Baseerat Online News Portal

بہار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ رہا ہے؟

 

ڈاکٹر سلیم خان

اترپردیش کے بعد بڑی ریاستوں میں سے ایک  بہار ہے۔  پچھلے ایک سال میں وہاں بہت ساری  سیاسی اتھل پتھل ہوئی ۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نے پچھلے سال جب حزب اختلاف کے اجلاس کا پٹنہ میں اجلاس طلب کیا تھا تو بی جے پی نے اسے ہلکے میں لیا۔    حزب اختلاف کےاتحاد پر امیت شاہ  کی جانب سے کیا جانے والا تبصرہ اس کی جانب اشارہ کرتا ہے۔  اس پرتبصرہ کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے دو باتیں کہی تھیں۔ ان میں سے ایک تو یہ تھی وہ محض فوٹو سیشن یعنی اپوزیشن کا  اتحاد بہت جلد تاش کے پتوں کی مانند بکھر جائے گا  لیکن  شاہ جی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔اگلے چار ماہ میں ’انڈیا‘ نامی محاذ طاقتور ہوتا چلا گیا۔  آگے چل کر  تمام سیاسی جماعتوں کے 146؍ ارکان پارلیمان  کو معطل کرکے بی جے پی نے پورے حزب اختلاف کو فیویکول سے چپکا دیا ہے۔ سرکار کی اس ناعاقبت اندیشی نے درمیان  میں پیدا ہونے والے  اختلاف  و ناچاقی کو ہوا میں تحلیل کردیا تھا مگر بعد میں انہوں نے چابک اور چارہ کی حکمت عملی استعمال کرکے نتیش کمار کو توڑنے میں  کامیابی حاصل  کرلی ۔

امیت شاہ نے دوسری بات یہ کہی تھی کہ پٹنہ کی مشق راہل بابا کی تاجپوشی کی سعی ہے جو ناکام ہوجائے گی۔ وزیر داخلہ نے جلسۂ عام میں موجود اپنے نمک خواروں سے سوال کیا تھا کہ اگر انہیں مودی یا راہل کے درمیان انتخاب کرنا ہوتو کس کی حمایت کریں گے؟ اس پر مجمع سے آواز آئی ’مودی‘ اور شاہ جی خوش ہوگئے حالانکہ اگلے روز اگر انہیں کرایہ کے لوگوں کو راہل گاندھی کی ریلی میں لے جایا جاتا اورسوال ہوتا کہ وہ کس کو پسندکریں گے تو راہل کا نام آسمان میں اچھل جاتا۔ ہندوستان کے عوام ایسے احسان فراموش بھی نہیں کہ جس کے جلسہ میں جائیں  اس کے خلاف نعرے لگائیں ۔ ویسے یہ رویہ  اگلی بار بلائے جانے کے لیے بھی یہ ضروری ہے ورنہ ان بیچاروں کو  بار بار سیاسی ریلیوں میں شرکت کی دعوت اور معاوضہ  کیسے   ملے گا؟ کانگریس پارٹی نے اپنی باگ ڈور ملک ارجن کھڑگے کے ہاتھ میں دے کر یہ پیغام تو دے ہی دیا ہے کہ اب اس پر کسی ایک خاندان کا قبضہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر  راہل گاندھی کی کڑی محنت اور بیباک بیانات سے اگر ملک کے لوگ ان کی تاجپوشی کردیں تو اس  سے بی جے پی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔  چوہان سے لے کردیورا اور سندھیا سے جندل تک کو اپنی پارٹی میں لے کر ٹکٹ دینے والی بی جے پی کو اقرباء پروری  کی سیاست پر تنقید کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔    منڈے، مہاجن، جیٹلی  اور یدورپا جیسے کئی  سنگھیوں کی اولاد  بی جے پی کے ٹکٹ  پرمیدان میں  ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ نتیش کمار کا این ڈی اے میں شامل ہوجانا حزب اختلاف کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا لیکن اس نے تیجسوی یادو کا قد بہت بڑھا دیا ۔ انہوں نے  پٹنہ کی جن  وشواس ریلی کو کامیاب کرکے دِ کھا دیا کہ  ان کی مقبولیت  اقتدار یا نتیش کمار   کی محتاج نہیں ہے۔ پٹنہ کا تاریخی گاندھی میدان 3 مارچ کو  وہی  آر جے ڈی، کانگریس اور بایاں محاذ موجود تھے جو اب مل کر ا نتخاب لڑ رہے ہیں ۔ اس ریلی میں بہار کے سبھی 38 اضلاع سے کثیر تعداد میں پارٹی لیڈران و کارکنان کے علاوہ عوام الناس کا غیر معمولی جم غفیر موجود تھا ۔ بہار کی حد تک یہ جلسۂ عام  2024 کے لوک سبھا انتخابات میں تبدیلیٔ اقتدار کے بلند عزائم کی علامت بن گیا۔ ریلی میں شریک لوگوں میں اکثریت دیہی علاقے کے نوجوانوں، غریبوں، مزدوروں اور کسانوں و خواتین کی نظر آئی جو اپنے ساتھ تھیلے میں ستّو، روٹی، اچار وغیرہ لے کر آئے تھے۔ یہ لوگ  زمین پر کاغذ، چادر، گمچھے بچھا کر صبح سے شام تک بیٹھ کر اپنے اتحاد کا پُرجوش مظاہرہ کرتے رہے۔ ریلی میں شریک لاکھوں نوجوان  قیادت کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ کم و بیش 100 درختوں پر سینکڑوں نوجوان ریلی میں رہنماؤں کی تقریریں سنتے نظر آئےجونوجوانوں کے جوش  و خروش کا غماز تھا۔

پٹنہ کی ریلی میں  راہل گاندھی نے بہار کو ہندوستان کی سیاست کا اہم مرکز قرار دے کر وہاں ’نفرت کے بازار میں محبت کی دُکان‘ قائم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ راہل نے  یہاں تک کہہ  ڈالا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے وہ نہیں ڈرتے ہیں بلکہ مقابلہ کرتے ہیں اور آئندہ بھی مقابلہ کر کے اُسے مرکز کے اقتدار سے ہٹائیں گے اور انڈیا اتحاد کے حکومت کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔تیجسوی یادو نے نتیش کمار پر تبصرہ کرتے ہوئے فلم’اِدھر چلا، میں اُدھر چلا، جانے کہاں کب کدھر چلا… ارے پھسل گیا…۔‘  سنا کر مجمع کا دل جیت لیا  ۔ نتیش کمار کے ساتھ بی جے پی کی بخیہ ادھیڑتے ہوئے انہوں نے کہا تھا بہار میں بی جے پی نے جو دو نائب وزرائے اعلیٰ بنائے ہیں، ان میں ایک اناپ شناپ بولتا ہے تو دوسرا بڑبولا ہے۔ نتیش جی پلٹی مارتے رہتے ہیں، لیکن نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ 5 بار پارٹی بدل چکے ہیں۔ بی جے پی کے لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘  وزیر اعظم نریندر مودی کی گارنٹی کا حولہ دےکر وہ بولے ’’ مودی جی کیا آپ نتیش کی گارنٹی لے سکتے ہیں کہ وہ پھر نہیں پلٹیں گے؟‘‘

 بی جے پی کی مانند محض مخالفین پر تنقید کرنے کے بجائے تیجسوی یادو نے  17 سال بنام 17 مہینے کا تفصیلی تذکرہ کر کے اس جلسہ کو ’ نوکری ریلی‘ کہہ دیا اورنوجوانوں  خوش  ہوگئے ۔ اس موقع پر انہوں نے   آر جے ڈی کو ایم وائی کے بجائے ’مائی-باپ‘ کی پارٹی اور ’اے ٹو زیڈ کی پارٹی‘ قرار دیا۔ وہ بولے ۔ میری صرف مائی (مسلم-یادو) کی پارٹی نہیں بلکہ باپ (بی-بہوجن، اے، اگڑا، اے- آدھی آبادی یعنی خواتین، پی- پور یعنی غریب) کی بھی پارٹی ہے۔   تیجسوی نے اپنی پارٹی ’آر جے ڈی‘ کا ایک نیا مطلب ’آر-رائٹس (حق)، جے-جاب (ملازمت) اور ڈی-ڈیولپمنٹ (ترقی)‘ بھی لوگوں کے سامنے پیش کیا۔  ایک زمانے میں اس طرح الفاظ سے مودی کھیلتے تھے اب وقت بدل چکا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے دورۂ بہارکے موقع  پراقرباء پروری کا راگ   چھیڑا تھا اس کے ردعمل میں  تیجسوی نے کہا کہ ’’کان کھول کر سن لیجیے پی ایم مودی جی، میرے والد نے ریلوے وزیر رہتے جتنا کام ریلوے کے فائدے کے لیے کیا، اتنا آج تک کوئی وزیر ریل نہیں کر پایا۔‘‘اور یہ بھی بولے  ’’لالو جی نے بی جے پی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، نہ ہم ٹیکیں گے‘‘۔ لالو پرساد نے  جن وشواس ریلی کی تقریر میں کہہ دیا  کہ نریندر مودی ہندو نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بال-داڑھی نہیں منڈوایا تھا، جبکہ ہر ہندو اپنے والدین یا قریبی لوگوں کے انتقال پر ایسا کرتا ہے۔

پٹنہ ریلی کی خود اعتمادی کا نتیجہ ہے کہ  نشستوں کی پرسکون تقسیم ہوگئی۔    اس کے تحت آر جے ڈی کو 26 نشستوں پر لڑنے کا موقع دیا گیا ہے جبکہ 9 نشستیں کانگریس کے اور5 دائیں بازو کو ملی ہیں۔ اس تقسیم کا اگر پچھلی مرتبہ کے پارلیمانی  نتائج سے موازنہ کیا جائے تو کچھ اٹپٹا سا لگتا ہے کیونکہ اس وقت آر جے ڈی کا کھاتہ تک نہیں کھلا تھا جبکہ کانگریس کو کشن گنج سے کامیابی ملی تھی  مگر وہ بہت پرانی بات ہے۔ اس کے بعد گھاگرا ندی سے بہت سارا پانی بہہ کر خلیج بنگال میں جاچکا ہے۔ اس تقسیم کی بنیاد پچھلے اسمبلی انتخابات کے نتائج ہیں۔  اس وقت بھی اسی اتحاد نے ایک ساتھ مل کر انتخاب لڑا تھا لیکن آر جے ڈی اور سی پی آئی ایم ایل کے مقابلے کانگریس کی جیت کا تناسب بہت کم تھا ۔ اسی کے سبب اسے  پچھلے پارلیمانی انتخاب کے مقابلے ایک بھی اضافی  نشست  نہیں ملی ۔ دو چھوٹی جماعتیں آر ایس ایل پی اور وی آئی پی کو ملنے والی ساری نشستیں  آر جے ڈی کے کھاتے میں چلی گئیں اور وہ بڑا بھائی بن گئی ۔   تیجسوی کی قیادت میں بہار کے اندریہ  اس کا حق ہے ۔ ممتا بنرجی  کی بھی ایسی پذیرائی ہوتی مگر وہ دباو میں آگئیں ۔

آئیے اب دیکھتے ہیں گزشتہ اسمبلی انتخاب میں کیا ہوا؟ آر جے ڈی  نے جملہ 23.11 % ووٹ حاصل کیے جو پہلے کے مقابلے 4.79 %کا اضافہ تھا اس کے باوجود اس کی    5نشستیں کم ہوگئیں۔ مہا گٹھ بندھن میں اسے  144 نشستوں پر لڑنے کا موقع دیا گیا تھا اور اس کو 75 پر کامیابی ملی تھی یعنی اس کی کامیابی کا تناسب 52.33 %  تھا۔  اس کے برعکس کانگریس کواس سے نصف سے بھی کم 9.48% ووٹ ملے تھے اور  2.82% کے اضافے کے باوجود وہ صرف 19 نشستیں جیت پائی تھی جو آر جے ڈی کے 20% سے بھی کم تھا۔کانگریس کو  70حلقہ جات میں لڑایا گیا تھا یعنی اس کا اسٹرائیک ریٹ صرف 27%تھا۔  اب اسے 40 میں سے 9  اور آر جے ڈی کو  26 نشستیں ملنے کا یہ  بنیادی سبب  ہے۔  جہاں تک اسٹرائیک ریٹ کا تعلق ہے سی پی آئی ایم ایل 19پر لڑ کر 12پر کامیابی حاصل کرکے سب سے آگے تھی مگر اس کا کل ووٹ کانگریس سے تین گنا کم اور آر جے ڈی سے 8 گنا کم ہے۔ اس لیے اسے صرف ۳ مقامات پر ٹکٹ دے کر سی پی آئی اور سی پی ایم کو ایک ایک دے دیا گیا کیونکہ ان دونوں کے ووٹ کا فیصدی تناسب سی پی ایم کے مقابلے ایک تہائی ہے۔ ان اعدادو شمار کی روشنی میں موجودہ تقسیم بہت مناسب معلوم ہوتی ہے  لیکن یہ نتائج پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا ۔

(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Comments are closed.