیق ذکر و تلاوت، توبہ و استغفار، درود و نوافل ، تسبیحات اور تہجد وغیرہ میںمصروف رہیں۔اللہ سے خیر و سلامتی ،فضل و کرم اور بخشش و مغفرت کی دعائیں مانگیں اس متبرک رات کے انوار و برکتوںسے پورا پورا فائدہ اٹھائیںاور رب العزت کے احسانات اور انعام و اکرام کا شکر ادا کریں۔اللہ سے رجوع ہوں اور خلوص دل سے دعا کریںکہ عالمی سطح پرساری انسانیت پر جو مصائب آئے ہیں ان کو دور کرے اور جو ظالم ظلم کر رہے ہیں انہیں ناکام کرے اور دعا کریں کہ اے اللہ عفو و درگذر تیرا بہت بڑا کرم ہے تو معافی کو پسند فرماتاہے ہم تیرے محتاج بندے ہیںاور تیری رحمت و عافیت کے طلبگار ہیںتو ہماری مغفرت فرمااور ہمیں بخش دے، اللہ کا کتنا بڑا کرم و احسان ہیکہ بندے اس رات میں دعا کریں اور فرشتے ان کی دعاوئں پر آمین کہیںاور اللہ دعا قبول فرمائے، اس سے راضی ہوجائے ،اس کو بخش دے تو بندہ کامیاب ہے اوریہ خصوصیت صرف شب قدر کو ہی حاصل ہے،رب العالمین ہم سب مسلمانوں کو شب قدر کے فیوض و برکات اور نعمتوںسے فیضیاب فرمائے۔آمین۔

 

Comments are closed.