Baseerat Online News Portal

مسلمانوں نے صحیح وقت پر درست فیصلہ کیا‘

 

 

جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی سے

ایڈیٹر انقلاب ودود ساجد کا خصوصی انٹرویو

 

(مولانا ارشدمدنی کا نام آتے ہی جمعیت علماء ہند کا تصور بھی ذہن میں آجاتا ہے۔ جمعیت علماء نے اس ملک کی آزادی اور اسے سیکولر بنائے رکھنے کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ وہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی علمی اور فلاحی وراثت کے امین کے طور پر پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک طرف جہاں دارالعلوم دیوبند میں استاذ حدیث کے فرائض انجام دے رہے ہیں وہیں وہ جمعیت علماء ہند کے بینر تلے مسلمانوں کی دینی‘ فلاحی اور سماجی رہ نمائی بھی کر رہے ہیں۔ مختلف فرضی مقدمات میں ماخوذ اس ملک کے سینکڑوں نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کیلئے تو ان کی شخصیت کسی بڑے سہارے سے کم نہیں۔ دہشت گردی کے الزامات میں موت کی سزا پانے والے کئی نوجوانوں کو ان کی کوششوں سے باعزت رہائی ملی۔ سینکڑوں مقدمات آج بھی جاری ہیں۔ ہندوستان میں پچھلے دس برسوں میں مسلمانوں پر جو افتاد آئی اور ملک بھر میں ان کے خلاف نفرت کی جو آندھی چلی اس نے اس ملک کے مظلوم شہریوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات کو جنم دیا ہے۔ روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر ودود ساجد نے ان میں سے کچھ اہم سوالات پر جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی سے خصوصی گفتگو کی ہے۔)

 

سوال:

لوک سبھا انتخابات میں پولنگ کے تین مرحلے مکمل ہوچکے ہیں۔ اس بار ایک تبدیلی محسوس کی جارہی ہے کہ مسلم ووٹرس کیلئے کہیں سے کوئی اپیل سنائی نہیں دے رہی ہے۔ کیا دس برسوں تک احوال زار کا سامنا کرنے کے بعد مسلمانوں یا علما ء اور دانشوروں میں مایوسی درآئی ہے؟

 

جواب :

مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوسکتا۔ اس خاموشی کا سبب یہ ہے کہ فرقہ پرست ذہنیت نے ہندوستان کے ووٹرس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے اور اسی صورتحال کو اپنی کامیابی کا بنیادی پتھر سمجھ لیا ہے۔ باشعور مسلم طبقات یہ سمجھتے ہیں کہ جس آگ کو جلایا گیا ہے اگر کہیں ایک آدھ حرف بھی ادھر ادھر ہوگیا تو اس آگ کو بڑھانے کیلئے انہیں ایک ذریعہ مل جائے گا۔ دس سال کے تجربہ کے بعد مسلمان اس جگہ پہنچا ہے کہ اس وقت خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔ اگر مسلمان مایوسی کا شکار ہوتا تو وہ خاموشی سے اپنے گھر بیٹھتا‘ الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیتا۔ ووٹ ڈالنے کیلئے مسلمانوں کو قطار اندر قطار دیکھا گیا۔ جن حالات نے ملک ‘ دستور اور سیکولرزم کو نقصان پہنچایا ہے‘ ان کو قابو میں کرنے کا یہی ایک موقع ہوتا ہے۔ جس پالیسی پر ملک چل رہا ہے وہ ملک کو سیکولر رکھنے اور تمام طبقات کے درمیان پیار و محبت قائم کرنے کیلئے موزوں نہیں ہے۔ مسلمان سمجھ رہا ہے کہ یہ وقت ان کی تائید کرنے کا ہے جو برملا کہہ رہے ہیں کہ سیکولر ملک اور سیکولر دستور کو زندہ رکھا جانا چاہئے۔ مسلمانوں نے صحیح وقت پر درست فیصلہ کیا۔

 

سوال:

کیا شعورکی یہ بیداری اس امر کا مظہر ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کی طرف رجحان بڑھا ہے؟

 

جواب:

بالکل۔ مسلمانوں میں جو تعلیمی پسماندگی اب سے پچاس سال پہلے تھی وہ دس سال پہلے نہیں تھی اور جو دس سال پہلے تھی وہ آج نہیں ہے۔ مسلمانوں نے ایسے ملک میں جہاں بے شمار اقلیتیں رہتی ہیں‘ جینے کا طریقہ بھی سیکھ لیا ہے۔ملک کے فرقہ وارانہ ماحول نے ان کے اندر نہ صرف شعور بیدار کیا ہے بلکہ ان کیلئے راستے بھی کھولے ہیں۔ مسلمانوں کی موجودہ پالیسی بالکل درست ہے اور اسے مایوسی سے تعبیر کرنا مناسب نہیں ہے۔

 

سوال:

آپ کے پاس مختلف نظریات اور مختلف طبقات کے لوگ آتے رہتے ہیں‘ آپ کا کیا تجزیہ ہے کہ ان دس برسوں میں پیدا ہونے والے حالات کے تئیں مسلمانوں کے علاوہ کیا دوسرے طبقات اور خاص طور پر ہندئوں میں بھی کوئی‘ غصہ‘ بیزاری یا نفرت پیدا ہوئی ہے؟

 

جواب:

میرے پاس ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو بی جے پی کے ہمنوا ہیں‘ آر ایس ایس سے بھی تعلق رکھنے والے ہیں‘ کچھ بہت پڑھے لکھے اور صاحب فکر لوگ اور کچھ ایسے بھی جو بی جے پی میں اندر تک رسائی رکھتے ہیں‘ لیکن وہ سب اس صورتحال سے عاجز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک جس راستہ پر جارہا ہے وہ بربادی کا راستہ ہے۔ جب میں ان کی زبان سے یہ بات سنتا ہوں تو مجھے تعجب بھی ہوتا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ ملک کے مفاد میں ایسا سوچتے ہیں۔ میں اس نظریہ کو بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

 

سوال:

ایک زمانہ میں تو آپ کی طرف سے آر ایس ایس لیڈروں سے ملاقاتوں کی کوشش شروع بھی ہوئی تھی‘ کیا وہ سلسلہ کچھ آگے بڑھا؟

 

جواب:

مجھ سے وہ لوگ برابر ملنے آتے تھے‘ میرا آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔جمعیت علماء کی ایک تاریخ ہے۔ ملک کی آزادی کیلئے اس جماعت سے وابستہ ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔آر ایس ایس کے تعلق سے میرا ایک نظریہ تھا کہ وہ ملک کو مذہبی نظریہ کا پابند بنانا چاہتی ہے۔اس نظریہ میں مسلمان کیلئے اپنے مذہب پر جینے کا تصور بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔میرے کچھ دوست جو آر ایس ایس کے بنیادی لوگ ہیں‘ انہوں نے خود ہی اس کی پیشرفت کی۔ وہی مجھے لے کر گئے۔ اتفاق سے یہ جمعہ کا دن تھا۔ موہن بھاگوت ہمیں پانچ دس منٹ میں نپٹا سکتے تھے لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ ان سے پونے دو گھنٹہ تک گفتگو ہوتی رہی۔ چونکہ جمعہ کی نماز کا وقت قریب آرہا تھا اس لئے میں نے خود ہی معذرت کی اور رخصت چاہی۔

 

سوال:

اتنی دیر تک کیا گفتگو ہوتی رہی‘ آپ نے ان سے کیا کہا؟

 

جواب:

میں اپنی جماعت کے نظریہ سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوا۔ یہ گفتگو بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔انہوں نے اٹھتے ہوئے مجھ سے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی‘ میں آپ کو دوڈھائی سال میں اپنے اجتماع میں بلائوں گا اور جو باتیں یہاں ہوئی ہیں ہماری خواہش ہوگی کہ آپ وہاں بھی دوہرائیں۔ میری پوری گفتگو کا محور یہی تھا کہ ہم بھی ہندوستانی ہیں اور ہمارے آبا و اجداد بھی ہندوستانی تھے‘ جہاں تک مذہب کا سوال ہے تو وہ ہر فرد کا ذاتی اختیار ہے۔زبردستی کسی کو اپنے مذہب کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ میں نے ان سے کہا کہ جب آپ مجھے بلائیں گے تو میں ضرور آئوں گا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم بہت آہستہ چلتے ہیں‘ اسی لئے میں نے آپ کو دو ڈھائی سال کے بعد بلانے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں تیز چلوں گا اور کہیں پہنچ کر مڑکر دیکھوں گا تو میں اپنے آپ کو تنہا پائوں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں اور سب اسی ملک کے رہنے والے ہیں اور پچھلے 1300سال سے ہم امن و محبت کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ دیہات در دیہات مسلمان موجود ہیں‘ وہ باہر سے آئے ہوئے نہیں ہیں۔ان کی برادری یہیں ہے۔ مسلمان گوجر بھی ہے‘ چودھری اور ٹھاکر بھی ہے۔ ہر برادری کے مسلمان یہاں موجود ہیں۔ اگر ایک دو فیصد کوئی باہر سے آیا بھی ہو تو وہ یہاں اتنا گھل مل گیا ہے کہ اب اس کی انفرادیت ختم ہوگئی ہے۔ آخر آج کون سی نئی بات ہوگئی ہے کہ کل مسلمان رہ سکتا تھا آج نہیں رہ سکتا۔ یہ سمجھنا کہ آپ اسے ہندو بنالیں گے تو یہ نہیں ہوپائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ بھاگوت نے میری ان باتوں کی نہ صرف یہ کہ تردید نہیں کی بلکہ بغور سنا بھی۔

 

سوال:

دوبارہ آپ کی کوئی ملاقات نہیں ہوسکی؟

 

جواب:

ان سے پہلی ملاقات کو سات آٹھ برس ہوگئے ہیں‘ انہوں نے بلایا ہی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس نظریہ کو پیش کرنا چاہا اور جو ان سے میری بات ہوئی تھی اس پر چلنا چاہا لیکن مجھے لگتا ہے کہ آر ایس ایس نے 95 برس تک جس نظریہ کو فروغ دیا آج اتنے عرصہ کے بعد کوئی دوسرا نظریہ پیش کرنا موہن بھاگوت کیلئے بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ آسان نہیں ہے۔ حالانکہ میری ملاقات کے بعد کسی پروگرام میں انہوں نے آر ایس ایس کے پرانے موقف سے نیچے اترکر کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ لیکن اس کے بعد توگڑیا (وی ایچ پی کے پروین توگڑیا) نے کہا کہ 95 سال سے تو ہمیں مسلمانوں کے خلاف سبق پڑھایا جاتا رہا لیکن آج کون سی نئی بات ہوگئی کہ ہم سے کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جانا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ جو باتیں انہوں نے بند کمرے کی ملاقات میں مجھ سے کہی تھیں انہیں میدان میں آکر پیش نہیں کرسکے۔

 

سوال:

آپ نے ان کو یاد نہیں دلایا؟

 

جواب:

میں بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ میری ہمت نہیں ہے کہ میں ان سے کہوں کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے یہ راستہ چھوڑدیا۔ یہ بات ہے بھی کہ جس نظریہ کو اتنے عرصہ تک فروغ دیا گیا اچانک اس کے خلاف کھڑے ہوکر دوسرا نظریہ پیش کرنا آسان کام نہیں۔ ہندئوں کے اندر بھی ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو پڑھا لکھا اور سمجھدار ہے اور وہ ہمارے ان نظریات کی تائید ہی کرے گا کہ ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے اور اسی کا نام جمہوریت اور سیکولرزم ہے۔

 

سوال:

آپ کچھ سادھوسنتوں سے بھی ملتے رہے ہیں‘ کیا سماجی ہم آہنگی کی یہ ملاقاتیں اب بھی جاری ہیں؟

 

جواب:

سادھو سنتوں سے ملاقات کا میرا ایک خاص محدود مقصد تھا۔ مجھے ایک خاص نکتہ کی تلاش تھی۔ میں نے اس موضوع پر تحقیقات میں خاصا وقت صرف کیا کہ ہندو مذہب کے نظریہ کے مطابق دنیا میں سب سے پہلا آدمی کون ہے۔ اس سلسلہ میں ‘ میں نے پچاس سے زائد ہندو مذہب کی کتابوں کے اردو تراجم کا مطالعہ بھی کیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہندوئوں کو اپنے مذہب کے بارے میں بالکل معلومات نہیں ہیں۔ 8 جنوری 2023 کو ہریدوار میں ایک بہت بڑے ہندو عالم ‘ مہامنڈلیشور کیلاش آنندجی‘ سے ملاقات کرنے گیا۔میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ذات جس کا نہ کوئی جسم ہے‘ جو ہرجگہ ہے اور جو ہر شے پر قادر ہے اس ذات کا کیا نام ہے۔بہت سے لوگ بس ادھر ادھر کی بات کرتے رہے۔ بہر حال بڑی تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ ذات جس کا کوئی جسم نہیں ہے‘ جو ہر جگہ ہے اور جو ہر شے پر قدرت رکھتی ہے وہ درحقیقت وہی ہے جس کو ’اوم‘ کہا جاتا ہے اور وہ جو سب سے پہلے دنیا میں آیا وہ وہی ہے جس کو ’منو‘ کہتے ہیں۔

 

جب مجھے یقین ہوگیا کہ میری یہ تحقیق درست ہے تو میں نے دیوبند میں جمعیت علماء کے ایک بڑے اجلاس میں اپنی تحقیق کو عام کیا کہ جو الله کی ذات ہے وہی اوم ہے اور جس کو آدم کہا جاتا ہے وہی منو ہے۔ میرا دل مطمئن ہے کہ میں نے اپنے عقیدہ کے اعتبار سے جو کہا وہ درست ہے۔اور ہندئوں کے یہاں بھی یہی بات درست ہے۔ہندئوں کی ساری کتابوں میں یہی درج ہے۔آر ایس ایس کے بنیادی لوگوں میں میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ آپ کی تحقیق کے اس انکشاف کا بڑا شہرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ نے جو کہا بالکل سچ کہا۔

 

سوال:

آخر آپ کو یہ ’کھوج‘ کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟

 

جواب:

میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ جو کچھ کہاجارہا ہے (کہ ہمارا ڈی این اے ایک ہے‘ ہم ایک ہیں وغیرہ) تو ہم کس حد تک (مذہب اور عقیدہ کے اعتبار سے) ایک دوسرے کے شریک ہیں۔تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ بنیادی عقیدہ ایک ہے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا دوسرا عنصر یہ ہے کہ جو ذات تمہیں انگلی پکڑ کر الله تک لے جا رہی ہے اس کو الله کا رسول تسلیم کیا جائے۔ یہیں آکر اختلاف ہوجاتا ہے۔انہیں معلوم ہی نہیں کہ رسول کون ہے۔ میں نے (اردو زبان میں شائع) ان کی پچاسوں کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔کہیں نہیں لکھا ہے کہ ایک الله کے سوا کسی اور کی پوجا کرو۔ یہ سب کتابیں دارالعلوم کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔لوگوں نے اس سلسلہ میں بڑا کام کیا ہے۔عجیب زمانہ ہے کہ نہ ہندئوں کو سلیقہ ہے کہ اپنے اصل مذہب کو پیش کریں اور نہ مسلمان کے اندر یہ جستجو ہے کہ وہ ان کتابوں کو پڑھے۔ میں کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو تقابل کیلئے ہندو مذہب کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے۔

 

سوال:

پچھلے دنوں وزیر اعظم نے اچانک جس نفرت انگیز اور مشتعل کن زبان کا استعمال شروع کیا اس پر آپ کا تجزیہ کیا کہتا ہے؟

 

جواب:

وہ جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں یہی ان کا اصل نظریہ ہے۔ان کے نظریہ میں کبھی تبدیلی آئی ہی نہیں تھی۔اگر ایسا ہوتا تو مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے معاملات میں بھی تبدیلی آتی۔

 

سوال:

کیا آپ کی طرف سے مسلمانوں یا اپنے قریبی حلقوں کو کوئی ایسا اشارہ دیا گیا کہ اپنے ووٹ کا استعمال کس طرح کرنا ہے؟

 

جواب:

میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں اور نہ ہی انتخابی سیاست میں کوئی عمل دخل رکھتا ہوں تاہم میں نے اس بار یہ ضرور کہا کہ مسلمان کو دس بار سوچ کر ووٹ دینا چاہئے۔ بی جے پی حکومت نے مذہبی آزادی کو چھین رکھا ہے۔ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ مذہبی آزادی دیں گے تو وہ ملک کو سیکولر ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اسی کا نام سیکولرزم ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور ہرشہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔

 

سوال:

80 کی دہائی میں جمعیت علماء نے ایک سروے کرایا تھا‘ اس کے مطابق اس وقت تک 67 ہزار سے زیادہ فسادات ہوچکے تھے اور ان میں سے 23 ہزار سے زیادہ فسادات 1984 کے سکھ مخالف فساد کی شدت کے مساوی تھے۔ یہ سب کانگریس کے دور حکومت میں ہوئے تھے۔ آپ نے کبھی کانگریس سے اس اشو پر بات نہیں کی؟

 

جواب:

ہم کبھی خاموش نہیں بیٹھے۔ جمعیت کے اجلاس اور عاملہ کی کارروائی اس کی شاہد ہے۔ لیکن آج یہ (کانگریسی) اسی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہم ان کے منہ پر سخت باتیں کہہ کر آتے تھے۔ وہ ہماری باتوں کو سنتے تھے۔ ہمارے کام کرتے بھی تھے۔ لیکن آج صورتحال برعکس ہے۔ آج ان کو (کانگریسیوں کو) عقل آئی ہے۔آج وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اقتدار میں آئے تو مذہبی آزادی دیں گے۔یہ موقف اسی مار کا نتیجہ ہے جو ان پر پڑی۔ کانگریس کا اصل نظریہ یہ نہیں تھا۔

 

سوال:

آپ کی قیادت میں جمعیت علماء مختلف متاثرین اور فرضی طور پر ماخوذ نوجوانوں کے مقدمات لڑ رہی ہے‘ بی جے پی حکومت کا دعوی ہے کہ ہمارے دور میں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔۔۔۔

 

جواب:

جن بنیادوں پر فساد ہوتا تھا فرقہ پرست ذہنیت انہی بنیادوں کو اجاگر کر رہی ہے۔ یہی تو تھے جو آگے بڑھ کر فساد کرتے تھے۔ وہ جو چاہتے تھے وہی ہورہا ہے تو فساد کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ماب لنچنگ کے واقعات نہیں ہوئے؟مسجدوں کے سامنے ہنگامہ آرائی اور اشتعال انگیزی نہیں ہوتی؟ اتنے واقعات ہونے کے بعد اب انہوں نے (انسداد ماب لنچنگ) قانون بنایاہے۔ فرقہ پرستی کی بنیاد پر جو فسادات کرائے جاتے تھے وہ ملک کی پالیسی کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔مسلمانوں کو مذہبی ‘ مالی اور جانی نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے۔ ہلدوانی اس کی تازہ مثال ہے کہ سات مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور 101 مسلمانوں کو ہی گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ بنگلور میں ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی گئی‘ مسلمانوں نے احتجاج کیا تو انہیں ہی گرفتار کرلیا گیا۔ پچھلے ڈھائی سال سے وہ جیلوں میں ہیں۔ہم 1072 افراد کے مقدمات لڑ رہے ہیں۔ 80 سے زیادہ ایسے ہیں جن کو سزائے موت ہوچکی ہے۔ ایک بڑی تعداد کو عمر قید ہوچکی ہے۔تاریخوں پر تاریخیں پڑ رہی ہیں۔

 

سوال:

کیا ان دس برسوں میں عدلیہ کا رویہ بھی کچھ تبدیل ہوا ہے‘ کیا مقدمات کے فیصل ہونے کی رفتار میں کچھ کمی آئی ہے؟

 

جواب:

پہلے ہماری بات سنی تو جاتی تھی۔آج تو ہماری بات سنی ہی نہیں جاتی۔ میں نے منموہن سنگھ کی وزارت عظمی کے دوران راہل گاندھی سے ملاقات کرکے بہت سخت لہجہ میں متاثرہ مسلمانوں کی داستان رنج والم سنائی تھی۔میں نے کہا تھا کہ کوئی مرجائے تو اہل خانہ کو کچھ وقت کے بعد سکون آجاتا ہے۔لیکن سینکڑوں مسلم نوجوان برسوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ان کے ماں باپ روتے روتے اندھے ہورہے ہیں۔میں نے کہا کہ ’دیش دروہ‘ یقیناً ایک بڑا جرم ہے۔لیکن آپ نے یہ کام پولیس کے حوالہ کر رکھا ہے۔آپ سبکدوش ججوں اور ممتاز افراد کی ایک کمیٹی بنادیجئے۔جب پولیس کسی کو ملک دشمن کہے تو اس کی فائل اس کمیٹی کو دیدی جائے۔اگر یہ کمیٹی تفتیش کے بعد کہہ دے کہ یہ الزام درست ہے تو آپ مقدمہ چلاکر اسے پھانسی پر چڑھادیجئے۔لیکن محض پولیس کے کہنے پر نوجوانوں کو دس دس اور بیس بیس سال تک بغیر مقدمہ چلائے جیلوں میں ڈالے رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ پولیس دوسو اور ڈھائی سو لوگوں کوگواہ بنالیتی ہے۔برسوں گواہیاں ہی نہیں ہوتیں۔راہل گاندھی نے ملک بھر کے ایسے متاثرین کی فہرست مانگی۔کسی کے پاس تفصیل ہی نہیں ملی۔ہم نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعہ یہ تفصیلات جمع کیں کہ جہاں کہیں بھی مسلمان ‘ملک سے غداری کے مقدمات میں ماخوذ ہوں وہ ہمیں تفصیلات بھیجیں۔ میں نےمکمل تفصیلات جمع کرکے راہل گاندھی کے حوالہ کردیں۔لوگ بیس بیس سالوں سے جیلوں میں بند تھے۔انہیں اتنی مکمل تفصیلات دیکھ کر حیرت ہوئی ‘میں نے کہا کہ میں نے اس پر جماعت کا لاکھوں روپیہ صرف کیا ہے۔راہل گاندھی نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ کریں گے۔کچھ دنوں کے بعد اس وقت کے نائب وزیر داخلہ نے مجھے بلاکر وعدہ کیا کہ وہ اس پر ضرور کار روائی کریں گے۔لیکن فرقہ پرستوں کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ کچھ ہی دن بعد ان کا محکمہ تبدیل کرکے انہیں اسپورٹس کا وزیر بنا دیا گیا۔

 

سوال:

آپ نے یہ کوشش مودی کے آنے کے بعد کیوں نہیں کی؟

 

جواب:

اس حکومت کا نظریہ واضح ہے۔ وہ بدل نہیں سکتا۔ اسی کی بنیاد پر تو وہ حکومت میں آئے۔ اگر اس حکومت کو واقعی متاثرہ مسلمانوں سے ہمدردی ہوتی تو کچھ کرنے کو دس سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ لیکن ہم وقتاً فوقتاً وزیر اعظم کو اس سلسلہ میں جمعیت کی پاس کردہ مختلف تجاویز بھیجتے رہے۔لیکن ادھر سے کوئی جواب تک نہیں آیا۔وزیر داخلہ کو بھی خطوط بھیجے گئے؛ لیکن خط موصول ہونے تک کی اطلاع نہیں آئی۔ ایسے میں وزیر اعظم سے ملنے کی کوشش کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا۔

Comments are closed.