Baseerat Online News Portal

شب ِ قدر قیامت تک کے لیے

مفتی ندیم احمد، ممبئی
اللہ تعالیٰ- جو کہ خالق ِ کائنات ہے-اس نے اپنی مخلوق میں افضل و مفضول کا نظام جاری فرمایا ہے اور یہ نظامِ قانون تمام مخلوقات میں جاری ہے۔بعض زمانوں کو بعض زمانوں پر، بعض مکانوں کو بعض مکانوں پر،انسانوں کو تمام مخلوق پر، انبیا علیہم السلام کو تمام انسانوں پر، حضرت محمدﷺ کو تمام انبیا و رُسُل پر فضیلت دی گئی۔اُسی نے مہینوں میں رمضان المبارک کو، دنوں میں جمعے کواور راتوں میں شبِ قدر کو افضلیت سے نوازا۔
’شبِ قدر‘ انتہائی خیر وبرکات والی رات ہے۔اس کی برکت و افضلیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ اللہ رب العزت نے ایک مکمل سورۃ اس عنوان سے نازل فرمائی اور اس رات کوایک ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا۔گویا کوئی شخص اس ایک رات کو عبادت میں گزار دے تو وہ ایسا ہے جیسے ایک ہزار مہینوں سے زائد عبادت کی،پھر یہ رات ایک ہزار مہینوں سے کتنی بہترہے اس کی بھی کوئی حد متعین نہیں۔بندےکے اخلاص پر ہے۔ایک ہزار مہینوں کا حساب کیجیے تو تقریباً ۸۳؍سال اور ۴؍ماہ سے زیادہ کا زمانہ بنتا ہے۔
’قدر‘ کے معنی
’قدر‘مصدر ہے ’قدرت‘ کااور’قَدَر‘ و’قَدْر‘دال کی حرکت اور اس کے سکون کے ساتھ ؛دونوں ایک ہی معنی ہیں ، مگر فرق یہ ہے کہ بالسکون مصدراور بالفتح اسم ہے۔واقدی ؒ فرماتے ہیں:قدر کے معنی لغت میں ’اندازہ کرنا‘اور’شرف ومنزلت ‘کے بھی آتے ہیں۔لفلان قدر عند فلان یعنی فلاں شخص کے نزدیک قدر یعنی عزت ہو۔اب دونوں کے معنی کے لحاظ سے اس رات کو لیلۃ القدر یا شبِ قدر کہتے ہیں۔علمانے اس کی کئی وجہیں بیان کی ہیں؛
(۱)حضرت ابن عباسؓفرماتے ہیں کہ اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں سال بھر میں نازل ہونے والی بلائیں،عالم ِ بالا میں مقدور ومعین کی جاتی ہیں۔کسی کا مرنا ،بیمار ہونا ،رزق کی فراغ دستی ،عزت وذلت ؛جو کچھ سال بھر میں اس جہاں میں ظاہر ہونے والا ہےوہ سب اس رات میں،عالم ِ بالا میں مشہور کردیا جاتا ہے اور ہر ایک کام پر ملائکہ معین کر دیے جاتے ہیں۔
(۲)یہ کہ اس رات ،عالم ِ بالا کے روحانی فرشتے اس قدر زمین پر آتے ہیںکہ گویا زمین میں تنگی ہو جاتی ہےاور مزید گنجائش نہیں رہتی،کیوں کہ تنگی کے معنی میں بھی یہ لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے؛ومن قدر علیہ رزقہ۔(الطلاق)
(۳)زہریؒ فرماتے ہیں کہ اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں نیک بندوں کی خدا تعالیٰ اور عالم ِ بالا کے لوگوں(یعنی فرشتوں) کے نزدیک نہایت قدر ومنزلت ہوتی ہے،بلکہ وہ فرشتے اہلِ صفا سے مصافحہ بھی کرتے ہیں اور عام ایمان والوں کو بھی مس ّ کرتے اور چھوتے ہیں،گو ان کو محسوس نہ ہو؛اس کا اثر ان کے دل میں رقّت اور گناہوں پر رونا اور دعا کرنا ہوتا ہے، نیز ان کے اعمال کی بڑی قدر ومنزلت ہوتی ہے۔
(۴)ابوبکر وراق ؒ فرماتے ہیں کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے کتابِ قابلِ قدر،امتِ قابلِ قدرکے لیے ،رسولِ قابلِ قدرکی معرفت نازل فرمائی اور اسی لیے یہ لفظ اس سورۃ میںتین بارآیا ہے اور اس لیے بھی کہ اس رات کی قدر کرنی چاہیے۔(دیکھیے تفسیر فتح المنان)
شب ِ قدر قیامت تک کے لیے
علامہ ابن کثیرؒ نے کہا کہ اس باب میں علما کا اختلاف ہے کہ کیا شبِ قدر گذشتہ امتوں میں بھی تھی یا صرف اسی امت کو خصوصیت کے ساتھ دی گئی ہے؟ایک حدیث میں تو یہ آیا ہے کہ حضرت نبی کریمﷺ نے جب نظر کی اور آپ کو معلوم ہوا کہ گذشتہ لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیںتوآپﷺ کو خیال گزراکہ میری امت کی عمریں تو ان کے بالمقابل بہت کم ہیںجس کی وجہ سے ثواب و درجات میں بھی کمی رہے گی،اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہ رات عنایت فرمائی اور اس پر ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ثواب دینے کا وعدہ فرمایا۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اسی امت کو یہ رات دی گئی ہے۔صاحبِ عدۃ-جوکہ شافعیہ میںسے ایک امام ہیں-انھوں نے جمہور کا یہی قول نقل کیا ہے۔واللہ اعلم(مؤطا امام مالک)لیکن ایک حدیث میں ہے کہ جس طرح یہ رات اس امت میں ہے،اسی طرح سابقہ امتوں میں بھی تھی۔(مسند احمد)
ایک دلچسپ مکالمہ
حضرت مرثدؒ فرماتے ہیں؛میں نے حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ سے دریافت کیا؛آپؓنے رسول اللہﷺ سے شبِ قدر کے متعلق کیا سوال کیا تھا؟
انھوں نے فرمایا:سنو! میں حضورﷺ سے اکثر باتیں دریافت کیا کرتا تھا،ایک مرتبہ میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ شبِ قدر رمضان ہی میں ہے یا دیگر مہینوں میں؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:رمضان میں۔
میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ !یہ انبیا ہی کے ساتھ خاص ہے کہ جب تک وہ دنیا میں موجود ہیںیا ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی یہ رات قیامت تک باقی رہے گی؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:ایسا نہیں ہے،بلکہ یہ رات قیامت تک باقی رہے گی۔
میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ!یہ رمضان کے کس حصے میں ہے؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اسے رمضان کے پہلے اور آخری عشرے میں تلاش کرو۔
پھر میں خاموش ہو گیا،آپ بھی دیگر باتوں میں مشغول ہو گئے۔میں نے پھر موقع پاکر عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ! ان دونوں عشروں میں سے کس عشرے میں تلاش کروں؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:آخری عشرے میں،بس اب اس سلسلے میں اور کچھ نہ پوچھنا۔
میں خاموش رہا،لیکن پھر موقع پاکر میں نے عرض کیا:آپ کو قسم ہے، میرا بھی آپ پر کچھ حق ہے!بتا دیجیے وہ کون سی رات ہے؟
آپﷺ سخت غصے ہو گئے،میں نے اس سے قبل آپﷺ کو اپنے اوپر اتنا غصہ ہوتے دیکھا ہی نہیں۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:آخری ہفتے میں تلاش کرو،اب کچھ نہ پوچھنا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات سابقہ امتوں میں بھی تھی اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات رسول اللہﷺ کے بعد بھی قیامت تک ہر سال آتی رہےگی۔ بعض روافض کا قول ہے کہ یہ رات بالکل اٹھ گئی ہے،یہ غلط ہے۔انھیں غلط فہمی اس روایت سے ہوئی،جس میں یہ ہے کہ ’وہ اٹھا لی گئی ہے اور ممکن ہے کہ تمھارے لیے اسی میں بہتری ہو‘،جب کہ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اُس رات کی تعیین اور اس کا تقرر اٹھا لیا گیاہے،نہ کہ سرے سے یہ مبارک رات۔(ابو داود)

Comments are closed.