مجلس کا داخلی خلفشار!

مجلس کا داخلی خلفشار!
نازش ہما قاسمی ( ممبئی اردو نیوز)
مہاراشٹر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مجلس اتحاد المسلمین ( اے آئی ایم آئی ایم ) کی داخلی کشمکش اور حالیہ خلفشار نے ریاست کی مسلم سیاسی قیادت پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ اسدالدین اویسی کی قیادت میں اے آئی ایم آئی ایم نے گزشتہ چند برسوں میں مہاراشٹر میں مسلم ووٹ بینک پر کافی اثر و رسوخ قائم کیا ہے ، لیکن حالیہ واقعات نے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے ۔ مجلس کے داخلی خلفشار کے پس منظر، اس کے ممکنہ نتائج، اور مسلم ووٹ بینک پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ دلچسپ ہے ۔ اے آئی ایم آئی ایم کے ممبئی دفتر میں پیر کے روز ہونے والی پریس کانفرنس ، جس میں مہاراشٹر کے صدر امتیاز جلیل نے شرکت کی ، شدید ہنگامہ آرائی کا شکار ہو گئی ۔ ممبئی کے صدر فیاض احمد کو ان کے عہدے سے ہٹانے اور ان کی جگہ رئیس لشکریہ کو مقرر کرنے کے بعد پارٹی کارکنان اور لیڈران کے درمیان شدید اختلافات ابھر آئے ۔ فیاض احمد خاں کے حامیوں نے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کو بی جے پی کی ’ بی ٹیم ‘ قرار دیا ، جو کہ پارٹی کے اندرونی خلفشار کو مزید بھڑکانے کا سبب بنا ۔ مہاراشٹر میں اے آئی ایم آئی ایم کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے یہ خلفشار نہ صرف پارٹی کے داخلی ڈھانچے کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ ریاست کے مسلم ووٹ بینک پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ فی الحال اے آئی ایم آئی ایم کے پاس مہاراشٹر اسمبلی میں دو نشستیں ہیں ، جو کہ اسدالدین اویسی کی قیادت میں پارٹی کی ایک بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن حالیہ واقعات نے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے ، جس سے مسلم ووٹروں میں مایوسی اور ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ اے آئی ایم آئی ایم نے مہاراشٹر میں مسلم ووٹ بینک کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے گزشتہ چند سالوں میں مسلسل کوششیں کی ہیں ۔ پارٹی نے مسلم مسائل کو اجاگر کرنے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے اور مسلم کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی ہے ۔ تاہم، داخلی خلفشار اور لیڈران کے درمیان اختلافات نے پارٹی کی ساکھ کو متاثر کیا ہے، جس کا براہ راست اثر مسلم ووٹ بینک پر پڑ سکتا ہے ۔ مسلم ووٹ بینک ہمیشہ سے مہاراشٹر کی سیاست میں ایک اہم عنصر رہا ہے ۔ اے آئی ایم آئی ایم نے اس ووٹ بینک کو حاصل کرنے کے لیے محنت کی ہے ، لیکن حالیہ خلفشار کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مسلم ووٹرز پارٹی کے ساتھ کھڑے رہیں گے یا نہیں ؟ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور قیادت کی کمزوریوں نے مسلم ووٹرز کو مایوس کیا ہے، جس سے دیگر سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے ۔ اے آئی ایم آئی ایم کے اندرونی خلفشار کے بعد، دیگر سیاسی جماعتیں، خصوصاً کانگریس، این سی پی، اور شیو سینا، مسلم ووٹ بینک کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوششیں مزید تیز کر سکتی ہیں ۔ ان جماعتوں نے ہمیشہ مہاراشٹر میں مسلم ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کام کیا ہے، اور اب وہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مسلم ووٹ بینک کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کریں گی ۔ کانگریس اور این سی پی، جو کہ مہاراشٹر میں ایک مضبوط سیکولر اتحاد کے طور پر جانی جاتی ہیں، اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔ اے آئی ایم آئی ایم کو اپنے داخلی مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آنے والے انتخابات میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کر سکے ۔ پارٹی قیادت کو اپنی ساکھ بحال کرنے اور مسلم ووٹ بینک کا اعتماد دوبارہ جیتنے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے ۔ امتیاز جلیل اور اسدالدین اویسی کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کو حل کیے بغیر وہ مسلم ووٹ بینک کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے ۔ مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات کے قریب، اے آئی ایم آئی ایم کا داخلی خلفشار پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔ پارٹی کی ساکھ کو بحال کرنے اور مسلم ووٹ بینک کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اگر اے آئی ایم آئی ایم اپنی قیادت کو مضبوط اور منظم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے ۔ بصورت دیگر، مسلم ووٹرز کا اعتماد کھو دینا پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ، جس کا فائدہ دیگر نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتیں اٹھا سکتی ہیں ۔ مہاراشٹر کی سیاست میں مسلم ووٹ بینک ہمیشہ سے ایک اہم عنصر رہا ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم اس چیلنج کا سامنا کیسے کرتی ہے ۔
Comments are closed.