ہندو لڑکی کی مسلم لڑکے شادی بنا مذہب تبدیل کئے غیرقانونی/ ہائیکورٹ 

اندور ( ذرائع) مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے مسلم نوجوان اور ہندو لڑکی کی شادی سے متعلق کیس میں اہم فیصلہ سنایا ہے۔ دونوں نے عدالت میں مذہب تبدیل کئے بغیر شادی رجسٹر کرنے اور پولیس تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس معاملے میں مسلم پرسنل ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے تبدیلی مذہب کے بغیر شادی کو غیر قانونی قرار دیا اور سیکورٹی دینے سے بھی انکار کر دیا۔ ہائی کورٹ کے جسٹس جی ایس اہلووالیا کی عدالت میں گزشتہ 7 دنوں سے اس عرضی کی باقاعدہ سماعت ہو رہی تھی۔ ہر طرف کے دلائل سنے گئے۔ درخواست گزارمسلم نوجوان اور ہندو لڑکی کی طرف سے ایڈوکیٹ دنیش اپادھیائے نے پیروی کی ۔ ایڈوکیٹ دنیش اپادھیائے نے کہا کہ انوپ پور کے رہنے والے مسلم نوجوان اور ہندو لڑکی نے اکتوبر 2023 میں کلکٹر کورٹ میں رجسٹرڈ شادی کے لیے درخواست دی تھی۔ لڑکی کے گھر والوں تک اطلاع پہنچ گئی اور دونوں کی شادی نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد لڑکی گھر سے بھاگ گئی اور نوجوان کے ساتھ رہنے لگی اور دونوں نے ہائی کورٹ کی پناہ لی۔ درخواست کے ذریعے سوشل میرج ایکٹ کے تحت شادی کروانے کی اپیل کی گئی تھی۔ ساتھ ہی خاندان والوں اور ہندو تنظیموں کی طرف سے دی جارہی دھمکیوں سے بچنے کے لیے پولیس تحفظ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ عدالت نے تحفظ دینے سے کیا انکار فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے مسلم پرسنل لاء ایکٹ کی بنیاد پر ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے کی بغیر تبدیلی مذہب کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا اور خصوصی تبصرہ کے ساتھ تحفظ دینے سے انکار کردیا۔ عدالت نے کہا کہ مسلم پرسنل لا کے مطابق ہندو لڑکی اور مسلم لڑکے کی شادی کے لئے مذہب کی تبدیلی ضروری ہے، لیکن اس معاملے میں لڑکی نے مذہب تبدیل نہیں کیا، اس لئے اس شادی کو درست نہیں مانا جا سکتا۔ عدالت نے سیکورٹی فراہم کرنے سے متعلق درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اسے نمٹا دیا ہے۔ دونوں کی شادی سے متعلق درخواست پر سماعت جاری رہے گی۔ بہرحال لڑکی کے والد نے عدالت میں اپنا فریق بھی پیش کیا جس میں کہا گیا کہ لڑکی گھر سے سونے اور چاندی کے زیورات لے گئی ہے۔ اس کے ساتھ لڑکی کے والد نے نوجوان پر اپنی بیٹی کو ورغلا کر اغوا کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔

Comments are closed.