Baseerat Online News Portal

مسئلہ فلسطین پر ایک طائرانہ نظر

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
فلسطین مغرب میں صحرائے سیناء و بحر ابیض متوسط اورمشرق میں نہر اردن کے درمیان میں ایک چھوٹا سا خطہ ہے جہاں قدیم ترین زمانے سے کنعانی یا اموری قوم رہتی آئی ہے۔ یہ تاجر اور کسان لوگ تھے۔ مصر سے آنے والے یہودیوں کی انھیں سے لڑائی ہوئی تھی ۔ یہودیوں نے ان کو’’فلستینی ‘‘ کہا اور اس کے معنی ’’شرابی،کبابی‘‘ کے رکھ دئے۔ اس علاقے کے قدیم باشندوں کی غلطی یہودیوں کے نزدیک صرف یہ تھی کہ انھوں نے یہودیوں کے مصر سے نکلنے کے بعد ان کا استقبال ’’پانی اور روٹی سے نہیں کیا‘‘ (توریت، تثنیہ ۲۳) اس لئے وہ گردن زدنی کے مستحق ہوئے۔
یہودی تقریباً ۱۲۲۰ ق م میں حضرت یوشع Jushuaکی قیادت میں صحرائے سیناء سے نکلنے کے بعد فلسطین میں داخل ہوئے۔ توریت (سفر یشوع) کے مطابق انھوں نے انتہائی وحشیت کے ساتھ فلسطینیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
کنعانی یبوسی قبیلہ Jebusites بیت المقدس کے ارد گرد رہتا تھا۔ یہ لوگ ۱۴۰ سال تک یہودیوں کا مقابلہ کرتے رہے اور صرف ۱۰۴۹ ق م میں حضرت داؤد اس علاقے پر قبضہ کرپائے۔ شاؤل ۱۰۲۰ ق م میں پہلا حاکم ہوا جس نے سب یہودیوں کو ایک جھنڈے کے تحت جمع کیا۔ اس کے بعد حضرت داوٗد ؑ آئے جن کا زمانہ ۱۰۰۰۔۹۶۱ ق م کا ہے۔ انھوں نے ۹۹۰ ق م میں فلسطینی قبائل پر قابو پایا اور دمشق کو خراج دینے پر مجبور کیا۔صرف حضرت داوٗد ؑ اور حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کے ایک بڑےخطے پر حکومت کی۔
حضرت داوٗدؑ کے بعد حضرت سلیمانؑ آئے جن کا زمانہ ۹۶۱–۹۲۲ ق م کا ہے۔ انھوں نے بیت المقدس میں ایک یہودی معبد بنایا جو ’’ہیکل‘‘ Templeکے نام سے جانا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک دیوار آج بھی موجود ہے۔ اس دیوار کو مسلمان مسجد اقصی کی ’’مغربی دیوار‘‘ (الحائط الغربی) کہتے ہیں جبکہ یہودی اس کو’’دیوار گریہ‘‘ (Wailing Wall) کا نام دیتے ہیں۔ اس سلطنت کے تعلقات یمن تک سے تھے۔ حضرت سلیمانؑ کے۹۲۲ ق م میں وفات پاتے ہی ان کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ جنوب میں ’’یہودا‘‘ اور شمال میں ’’اسرائیل‘‘ نامی دو ملک وجود میں آئے جو آپس میں دوسو سال تک لڑتے رہے۔
حضرت داوٗد اور سلیمان علیہما السلام نے تقریباً ۴۰–۴۰ سال حکومت کی، اس کے بعد سب ختم ہوگیا۔ لڑائیوں وغیرہ کو چھوڑ دیا جائے تو فلسطین پر صرف ۷۰ سال پورے طور پر یہودی حکومت رہی (انگریز مؤرخ جفریز JMN Jafferies, Palestine – The Reality )۔
بہترین حالات میں بھی یہودیوں نے پورے فلسطین پر کبھی قبضہ نہیں کیا۔ مؤرخ بیلوک کے مطابق بہترین حالات میںبھی اس مملکت کی لمبائی ۱۲۰ میل اور چوڑائی ۶۰ میل تھی (یعنی موجودہ غزہ سے ملتی جلتی)۔انھوں نے زیادہ تر پہاڑی علاقوں پر قبضہ کیا جبکہ وادی کے علاقے فلسطینیوں کے پاس رہے۔
آشوریوں نے ۷۲۱ ق م میں پہلی بارـ ’’اسرائیل‘‘ کو ختم کرکے یہودیوں کو مشرق کی طرف کھدیڑ دیا اور دوسرے لوگ ان کی آبادیوں میں بسادئے۔ یوںان کا تاریخ سے نام ونشان مٹ گیا۔ البتہ دوسری یہودی حکومت’’یہودا‘‘ بچ گئی تھی جسکا صدر مقام اورشلیم تھا۔ ۵۹۷ ق م میں نبوخدنصر (بختنصر) نے اس دوسری یہودی حکومت کا بھی خاتمہ کردیا اور اس کے بادشاہ یواقیمJoacqim سمیت دس ہزار یہودیوں کو یرغمال بناکر بابل لے گیا۔ ان میںنبی حضرت حزقیال شامل تھے۔ جلد ہی باقیماندہ یہودیوں نے بغاوت کی،جس کی وجہ سے نبوخدنصر ۵۸۷ق م میںدوبارہ فلسطین آیا، اورشلیم کی اینٹ سے اینٹ بجادی، مزید بہت سے یہودیوں کو غلام بناکر بابل لے گیا اورباقیماندہ یہودیوں کو اس علاقےسے نکال دیا۔ یوںسلطنت ” ــاسرائیل” کے ختم ہونے کے ۱۳۰ سال بعد سلطنت "یہودا” کا بھی مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔
۵۳۹ ق م میں یہودیوں کی بابل کی غلامی ختم ہونے پر واپسی ہوئی ۔ ایران کے بادشاہ کور ش دوم نے فلسطین کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں دو بارہ بسنے کی اجازت دی۔ یوں ۵۱۵ ق م میں دوبارہ ہیکل سلیمانی بنا۔
۶۳ ق۔م ۔۷۰ م میں فلسطین پر رومن قبضہ ہوا۔ قبضہ پورا ہونے پر یہودیوں کی بغاوت کی وجہ سے ۷۰ م میں رومن جنرل ٹائٹس Titus فلسطین آیا اور پوری طرح اورشلیم اور ہیکل کو تباہ کر کے اس کی جگہ ایک رومن شہر بنام ایلیا کاپیتولینابنا کرواپس گیا اور یہودیوں کو وہاں سے پوری طرح سے جلا وطن کر دیا۔
۲۷۳م میں انباط (عربوں) نے اس علاقےپرقبضہ کرلیا۔
۶۳۹م ( ۱۵ھ) میں بیت المقدس حضرت عمر کے ہاتھوںفتح ہوا جب وہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ مسجداقصی کی جگہ اس وقت کوڑا پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس جگہ کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے صاف کیا اور وہاں نماز پڑھی۔ بعد میں اس جگہ پرایک مسجد بنی۔حضرت عمرؓ کے ہاتھوں "العہد العمری” نامی وثیقہ لکھا گیا جس میں یہودیوںکا بیت المقدس میں داخل ہونا منع کیا گیا اور یہ وہاں کے عیسائیوں کی درخواست پر ہوا۔
۱۰۹۹ء سے ۱۳۶۹ء تک صلیبی جنگیں جاری رہیں جو فلسطین پر یوروپی عیسائی قوموں کے قبضے کی کوشش تھی کیونکہ ان کے خیال میں حضرت مسیح کی جائے پیدائش کو غیر عیسائیوں کے قبضے میں نہیں رہنا چاہئے۔ کل ۹ صلیبی جنگیں ہوئیں۔ بالآخر اکتوبر ۱۱۸۷ ءمیں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے ۹۹ سال قبضے کے بعدواپس لیا اور یہودیوں کو دوبارہ بیت المقدس آنے کی اجازت دی۔ انھوں نے بیت المقدس کی حفاظت کے لئے مراکش سے جفاکش مسلمانوں کو بلاکر مسجد اقصیٰ کے پاس بسایا۔ ان کا محلہ "حی المغاربۃ” ۱۹۶۷ تک باقی تھا۔ جون ۱۹۶۷ میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضے کے بعد چھ گھنٹے کے نوٹس پر ان کو باہر کر دیا اور ان کے گھر مسمار کرکے "دیوار گریہ” کے سامنے ایک بڑا میدان بنا دیا جہاں یہودی اب عبادت کرتے ہیں۔
یوروپ میں مستقل برے سلوک اور ابھرتی ہوئی نئی قومیتوں کی وجہ سے وہاں کے یہودیوں میں ’’یہودی وطن‘‘ کی بات شروع ہوئی حالانکہ نہ ان کا اپنا کوئی ملک تھا اور نہ ہی کسی علاقے میں ان کی اکثریت تھی ۔ آسٹرین صحافی ہرتزل Herzl نے صہیونی تحریک شروع کی۔ ۱۸۶۰ء میں دوبارہ یہودیوں نے فلسطین میں بسنا شروع کیا۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ ہزار تھی۔ فرانس کے بارون ہرشBaron Hirsh نے اس کام کے لئے پیسے دئے۔ بعد میں برطانیہ کے لارڈ روچائلڈLord Rothchild نے بھی اس مقصد کے لئے کافی پیسے دئے تاکہ یہودی فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں بسنا شروع کریں۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے بالفور اعلان جاری کرکے فلسطین میں "یہودی وطن” بنانے کا وعدہ کیا جبکہ اسی وقت انگریزوں نے سائکس پیکو Sykes Picot معاہدے کے ذریعے فرانس کے ساتھ اس علاقے کو آپس میں بانٹنے اور شریف مکہ سے معاہدہ کرکے اس پورے علاقی میں "عرب حکومت” قائم کرنے کا جھوٹاوعدہ کیا۔ جس وقت یہ وعدے کئے گئے، برطانیہ یا فرانس کا اس پورے علاقے کے کسی حصے پر قبضہ نہیں تھا۔
اکتوبر۱۹۱۸ء میں فلسطین پر برطانوی قبضہ ہوگیا جس کے بعد اعلان بالفور کے تحت فلسطین کو یہودی ہجرت کے لئے کھول دیا گیا۔ ساٹھ سال سے مسلسل ہجرت کے باوجود اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۶۰۰۰ تھی۔
برطانیہ نےفلسطین میں یہودیوں کوہر سہولت کے ساتھ نیم فوجی دہشت گرد مسلح تنظیم ہاگاناہ Haganah بنانے کی اجازت دی جس کی وجہ سے عملًافلسطین میں ہر طرح سے مسلح یہودی فوج تیار ہوئی جبکہ عربوں کے اسلحے چھینےگئے اوریہودیوں کے برعکس عربوں کے اسلحہ رکھنے پر جیل اور جلاوطنی کی سزا مقرر ہوئی۔ اس کے علاوہ متعدد یہودی دہشت گرد تنظیموں کا قیا م عمل میں آیا مثلا ارگون ، شترن،لیہی اور اتزیل جنھوں نے ۱۹۴۸ عربوں کو اپنے وطن سے بندوق کے ذریعے کھدیڑنے کا کام کیا۔ ان کو بعد میں اسرائیلی فوج میں ضم کر دیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ بہت کم زور ہو گیا تھا۔برطانیہ کو فلسطین سے بھاگنے پر مجبور کرنے کے لئے اب یہودی دہشت گردوں نے انگریز فوج اور انتظامیہ پر حملہ کرنا شروع کردیا۔ فلسطین میں یہودی دہشت گردی کا سامنا کرنا کمزور برطانیہ کے بس میںنہیں تھا، اس لئے اس نے فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۹؍ نومبر ۱۹۴۷ کو فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ عرب اکثریت کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۴۴ فیصد اور یہودی اقلیت کو ۵۶ فیصددے دیا۔ عربوں نے اس ظالم فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا جبکہ یہودیوں نے مارچ ۱۹۴۸ سے ہی”آپریشن دالیت” کے تحت فلسطین میں اسرائیل بنانے کے لئے عربوں پر حملے اور قتل عام شروع کر دئے تاکہ وہ یہودی سلطنت سے بھاگ جائیں۔ اس کے رد عمل کے طور پر عرب ممالک (مصر، اردن اور عراق وغیرہ) نے فلسطین میں اپنی فوجیں بھیجیں جن کو واضح حکم تھا کہ تقسیم پلان کے تحت یہودیوں کو دئے گئے حصے پر قبضہ نہ کریں۔ یوں عرب فوجیں آگے نہیں بڑھیں جبکہ یہودی دہشت گرد تنظیمیں حملے کرکے عربوں کوقتل اور مختلف علاقوں سے نکالتی رہیں یہانتک کہ فلسطین کے ۷۰ فیصد عرب اپنے علاقوں سے بھاگ کر قریبی علاقوں اور ملکوں میںپناہ گزیں ہوگئے اور پھر اقوام متحدہ کی بیسیوں قراردادوں کے باوجود آج تک اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے۔
۱۵؍مئی ۱۹۴۸ء کو یہودیوں نے اسرائیل کا قیام کا اعلان کر دیا اورفلسطین میںخانہ جنگی چھڑ گئی۔امریکا اور روس نے چند گھنٹوں کے اندر اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔سنہ ۱۹۴۹ء میں جنگ بندی تک فلسطین میں ۷۸فیصد زمینوں پر یہودی قبضہ ہو گیا یعنی فلسطین عربوں کے لئے ان کے ملک کا صرف ۲۲ فیصد حصہ بچا۔ اس باقیماندہ فلسطین کے ایک حصے (مغربی کنارہ بشمول بیت المقدس) پر اردن نے قبضہ کر لیا اور دوسرے حصے (غزہ) پر مصر نے قبضہ کر لیا۔
۵؍ جون ۱۹۶۷ءکو اسرائیل نےحملہ کرکے باقیماندہ ۲۲ فیصد فلسطین کے ساتھ مصر کے صحراء سیناء اورشام کی جولان پہاڑیوںGolan Heights پر بھی قبضہ کرلیا۔
اکتوبر ۱۹۷۳ میں مصر اور شام نےا پنے علاقے آزاد کرانے کے لئے جنگ کی ۔ مصر نے صحرائے سینا کا ایک تہائی علاقہ واپس لیا جبکہ شام ناکام رہا۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ءمیں مصری صدر سادات نے اسرائیل کے ساتھ صلح کرلی جس کہ وجہ سے اسرائیل پر دباؤ بہت کم ہو گیا اور دوسرے عرب و غیرعرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے شروع کر دئے۔ اس سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیںکرتے تھے جس میں ہندوستان بھی شامل تھا۔
باقیماندہ فلسطین پر مسلسل اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کا پہلا انتفاضہ دسمبر ۱۹۸۷ سے ۱۹۹۱ کی مڈریڈ کانفرنس تک چلا ۔
تھک ہار کر بالآخر فلسطینی قیادت نے ۱۹۹۲ء؁ میںاسرائیل کے ساتھ اوسلو معاہدہ کیا جس کی رو سے پانچ سال میں خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہونا قرار پایا لیکن فلسطین کے بنیادی مسئلوں (بیت المقدس /پناہ گزینوں/ سرحد/ داخلی وسائل( کو بعد کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ پانچ سال کے اندر فلسطینی ریاست وجود میں آنی تھی لیکن تیس سال کے بعد بھی یہ ریاست آج تک وجود میں نہیں آئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی (فلسطینی مقتدرہ) کے نام پر جو علاقہ موجود ہے اس کی حیثیت صرف ایک میونسپلٹی کی ہے اور وہ اسرائیل کے مخبر کے طور پر کام کرتی ہےیعنی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیل کو باخبر کرتی ہے اور اسی وجہ سے وہ فلسطینی عوام میں مقبول نہیں ہے۔
اوسلو معاہدہ کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو یہودی شدت پسندوں نے ۴؍ نومبر ۱۹۹۵ کو قتل کر دیا۔ اسرائیل میں فلسطینیوں سے کسی بھی سمجھوتے کی مخالف لیکوڈ پارٹی نے کلین بریک Clean Break نامی پلان امریکی نیوکون کی مدد سے بنوایا تاکہ اوسلو معاہدے کو عملاً کالعدم کیا جاسکے ۔ ۱۹۹۷ لیکوڈ کے برسراقتدار آتے ہی اس پلان پر عمل شروع ہوگیا اور دھیرے دھیرے فلسطینی مقتدرہ کو بے اختیار بنانےکے عمل کا آغازہوگیا اور فلسطینی حکومت کو دئے جانے والےعلاقوں میں یہودی نوآباد بستیاں بنانےکا کام تیزی سے شروع ہوگیا۔ سارا الزام عربوں پر رکھا گیا جبکہ معاہدے کو ناکام بنایا اسرائیل نے۔اس کےنتیجے میں ۲۰۰۰ میں دوسراانتفاضہ شروع ہوا جو پانچ سال چلا۔
مئی۲۰۱۲ء میں یوسی بیلینYossi Beilin نے، جو اوسلو معاہدہ کا اسرائیل کی جانب سے آرکٹیکٹ تھا، فلسطین اتھارٹی کو مشورہ دیا کہ اتھارٹی کو تحلیل کر دو تاکہ دنیا کے سامنے اسرائیل ننگا ہوجائے۔ یہودی نوآبادیا ں فلسطینی عربوں کی ان زمینوںپر مستقل قائم ہو رہی ہیں جنہیں اسرائیل بھی مانتا ہے کہ انھیں فلسطینیوں کو واپس کرنا ہے۔
اگست-ستمبر ۲۰۰۵ میں اسرائیل غزہ سے حماس کی مزاحمت کی وجہ سے نکل گیا لیکن علاقے پر بری، بحری اور ہوائی کنٹرول قائم رکھا ۔
جنوری ۲۰۰۶ میں حماس کی منتخب حکومت کو اسرائیل ، امریکہ اور یوروپ وغیرہ نے چند مہینوں کے اندر مل کر توڑدیا اور ۲۰۰۷ سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ شروع کر دیا جو اب تک جاری ہے۔
غزہ پر اسرئیلی حملے جون ۲۰۰۶ ، ۲۰۰۸، ۲۰۰۹ ، ۲۰۱۰، ۲۰۱۱، ۲۰۱۲ ہوئے۔ ۲۰۱۴ میں رمضان کے دوران اسرائیل نے حملہ کر کے غزہ کو شدید نقصان پہنچایا لیکن مزاحمت کو شکست نہ دے سکا۔ حماس نے ۲۰۱۴ کی جنگ کا ۵۱ دن تک مقابلہ کیا اور دنیا کی پانچویں سب سے طاقتور فوج کو جنگ بندی پر مجبور کردیا اور بڑی حدتک اپنے مطالبات منوالئے۔ اسرائیل اپنے مطالبات (راکٹ کے حملے بند کرانا ، غزہ کو اسلحے سے خالی کرانا اورسرنگوں کا خاتمہ) میں ناکام رہا۔
۲۰۱۸ میں غزہ کے لوگوں نےمحاصرے کے خلاف سرحد پر احتجاج شروع کیا جس پر اسرائیل نے فائرنگ کر کےسات فلسطینیوں کو قتل کیا۔
مارچ۲۰۱۹ میں اسرائیل نے غزہ پر پھر حملہ کیا۔اس کے بعد مئی۲۰۱۹، نومبر۲۰۱۹، ۲۰۲۱، ۲۰۲۲ اور مئی۲۰۲۳ میں بھی غزہ پر اسرائیلی حملے ہوئے۔ مئی۲۰۲۱ میں اسرائیلی حملہ پہلے کی طرح نہ صرف ناکام رہا بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حماس اور الجہاد الاسلامی اسرائیل کے ساتھ فوجی برابری deterrence کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ پہلی دفعہ ۲۰۲۱ میں اسرائیل کا بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ اسرائیل کے اندر فلسطینیوں نے انتقامی کارروائی کی اور اسرائیل کو یکطرفہ جنگ بندی پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے دوران ۲۴۲؍ فلسطینی شہید ہوئے، غزہ کے ۸۰۰۰۰؍ لوگ بے گھر ہوئے اور ۱۷۰۰۰؍رہائشی اور تجارتی یونٹس تباہ ہوئے۔
۷؍اکتوبر۲۰۲۳کو حماس نےاسرائیل پر اچانک بڑا حملہ کیا جو اسرائیل کے لئے بالکل غیر متوقع تھا۔یہ حملہ ۱۹۶۷ سے اسرائیلی قبضے اور ۲۰۰۶ سے جاری اسرائیلی محاصرے کے خلاف تھا ۔ یہ حملہ پوری طرح سے بین الاقوامی قانون کےتحت مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کے حق مزاحمت کا استعمال تھا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کو پوری طرح تباہ کرنا شروع کر دیا۔جنگ اب چھٹے ماہ میں داخل ہوچکی ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک مختصراورنہتی آبادی دنیاکی پانچویں بڑی فوجی طاقت کے خلاف اتنے لمبے عرصے تک اتنی بہادری سے لڑتی رہے۔اس سے پہلے عرب فوجوں کی اسرائیل سے لڑائی صرف چند دن چلتی تھی۔ا س جنگ میں اسرائیل نے بےدریغ بمباری کی۔ ابتک غزہ کے تقریبا ۷۰ فیصد گھر اور بلڈنگیں ا س اندھا دھند بمباری سے منہدم ہوچکے ہیں ۔پانی، بجلی، سیور لائن اور ٹیلیفون و انٹرنٹ کی لائنیں پوری طرح تباہ ہو چکی ہیں۔یہ بمباری دنیا بھر میں پچھلے ایک سو سال میں شدید ترین تھی ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بھی کسی علاقے پر اتنی شدید بمباری نہیں ہوئی۔الجزیرہ کے مطابق جنگ کے ۱۷۹ ویں دن یعنی ۲ ؍اپریل۲۰۲۴ تک ۳۲۹۱۶فلسطینی ہلاک ہوئے (جنمیں ۱۳۰۰۰ بچے اور ۸۴۰۰ عورتیں شامل ہیں) اور۷۰۴۹۴ زخمی ہوئے (جنمیں ۸۶۶۳ بچے اور ۶۳۲۷ عورتیں شامل ہیں)۔ انکے علاوہ تقریبا ۸۰۰۰ لوگوں کی لاشیں اب بھی انکے تباہ شدہ گھروں کے ملبوں میں دبی ہوئی ہیںاس لئے ان کے نام شہیدوں کی لسٹ میں شامل نہیں ہیں۔ مسلسل اسرائیلی فائرنگ کی وجہ سے ملبوں میں تلاش کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔
اسرائیل اور امریکہ کا پلان تھا کہ شدید بمباری اور کھانے پینے کی اشیاء کو بالکل روکنے سے غزہ کےلوگ مصر کے صحرائے سینا کی طرف بھاگ جائیں گےاور یوں غزہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے گا۔ لیکن غزہ کے لوگوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
غزہ میں مکمل سرائیلی محاصرے کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں اور دواؤں کی شدید قلت ہے جس کی وجہ سےوہاں درجنوں لوگ خاص طور سے بچے بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ تمام اسپتال تقریبا تباہ اور اکثر بند ہیں۔ اسرئیل نےغزہ کے تقریبا ۱۳؍لاکھ لوگوں کو اپنے اپنےعلاقوں سے نکل کر صحرائے سیناء سے ملے ہوئے غزہ کے جنوب مغربی شہر رفح میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ہے لیکن وہ وہاں بھی اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔جہاں موجودہ جنگ سے پہلے غزہ میں روزانہ ۵۰۰ٹرک کھانے اور ادویات وغیرہ کے داخل ہوتے تھے، اب وہاں صرف ۸۰ ٹرک روزانہ داخل ہو رہے ہیں۔ اسرائیل حملوں میں۱۵؍ مارچ تک ۱۰۰ صحافی قتل ہو چکے ہیں جنمیں زیادہ تر فلسطینی ہیں۔
جنوبی افریقہ نے ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ وہ غزہ میںنسل کشی کا ارتکاب کررہا ہے۔ بین الاقوامی عدالت کا آخری فیصلہ ابھی نہیں آیا ہے لیکن اس نے اسرائیل کی سرزنش کی ہے اور اس کو نسل کشی سے بچنے کو کہا ہے لیکن اس کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے کیونکہ اس کو امریکہ اور مغربی ممالک خصوصا جرمنی اور برطانیہ کی پوری تایید حاصل ہے۔ اسی جنگ کے دوران اسرائیل کو بچانے کے لئے امریکہ تین بار اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کاؤنسل میں جنگ بندی کی قرار داد کے خلاف ویٹو استعمال کرچکا ہے نیز جنگ کے دوران اسرائیل کی بھر پور جنگی اور مالی مدد کررہا ہے۔ جنگ کے شروع ہوتے ہی امریکہ نے اپنے دو بحری بیڑے علاقے میں بھیج دئے تاکہ کوئی ملک اسرائیل کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہو سکے۔ جنگ کے دوران امریکہ نے ہوائی اور پانی کے جہازوں کے ذریعہ مسلسل اسرائیل کو اسلحے فراہم کرائے۔ امریکہ اب تک (۲۰۲۳ء) اسرائیل کو ۲۶۰بلین( ہزار ملین) ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔
نسل کشی کے مقدمے کے علاوہ ،دنیا کے ۵۲ ممالک نےبین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کے خلاف ایک اور مقدمہ دائر کیا ہے کہ غزہ ، مغربی پٹی اور بیت المقدس پر ۱۹۶۷ سے جاری اسرائیلی قبضہ ہٹایا جائے۔ ابھی اس کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ افسوس ہے کہ مقدمہ زیادہ تر غیر عرب اور غیر مسلم ملکوں نے دائر کیا ہے۔ غزہ کی جارحیت کی وجہ سےمتعدد غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لئے ہیں لیکن کسی عرب یا مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی بلکہ کچھ در پردہ اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔
اس جنگ کے دوران حزب اللہ اور لبنان کی الجماعۃ الاسلامیۃ نے شمالی اسرائیل پر حملے کئے ہیں ۔ عراق کی کچھ میلیشیا نے بھی اسرائیلی اور امریکی نشانوں پر حملے کئے ہیں۔ یمن کی انصاراللہ حکومت نےباب المندب اور بحر احمر سے اسرائیلی پانی کے جہازوں یا اسرائیل سامان لے جانے والے پانی کے جہازوں پر پابندی لگا دی ہے اور اس طرح کے کچھ پانی کے جہازوں پر حملہ بھی کیا ہے جبکہ یمن پر اسی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ مستقل حملے کر رہے ہیں۔
سارے نقصانات کے با وجود موجودہ جنگ نے اسرائیل کے خلاف پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اسرائیل کے فوجی تفوق کا دعوی اور اس کی بنیاد پر عربوں کا بلیک میل اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ سفارتی طور پر اسرائیل کو ہر جگہ منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی گاڑی رک چکی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اب دو بارہ عرب اور مشرق وسطی کی سیاست کا نمبر ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ حماس اور فلسطینی مزاحمت کو اب کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ غزہ اور حماس نے اسلامی تاریخ میں ایک نئے سنہری باب کا اضافہ کیا ہے جو عین جالوت اور حطین کی طرح صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
قرآن پاک میں سور ہ اسرائیل کی آیات۴۔۸ میں بتایا گیاہے کہ یہودی فلسطین میں تین بار سرکشی کریں گے اور تینوں بار اللہ پاک ان کو سخت سزا دیں گے۔ اب تک دوبار ہو چکا ہے (۵۸۷قبل مسیح اور ۷۰عیسوی) ایک سرکشی ابھی باقی ہے۔ اس سرکشی پر بھی ان کی پہلے کی طرح سرکوبی کی جائے گی۔ شاید اس کا وقت آگیا ہے۔ آج پہلی بار دنیا اور بالخصوص ایشیا ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے اکثرممالک اسرائیل کے خلاف ہیں۔مغربی ممالک کے بہت سے باشندے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں اور اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی تاریخ میں آج پہلے دفعہ اسرائیل اکیلا کھڑاہے۔اس کے جھوٹوں کا گھڑا پھوٹ چکا ہے (معارف، اپریل ۲۰۲۴)۔
(مضمون نگار کی مسئلہ فلسطین پر گہری نظر ہے۔ قاہرہ یونیورسٹی میں ان کا ام۔فل کا مقالہ فلسطینی مزاحمت کے بارے میں تھا۔بیروت سے ان کی دو کتابیں عربی میں چھپی ہیں (التلمود:تاریخہ و تعالیمہ (۱۹۷۱) اور تاریخ فلسطین القدیم (۱۹۷۳)۔ اس کے علاوہ ان کی فلسطینی دستاویزات پرایک ہزار صفحے پر مشتمل کتاب Palestine Documentsدہلی سے ۱۹۹۸ میں شائع ہوئی جو انگریزی میں ایسی واحد کتاب ہے۔)

 

Comments are closed.