Baseerat Online News Portal

تانا شاہوں کے لیے عبرت

 

شاداب انظاؔر

 

دنیا کی تاریخ میں کئی ایسے حکمران گزرے ہیں جنہوں نے اپنی انا اور تانا شاہی کے سبب نہ صرف اپنی حکومتوں کو برباد کیا، بلکہ اپنی قوموں کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ جب ایسے حکمران اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہیں، تو انہیں لگتا ہے کہ ان کی طاقت لافانی ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام کے دلوں میں جگہ بنائے بغیر کوئی حکمران زیادہ عرصے تک اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔ اقتدار کے نشے میں مست ہو کر وہ اپنی قوم کی ضرورتوں اور مشکلات سے غافل ہو جاتے ہیں، اور یہی غفلت ان کے زوال کا باعث بنتی ہے۔

 

آج دنیا بنگلہ دیش میں جاری بحران کو بڑی توجہ سے دیکھ رہی ہے، جہاں 15 سال سے حکومت کرنے والی حسینہ واجد اپنے ہی عوام کے غصے کا شکار ہیں۔ وہ عوام، جنہوں نے کبھی انہیں اقتدار میں لایا تھا، آج انہیں ٹھکرانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ حسینہ واجد کی موجودہ حالت ان تمام حکمرانوں کے لیے ایک عبرت کا نشان ہے جو اپنی انا اور غرور کو عوام کی بھلائی سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

 

بنگلہ دیش اس وقت ایک سنگین صورتحال سے گزر رہا ہے، اور یہ حقیقت دنیا کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ جو نقصانات اس ملک کو پہنچ رہے ہیں، چاہے وہ عوامی ہوں، مالیاتی ہوں، یا قومی اثاثوں کے ہوں، وہ سب انسانوں کی اپنی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔

 

کبریائی صرف اللّٰہ تعالیٰ کو زیبا ہے، کیونکہ وہ کبریائی کے لائق ہے۔ کبریائی صرف اللہ کو جچتی ہے کیونکہ وہ خالق و مالک ہے، اور وہی انسانوں اور مخلوقات کی نفسیات سے واقف ہے۔ جب انسان اپنی انا کی چادر اوڑھ کر اپنے آس پاس کے لوگوں اور ان کی ضروریات سے منہ موڑ لیتا ہے، تو اس کی زندگی بے معنی اور بیکار ہو جاتی ہے۔

 

حسینہ واجد کی مثال ہمیں یہی درس دیتی ہے۔ انہوں نے اپنی انا کی چادر اوڑھ لی تھی، جس نے آج انہیں بے پردہ کر دیا ہے۔ ایسی چادریں زیادہ دیر تک کسی بھی انسان کی حفاظت نہیں کرتیں؛ ایک وقت آتا ہے جب شرمندگی اور رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے، اور یہ جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں، وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ ان کی انا نے نہ صرف انہیں، بلکہ ان کے والد اور خاندان کو بھی ذلیل و رسوا کر دیا ہے۔ حالانکہ ان کے والد کا بنگلہ دیش کے قیام میں ایک اہم کردار تھا، لیکن انا کی چادر نے انہیں رسوا کر دیا اور ان کے ابا و اجداد کی بھی توہین کروادی۔

 

اگر حسینہ واجد نے اپنی انا کی چادر ہٹا کر اپنی عوام کے دکھ درد کا مداوا کیا ہوتا تو شاید آج وہ بنگلہ دیش کی حکومت پر بدستور قائم ہوتیں اور ایک بہترین مثال بن کر اس دنیا سے باعزت رخصت ہوتیں۔ وہی لوگ جو آج انہیں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر رہے ہیں، کل انہیں عزت و احترام سے رخصت کرتے اور ان کے نام کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھتے۔ لیکن آج ان کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کی اچھائیوں پر ان کی برائیاں غالب رہیں گی، کیونکہ اچھائیاں زیادہ دیر زندہ نہیں رہتیں اور برائیوں کو جلدی موت نہیں آتی۔

 

بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اپنی انا پرستی کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں۔ ایک چھوٹے سے مسئلے پر اٹھنے والے ہنگامے کو وہ شانت نہ کر پائیں، کیونکہ ان کی انا نے انہیں روکے رکھا۔ یہی انا پرستی، جسے ہم تانا شاہی بھی کہہ سکتے ہیں، ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ ان کے ملک کی عوام نے انہیں ان کی 15 سالہ تانا شاہی کا ایسا جواب دیا کہ آج وہ اپنے ہی ملک میں دوبارہ واپس آنے کے قابل نہیں رہیں۔

 

بنگلہ دیش کی عوام کی جدوجہد اور حسینہ واجد کا انجام تانا شاہوں کے لیے ایک سبق ہے کہ جب عوام اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے تو طاقتور سے طاقتور حکمران بھی زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔

Comments are closed.