Baseerat Online News Portal

”مختار احمد انصاری کی عوامی مقبولیت اور خدمت کو مٹا یا نہیں جاسکتا“

مولانا امین الحق عبداللہ نے مرحوم کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا
کانپور(پریس ریلیز)جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی نے آج جاجمؤ واقع شہری جمعیۃ کے کیمپ آفس میں غازی پور اور مؤ یوپی کے مشہورسیاسی و سماجی لیڈرمختار انصاری کے انتقال پر غم اور تعزیت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے ان کی موت کے اسباب پر عوامی شکوک و شبہات اور اہل خانہ کی بے اطمینانی سے انصاف اور انصاف نافذ کرنے والی ایجنسیوں پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مولانا عبد اللہ نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کے حوالہ سے کہا کہ صرف انصاف کافی نہیں ہے بلکہ انصاف پر اعتبار و اعتماد بھی ضروری ہے۔ حال میں یوپی کے جیل اور پولس کسٹڈی میں کئی سیاسی و سماجی لیڈران کے قتل یا پراسرار موت سے عوامی شک و شبہ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
مولانا نے کہا کہ مختار احمد انصاری غریبوں اور مظلوموں کے ناصر و مددگار کی حیثیت سے ہمیشہ جانے اور پہچانے جائیں گے۔ میڈیا مافیا ڈان کی امیج کو اجاگر کر کے ان کی عوامی مقبولیت اور خدمت کو مٹا نہیں سکتا۔ انھوں نے ملک کے قانون کے مطابق اپنی عمر کا ایک طویل حصہ جیل میں گزارا ہے،قانون کے مطابق جرم کی سزا سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن قانون کے برخلاف قیدی کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور قتل ہرگز روا نہیں اور اس کے بارے میں حکومت کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔مشکوک حالت میں ان کی موت نے بہت سارے سوالات کھڑے کر دیے ہیں جس کی وجہ سی ان کی مقبولیت اور حمایت فطری ہے۔
مولانا عبد اللہ نے یہاں بتایاکہ مختار احمد انصاری کا خاندان حب الوطنی اور ملک کی بے لوث خدمات سے متعارف ہے۔ان کا شجرہ ئ نسب مجاہد آزادی ڈاکٹر مختار احمد انصاری ؒ اور شہیدبریگیڈیئر محمد عثمان اور سابق نائب صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر حامد انصاری جیسی شخصیات سے ملتا ہے۔ ان کے دادا ڈاکٹر مختار انصاری عظیم مجاہد آزادی تھے، وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر او رجامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بانی تھے۔ ان کا حضرت شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی ؒسے والہانہ تعلق تھا،وہ حضرت شیخ الہندؒ کے عقیدت مند، نیاز مند اور تربیت یافتہ تھے۔ اسی طرح نانا شہیدبریگیڈیئرمحمد عثمان، جو’شیر آف نوشیرہ‘کے نام سے مشہور ہیں، نے اس خاک وطن کی عظمت کے لیے1948 کی جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔اس روایت کو مرحوم کے والد سبحان اللہ انصاری مرحوم نے بھی آگے بڑھایا۔ مختار انصاری کی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ علاقے کے غریب اور نادار لوگوں کے غوم خوار اور امید وں کے مرکز تھے۔
مولانا عبد اللہ نے مولانا محمود مدنی کے مطالبہ کی جمعیۃ علماء یو پی کی جانب سے تائید کی کہ ان کی موت کے اسباب کی صاف شفاف انکوائری جلد ازجلد مکمل کی جائے، کیوں کہ انصاف کے اصولوں، عدالتی نظام پر اعتماد کو برقرار رکھنے اور انصاف کی بالادستی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے۔مولانا نے اس موقع پر مختار انصاری کے اہل خانہ بالخصوص بڑے بھائی صبغت اللہ انصاری،افضال انصاری،صاحبزادے عباس انصاری، عمر انصاری، بھتیجے صہیب ا نصاری وغیرہم کے ساتھ دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی ہے۔

Comments are closed.