Baseerat Online News Portal

عیدالفطر کی فضیلت و حکمت :احادیث کی روشنی میں

ترتیب :مفتی محمد خالد حسین نیموی

اللہ رب العالمین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں جو دین عطا فرمایا ہے وہ تمام دینی واخروی فلاح کا جامع ہے، یہاں بندگی، خود سپاری عجز انکساری، تواضع طاعت و عبادت کے مظاہر کے ساتھ خوشی ومسرت کے مواقع بھی ہیں. اللہ تعالیٰ نے جہاں ہمیں عبادات کی بجا آوری کی تلقین فرمائی وہیں ان عبادات کو پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے والوں کے لیے انعامات کا بھی ذکر فرمایا۔ رمضان المبارک میں بندہ روزہ رکھ کر بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرکے، ذکر و اذکار، تلاوت قرآن کریم تراویح اور قیام اللیل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو میں شب وروز پورےمہینہ مصروف رہتا ہے جب وہ ممکنہ حد تک اس ماہ مبارک کا حق ادا کرتا ہے تو منزل قریب آجاتی ہے اور اللہ رب العزت عیدالفطر کی صورت میں اسے انعام اکرام سے نوازتا ہے۔
عید کے عنوان سے اسے خوشی ومسرت کے اظہار کابھی موقع ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت کا پروانہ بھی ملتا ہے.
عید کا دین اہل ایمان کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ نے دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ دو دن کیا (اہمیت رکھتے) ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا (یا رسول اللہ !) ہم ان دو دنوں میں ایامِ جاہلیت میں کھیلتے کودتے (اور خوشی مناتے) تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں کی جگہ ان سے بہتر خوشی کے دو خاص مواقع مرحمت فرمائے ہیں: (1)عید الفطر اور(2) عید الاضحی۔ (مسنداحمد ابن حنبل 3/ 250، رقم: 13647سنن ابوداود : ١١٣٤، النسائی ١٧٩٣)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی عیدیں شریعت کی طرف سے متعین ہیں لہذا اپنی طرف سے کوئی عید ایجاد کرنا یا کسی خاص موقع کو عید سے معنون کرنا درست نہیں ہوگا بلکہ ایسا کرنا بدعت کے دائرہ میں آئے گا.
عید سے قبل والی رات کو لیلۃ الجایزہ یا انعام والی رات کہتے ہیں، جس کی مستقل فضیلت ہے.
حضرت سعید بن اوس انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب عید الفطر کا دن آتا ہے توفرشتے راستوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر پکارتے ہیں: اے مسلمانوں کی جماعت ! کرم والے رب کی بارگاہ کی طرف چلو! وہی تمہیں نیکی کی توفیق عطا فرما کر احسان فرماتا ہے۔ پھر اس نیکی پر بہت بڑا ثواب عطا فرماتا ہے۔ تمہیں راتوں کو قیام کا حکم دیا گیا تو تم نے قیام کیا، دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے بھی رکھے، اور تم نے اپنے پروردگار کی اطاعت و فرمانبرداری کی۔ اب اس کا انعام حاصل کر لو۔ پھر جب لوگ نماز پڑھتے ہیں تو ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے: سن لو! تمہارے رب نے تمہیں بخش دیا ہے، خیرات و برکات سمیٹتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ کیونکہ یہ انعام و اکرام کا دن ہے۔ آسمانوں میں اس دن کا نام یوم الجائزہ (انعام کا دن) ہے۔(الطبراني في الكبير (ج 1 /رقم 617)، وعند أبو نعيم في "معرفة الصحابة” (996)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ اُترتے ہیں، اور ہر اس شخص پر سلام بھیجتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔ جب ان کی عید کا دن یعنی عید الفطر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان عبادت گزار بندوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اے میرے فرشتو! اُس مزدور کی اُجرت کیا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کر دے؟ وہ عرض کرتے ہیں: الٰہی! اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پورا پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے اپنے ذمہ واجب الادا میرا فریضہ ادا کر دیا ہے۔ پھر جب وہ مجھ سے دعا کرتے ہوئے دستِ طلب دراز کریں تو مجھے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنی سخاوت، اپنی بلند شان اور رفعتِ مکانی کی قسم! میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر (اپنے بندوں سے) فرماتا ہے: لوٹ جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پھر یہ لوگ بخشش یافتہ ہو کر لوٹتے ہیں۔(رواہ ابوالشیخ وابن حبان فی کتاب الثواب، فضائل الأوقات للبيهقي (ص: 251) )۔
لیکن عید کی خوشی صرف یہ نہیں کہ اپنی یا اپنے اہل خانہ کی خوشی کا انتظام کیا جائے، بلکہ اس موقع پر ضرورت مندوں اور پریشان حال لوگوں کو بھی اپنی خوشی میں شامل کرنا چاہیے.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں عید الفطر کے دن حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنے فقراء بھائیوں کو کھانا کھلائیں۔ آپ ﷺ فرماتے تھے: جس نے کسی ایک کو کھانا کھلایا اسے جہنم سے آزاد کر دیا جائے گا، جس نے دو کو کھانا کھلایا اس کے لیے شرک اور نفاق سے پاک ہونا لکھ دیا جائے گا اور جس نے تین کو کھانا کھلایا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ آپ ﷺ ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم روٹی اورگوشت، روٹی اور زیتون کا تیل،روٹی اور دودھ کھلائیں۔ آپ ﷺ فرماتے تھے: تم سالن کے ساتھ کھانا کھایا کرو، تمہاری زندگی تمہارے لیے اُلفت کا باعث ہوگی۔
عثمان بن ابی العاتکۃ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے عید الفطر کے خطبہ میں فرمایا: (لوگو!) کیا تم جانتے ہو کہ آج تم کیوں اپنے گھروں سے باہر نکلے ہو؟ تم نے تیس دن روزے رکھے ہیں اور تم نے تیس راتیں قیام کیا ہے۔ لہٰذا آج تم اپنے رب سے سوال کرنے آئے ہو کہ وہ تمہاری ان عبادات کو قبول فرمائے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس حال میں میرے یہاں تشریف فرما ہوئے جب کہ میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں جنگ بُعاث میں اپنے قبیلہ کی شجاعت و بہادری کے واقعات گاگا کر بیان کر رہیں تھیں یہ عید کے دن کی بات ہے. وہ فرماتی ہیں کہ یہ (پیشہ ور) گانے والیاں نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ناپسیندگی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی باجہ! ۔اس پر ابو بکر کو مخاطب کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے ابو بکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔( متفق علیہ)
امام مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ دونوں لڑکیاں دف بھی بجا رہی تھیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید کے موقع پر حدود میں رہتے ہوئے خوشی کے اظہار کے مختلف جایز طریقوں کے استعمال کی بھی اجازت ہے. اس کی مزید تائید ذیل کی روایت سے ہوتی ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ حبشہ نے آپ ﷺ کی آمد کی خوشی میں اپنے سامانِ حرب کے ساتھ رقص کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کا دن ان کے نزدیک (تمام خوشیوں اور) عید کے دنوں سے بڑھ کر تھا۔
(عسقلانی، فتح الباری، 2: 443)
یہ چوں کہ محض شکرانہ کی نماز ہے اس لیے محض دورکعت مقرر کی گئی، نہ اس سے پہلے سنت ہے نہ اس کے بعد.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الہہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے عید کی نماز دو رکعت پڑھی نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اسکے بعد.
(صحیح البخاری : ٩٦٤ ، مسلم : ٨٨٤)
واضح رہے کہ عید کی نماز پڑھنا واجب ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اس کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے .نیز عید کی نماز دو رکعت ہے جو عید گاہ، مسجد یا باہر میدان میں پڑھی جائیگی .
عید کی نماز میں پہلی رکعت میں قرائت سے پہلے تین زائد تکبیر یں، تکبیر تحریمہ کے ساتھ ملا کر چار اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین تکبیریں ہیں .تکبیر رکوع کے ساتھ ملا کر چار.
حضرت مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہم نشین ابوعائشہ نے بتایا کہ میں نے حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح تکبیر کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ (ہر رکعت میں) چار تکبیریں کہتے تھے جیسا کہ آپ نماز جنازہ میں کہتے تھے۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں. حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے (مزید) بتایا کہ جب میں بصرہ والوں پر حاکم (گورنر) بنایا گیا تو میں وہاں بھی اسی طرح تکبیریں کہا کرتا تھا. ابوعائشہ نے کہا کہ (اس سوال و جواب کے موقع پر) سعید بن العاص کے ساتھ موجود تھا۔
[سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر 1150، نماز کا بیان : عیدین کی تکبیرات کا بیان]
عید کی نماز کیلئے نہ ہی اذان کہی جائیگی اور نہ ہی اقامت کیونکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم عید کی نماز بغیر اذان واقامت کے پڑھی ہے { ابو داود : ١١٤٧}
دورکعت نماز کے بعد امام صاحب عید کا خطبہ دیں گے عید کے اس خطبے میں امام صاحب لوگوں کو نصیحت کریں گے اور ضروری أحکام بیان کریں گے .
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم عید الفطر اور عید الأضحی کوجب نماز کیلئے نکلتے تو سب سے پہلے نماز پڑھتے پھر لوگوں کی طرف منھ کرکے کھڑے ہوتے ، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے آپ انھیں وعظ فرماتے اور حکم دیتے .(صحیح البخاری : ٩٥٦)
عید کی نماز کے عیدگاہ یا مسجد کی طرف پاپیادہ جانا چاہیے.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ عید کے لئے پیدل چلکر جائے اور نکلنے سے قبل کچھ کھا کر نکلے.
(سنن الترمذی :٥٣٠ ، سنن ابن ماجہ : ١٢٩٤)
عید الفطر کی نماز کے لئے نماز نکلنے سے پہلے کچھ کھا پی کر جانا سنت ہے؛ اگر وہ چیز میٹھی ہو یا کھجور یا چھوارے ہوں تو زیادہ بہتر ہے. جب کہ عید الأضحی کے دن بغیر کچھ کھائے جانا چاہئے .
عید کے دن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جمعہ کی طرح اس دن غسل کرے اور اچھے سے اچھا کپڑا زیب تن کرے اور خو شبو استعمال کرے .اور آنے اور جانے میں راستہ تبدیل کرے { بخاری : ٩٨٦}.
نیز عید گاہ جاتے وقت راستے میں تکبیر کہتا جائے .
تکبیرات مندرجہ ذیل ہیں
الله أكبر الله أكبر لاإله إلا الله …. والله أكبر الله أكبر ولله الحمــد.
اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ سب سے بڑا ہے.
اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں
اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ سب سے بڑا ہے.

اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں
اللہ کی کبریائی کا یہ اعلان ہی درحقیقت عید الفطر کا اصل پیغام ہے.
اگر اللہ کی بڑائی اور اس کے سامنے جوابدہی کا احساس دل و دماغ میں جاگزیں ہوگیا تو روزہ کا مقصد بھی حاصل ہوگیا اور عید کی شادمانی وشادکامی بھی حاصل ہوگئی، اللہ تعالیٰ ہمیں تقوی کی صفات سے آراستہ فرمائے آمین.

Comments are closed.