Baseerat Online News Portal

مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے!

ڈاکٹر عابدالرحمن (چاندور بسوہ)
اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’ مسلمان ایک دوسرے سے محبت ،ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی برتنے میں ایک جسم کی مثال ہیںکہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بھی بیداری اور بخار کے ساتھ اس کی وجہ سے بے چین رہتا ہے۔‘ لیکن غزہ کے حالات پر ایسا کچھ نہیں ہوا غزہ میں 6مہینے سے چل رہی نسل کشی جاری ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں بھی امن کے بجائے اسرائیلی غاصبوں نے اس میں مزید اضافہ ہی کیا۔ اس نسل کشی میں اسرائیل نہ صرف جارحانہ اور بے حساب و بے محل بمباری کررہا ہے بلکہ اس نے غزہ میں امدادکی ترسیل بھی روک رکھی ہے جس کی وجہ سے جو لوگ بمباری سے کسی طرح بچ گئے تھے وہ فاقہ کشی سے شہید ہورہے ہیں۔ رمضان میں جب پوری دنیا کے غریب سے غریب مسلمان اچھے سے اچھے پکوان کا انتظام کرتے ہیں اور جو نہیں کرسکتے ان کے لئے یہ انتظام کروانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے اس وقت بھی غزہ میں ہمارے بھائیوں کو پکوان کیا کھجور اور روٹی کیا افطار کے لئے پانی بھی میسر نہیں ہے ۔ لیکن ہمارے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم اتنے مجبور اور بے بس ہیں کہ لاکھ چاہیں پھر بھی ان مظلوم ترین لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے لیکن اتنی غیرت تو ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ اللہ رب العزت نے ہمیںجو آسائشیں عطا کی ہیں ان کا مزہ لوٹتے وقت غزہ کے وہ لوگ ہمیں یاد آجائیں اور ہم ملول ہوجائیں، خود سوچیں کیا رمضان بھر کبھی ایسا ہوا؟ ہم رمضان کی رونقوں میں اسی طرح محو رہے جیسے عام حالات میں رہتے ہیں۔
دنیا میں اور فلسطین وغزہ کے آس پاس کئی ایسے ممالک ہیں جنہیں اسلامی ممالک یعنی مسلمانوں کے ممالک کہا جاتا ہے وہاں کی عوام حکومتیں اور افواج سب مسلمان ہیں لیکن یہ سب لوگ اتنے بزدل ہیں کہ اسرائیل کو اس نسل کشی سے بزور قوت روکنا تو بہت دور اس سے کڑے الفاظ میں بات کرنا تو درکنار اس کے خلاف عام سی تنقید بھی نہیں کررہے ہیں کم از کم اسے اس بات کے لئے بھی قائل نہیں کررہے کہ وہ امدادی سامان اور اشیاء ضروریہ ہی غزہ میں بلا روک ٹوک پہنچنے دے۔ جو لوگ اس جنگ کے شروع سے اسرائیل کے خلاف جارحانہ انداز میں بول رہے ہیں دھمکیاں دے رہے ہیں وہ بھی مخلص نہیں ہیں ان کی باتیں بھی گیدڑ بھپکیاں ہیں اور صرف اپنی عوام کو بے وقوف بنانے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ وہی عالم اسلام کی لیڈری کے لائق ہیں انہیں میں عالم اسلام کے دشمنوں کو للکار نے کی ہمت ہے۔ اس کے علاوہ جو اسرائیل کے نام اس کے حلیفوں کے خلاف چھٹ پٹ کارروائیاں کررہے ہیں وہ بھی دراصل اپنے آپ کو اسلام کے سپاہی ظاہر کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اتنے سارے بھرے پورے ممالک ایک ایسے چھوٹے سے ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اگر مسلمان سب مل کر تھوک دیں وہ بہہ جائے گا۔2015 میں دہشت گردی کے خلاف جو متحدہ فوج بنائی گئی تھی ملک فلسطین بھی اس کا فاؤنڈر ممبر ہے لیکن غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے چلتے تو اس کا کہیں نام نشان ہی نظر نہیں آرہا اس کی طرف سے کوئی رسمی بیان بھی سننے کو نہیں ملا شاید یہ اسلامی ممالک اور ان کی فوج بھی اپنے مغربی آقاؤں کی طرح یا ان کے حکم کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے بجائے حماس کو اور اس کے حامی غزہ کے نہتے مردوں عورتوں بوڑھوں بچوں مریضوں کو ہی دہشت گردسمجھتی ہے ۔ا س میں بھی کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے اگر یہ دہشت گردی کے نام حماس ہی سے برسر پیکار ہوجائے۔ لیکن یہ معاملہ صرف حکمرانوں کا ہی نہیں ہے عام مسلمانوں کا بھی ہے ابھی کچھ دن پہلے ایک مفکر کے حوالے سے بڑی پیاری بات سننے میں آئی کہ آدمی انفرادی طور پر وہ سب کچھ کرے جو اسلام کا حق ہے،یہ انفرادی خلافت ہے اور جب تک افراد انفرادی طور پر اس خلافت کا حق ادا نہیں کریں گے اجتماعی خلافت نہیں آسکتی ۔یعنی مسلم ممالک کی موجودہ حکومتیں اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کررہی ہیں تو ہم صرف تنقید کرکے پلا نہیں جھاڑ سکتے کیونکہ حکومتیں ایسا اسی لئے کررہی ہیں کیونکہ ہم میں وہ انفرادی خلافت ہی نہیں ہے جو اجتماعی خلافت قائم کرسکے یا قائم خلافت کو سیدھی راہ چلا سکے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں محمد رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم کے ساتھیوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں، مذکورہ بالا حدیث اور اس ارشاد ربانی کے ضمن میں ہمارا حال بالکل الٹا ہے۔ ذرا غور کیجئے نیچے اوپر تک ا گر کہیں غیر مذہب لوگوں سے ہمارا کوئی مسئلہ ہوجائے تو ہم انتہائی نرمی کے ساتھ اسے سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں خود نقصان اٹھاکر کومپرمائس(Compromise)کرلیتے ہیں لیکن مسئلہ اگر اپنوں سے ہو تو پھر ہم سے زیادہ سخت حق پسند انصاف پسند نڈر اور بہادر روئے زمین پر کوئی نہیں رہتا۔ ہمارے اپنوں کے ساتھ جس رویہ کا مطالبہ ہم سے اسلام کرتا ہے وہ رویہ ہمارا غیروں کے لئے ہوچکا ہے اور اپنے ہم مذہبوں کے تئیںہم انتہائی بے حس بے رحم اور نامہربان ہوچکے ہیں۔ہم غیروں کے لئے نرم اور اپنوں کے لئے سخت ہوچکے ہیں ،یہ سب ان صفات کے بالکل الٹ ہے جو ایک شخص مومن بناتی ہیں۔ سو آئیے اس عید پرخوشیاں منانے سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کریں اپنے ایمان کا جائزہ لیں۔

Comments are closed.