Baseerat Online News Portal

صدقة الفطر ادا نہ کرنے کا نقصان

 

مفتی احمدنادرالقاسمی

صدقۃ الفطر یہ واجب صدقہ ہے۔ جو ہر صاحب نصاب مسلمان مردوعورت پر اپنی طرف سے اوراپنی نابالغ اورعقل وخرد سے محروم بالغ اولاد کی طرف سے رمضان کے اختتام پر اورنماز عید سے پیشتر اداکرناواجب ہے۔ اوراگرعید سے پہلے کوٸی ادانہ کرسکاتب بھی اس کے ذمہ واجب علی حالہ باقی رہے گا جب تک ادانہ کردے۔ اورجب بھی اداکرےگا تو اداہی ہوگا قضا نہیں۔ عیدسے پہلے نکالنا اس لیے بہترہے کہ اسے ”طعمة للمساکین “ حدیث میں کہاگیاہے۔یعنی مسکین اورمفلوک الحال لوگوں کا کھانا۔ صدقة الفطر نہ نکالنا۔یا صدقة الفطر کی رقم کو جمع کرکے رکھنے اورمساکین تک نہ پہونچانے کا نقصان ۔: صدقة الفطر نہ نکالنے اورنکالی ہوٸی رقم غریبوں تک نہ پہونچانے کا سب بڑانقںصان یہ ہے کہ حدیث میں آیاہے کہ جب تک صدقة الفطر نہ نکال دیاجاٸے اس وقت تک روزہ معلق رہتاہے یعنی صیام رمضان بارگاہ خداوندی میں اس وقت تک نہیں پہونچتا جب تک ادانہ کردیاجاٸے ۔ جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ جب تک صدقة الفطر ادانہیں کیاجاتا روزہ زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتاہے۔(اگرچہ اس حدیث کو ایک راوی کی وجہ سے بعض حضرات نے سندا ضعیف کہاہے مگر حدیث متروک نہیں ہے۔ اوراس حکم پر اختلاف کی بھی گنجاٸش ہے کیونکہ حدیث پر ضعیف وقوی کاحکم لگانا اجتہادی عمل ہے۔)

بہر حال اس حدیث سے پتہ چلاکہ از خود ادانہ کرنابھی خسارے کی بات ہے اوراگر نکال کرکسی انجمن یاادارے کو دیدیاجاٸے اوروہ ادارہ بروقت غریبوں تک نہ پہونچاٸے یہ بھی درست نہیں ۔ رقم کو سالہاسال تک روک لیناروزہ داروں کے روزے کو بارگاہ خداوندی میں نہ پہنچنے اورروزے کی سعادت سے محرومی کاباعث ہے۔ اس لیے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ اسے جلدازجلد غربا ٕتک پہونچانے کی کوشش کریں، یاپھر جمع نہ کریں۔ فقہا نے اس کی صراحت کی ہے کہ ذمہ داران پر واجب ہے کہ وہ غرباکاحق ان تک جلد پہونچادیں۔ {فتاوی ہندیہ کتاب الزکاۃ)

دوسرانقصان یہ ہے کہ اگر صدقة الفطر نماز سے پہلے نہ نکالاگیا اوراسے موخر کردیاگیا تو پھر اس کی حیثیت فطرانہ کی نہیں رہ جاتی بلکہ عام صدقے کی ہوجاتی ہے، اگرچہ ذمہ میں اداٸگی باقی رہتی ہے اورشرعی نظام کی یہ خصوصیت ہے کہ ہرحکم وقت، حالات اورمقاصد کے ساتھ مربوط ہے۔ اس سے اگر اسے الگ کردیاجاٸے تو مقصد ہی فوت ہوجاتاہے۔

Comments are closed.