وقف ترمیمی بل 2024 کسی صورت میں قابل قبول نہیں : آل انڈیا ملی کونسل

 

اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ میں منعقد وقف کانفرنس میں بل کے خلاف اہم تجاویز منظور

وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف ملی کونسل ملک گیر تحریک چلائے گی

پٹنہ ( پریس ریلیز)

آل انڈیا ملی کونسل بہار کے زیر اہتمام 25 اگست کو اے این سنہا انسٹی ٹیوت کے وسیع ہال میں وقف کی کی حفاظت اور وقف ترمیمی بل 2024 کے عنوان پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی ، جس کی صدارت ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کی ۔

کانفرنس کا آغاز مولانا محب اللہ عرفانی نائب امام جامع مسجد پٹنہ جنکشن کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ، جب کہ نعت نبی کا گلدستہ جناب مولانا فیضان احمدقاسمی صاحب نے پیش کیا ۔تجاویز مولانا محمد ابو الکلام شمسی جوائنٹ سکریٹری ملی کونسل بہار نے پیش کیا، خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے سجادہ نشیں نے اس موقع پر اپنا وقیع پیغام بھیجا جو ان کے نمائندہ قاری رمضان علی صاحب نے پڑھ کر سنایا، جبکہ مولانا نافع عارفی صاحب نے صدر مرکزی ملی کونسل حضرت مولانا عبید اللہ مغیثی کا پیغام ، مولانا رحمت اللہ عارفی نے جنرل سکریٹری مرکزی ملی کونسل جناب ڈاکٹر منظور عالم کا پیغام پڑھ کر سنایا، مولانا شافع عارفی نے زمین کے سروے کے سلسلہ میں ملی کونسل کی اپیل پڑھ کر سنائی ۔جنرل سکریٹری ملی کونسل بہار جناب مولانا ڈاکٹر عالم صاحب نے افتتاحی خطاب کیا اور وقف کی اہمیت اورحقیقت بیان کر نے کے ساتھ وقف ترمیمی بل 2024 کے تعلق سے خدشات کا اظہار کیا۔اجلاس کی نظامت مولانا مفتی نافع عارفی صاحب ، مولانا نور السلام ندوی اور مولانا محمد عالم صاحب نے مشترکہ طور پر کی۔

اس کانفرنس میں بہار کے مختلف پارٹیوں کے ایم پی ، ایم ایل اے ، ایم ایل سی کے علاوہ ، مختلف اضلاع کے علماء، دانشوران، تنظیموں کے ذمہ داران، سیاسی نمائندگان ، اوقاف کے متولیان ، اور خواص نے شرکت کی ۔وقف کانفرنس میں مقررین نے کھلے لفظوں میں اس مجوزہ وقف بل کی مخالفت کی اور اس بل کو اسلامی قانون ہی نہیں بلکہ دستور ہند کی دفعہ 14، 25،26 اور 29 کے خلاف قرار دیتے ہوئے حکومت سے اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا، کانفرنس کے شرکاء نے کھلے لفظوں میں ان لوگوں پر تنقید کی جو اس بل کی حمایت میں کھڑے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی کانفرنس کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ اس بل کےخلاف سینہ سپر ہیں اور اس کے لیے سڑک سے سنسد تک آواز اٹھائیں گے اور ملی کونسل ان کو جب جہاں آواز دے گی ،اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس بل کےخلاف ملی کونسل کی تحریک کو قوت بخشییں گے ، اس کانفرنس میں ملی کونسل نے یہ اعلان کیا کہ اس مجوزہ اوقاف بل کے خلاف پورے ملک میں اور بطور خاص بہار میں ملی کونسل بہار کی نگرانی میں تحریک چلائے گی اور اسی طرح کی کانفرنسیں ہر ضلع اور بلاک میں منعقد کرے گی۔ آل انڈیا ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یہ بل مسلمانوں کی املاک ہڑپنے کی ناپاک کوشش ہے اور دستور ہند میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق کے خلاف ہے ۔اس لیے اس بل کو ہم مسترد کرتے ہیں اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلا شرط وہ یہ بل واپس لے ، اگر یہ بل پاس ہو گیا تو آل انڈیا ملی کونسل دوسری ملی جماعتوں اور ہم نوا سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ملک گیرپیمانے پر تحریک چلائے گی اور یہ تحریک اس وقت جار ی رہے گی جب تک کہ بل واپس نہ لے لیا جائے ۔ کانفرنس میں شریک تمام مقرروں نے بیک آواز اس بات کا اعادہ کیا کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 ملک کی سالمیت کے لیے خطرناک ہے ۔اس کانفرنس میں مجوزہ بل کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل تجاویز باتفاق منظور کی گئیں اسٹیج پر موجود رہنماؤں اور سامعین نے ا ن تجاویز کی تائید ہاتھ اٹھا کر کی ۔

تجاویز

(1) شریعت اسلامی میں وقف کو خاص اہمیت حاصل ہے، وہ صدقہ کی دوامی قسم ہے، اوراللہ کو نہایت محبوب ہے، اسلامی قانون میں اس کے اصول وضوابط متعین ہیں، جس سے انحراف وقف کے مقصد کوختم کردیتا ہے، موقوفہ جائیداد کے سلسلے میں واقف کے منشاء اور مقصد کی رعایت قانون اسلامی کے اعتبار سے از حد ضروری ہے۔واضح ہو کہ وقف کی جائیدادیں حکومت کی ملکیت نہیں ہیں،بلکہ مسلمانوں کی اپنی ملکیت والی جائیدادیں ہیں،جسے انہوں نے مذہبی اوررفاہی کاموں کے واسطے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے وقف کیا۔ وقف بورڈ اورمتولی صرف اس کے نگراں اورمحافظ ہیں،انہیں اس میں واقف کے منشاکے خلاف تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

(2) آل انڈیاملی کونسل بہارکی اس کانفرنس کااحساس ہے کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء سے وقف جائیدادوں کی حفاظت کے بجائے اس پر قبضہ کرنے والوں کی راہ ہموار ہوگی،اس لیے یہ کانفرنس حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے، کہ وہ بلا شرط اس بل کو واپس لے۔

(3) کانفرنس کا احساس ہے کہ اس بل نے وقف کی تعریف،متولی اورواقف کی حیثیت بدل دی ہے،اس مجوزہ بل میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ واقف کا کم ازکم پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔یہ تجویزوقف کرنے والوں کو ان کے مذہب پر چلنے سے روکتی ہے،بلکہ دستورہند کے منافی بھی ہے۔اسی طرح اس بل میں وقف بورڈوں اورٹریبونل کے اختیارات کو کم کر کے کلکٹر کے حوالہ کیا گیا ہے اورممبران کے اضافے کے نام پر سنٹرل وقف کونسل اوروقف بورڈوں کے ممبروں میں غیرمسلموں کی لازمی شمولیت کے ذریعہ وقف بورڈ کی حیثیت عرفی متاثرکرنے کی کوشش کی گئی ہے،جو ناقابل قبول ہے۔ یہ تجویز دستورہند کی دفعہ 25,26,29اور14/سے متصادم ہے، جو اقلیتوں کو اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی اورثقافتی ادارے قائم کرسکتے ہیں اوراسے اپنے اندازمیں اوراختیار سے چلا بھی سکتے ہیں۔

(4) مجوزہ بل میں بحیثیت استعمال اورزبانی وقف کو ختم کردیا گیا ہے، جب کہ اسلامی قانون اوقاف میں اس کا اہم مقام ہے، اور اسے وقف ایکٹ 1995ء میں اہمیت دی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ لمبے عرصے تک بحیثیت وقف استعمال کی جگہ مسجد، درگاہ یا قبرستان بھی وقف تسلیم کی جائے گی چاہے وہ وقف کی حیثیت سے رجسٹرڈ نہ ہو،اسی طرح زبانی وقف سے وقف کا ہوناضروری ہے۔لہٰذا اسے حذف کرنا نہ صرف اصول وقف کی خلاف ورزی ہے،بلکہ ناجائزقبضہ کرنے والوں کے لیے وقف املاک پر قبضہ برقراررکھنے کا ایک مؤثر ہتھیار بھی ہے۔ اس طرح ایسی ہزاروں مسجدیں،قبرستان، درگاہیں،مدرسے جو صدیوں سے استعمال ہو رہے ہیں،یازبانی وقف ہیں ان پرغیر قانونی قبضوں کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔

(6) یہ کانفرنس ملک کی تمام پارٹیوں کے پارلیامنٹ کے اراکین بالخصوص جے پی سی کے ممبران سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس بل کو واپس کرنے کی سفارش کریں اورہرگز اس بل کو اس طرح پاس نہ ہونے دیں۔

(7) یہ کانفرنس مسلمانان ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اوقاف کی حفاظت اورواقف کے منشاء کے مطابق اس کا نظم ونسق کے لیے پورے طورپر مستعد رہیں،اورہرگز وقف کی جائیدادوں کو کسی ناجائز قبضہ کرنے والے کے ہاتھوں میں نہ رہنے دیں۔اس وقت صوبہ بہارمیں زمینوں کا سروے شروع ہو چکا ہے،اس لیے یہ کانفرنس تمام مسلمانوں سے اوربطورخاص اوقاف کے متولیوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ سروے میں مستعد رہیں،اور اپنی ذاتی زمینوں کے ساتھ ساتھ مسجدوں،مدرسوں، خانقاہوں، مزاروں اورقبرستانوں کا سروے ٹھیک ڈھنگ سے کرائیں اور اوقاف کی جائیدادوں کو کیفیت کے خانے میں مسجد، مدرسہ،مسلم قبرستان، مزار، خانقاہ وغیرہ جیسی کیفیت ہو اس میں درج کرائیں۔

(8) آل انڈیا ملی کونسل وقف کی حفاظت وترقی اورمجوزہ بل 2024ء کی خامیوں کی نشاندہی اوراس کی واپسی کے لیے پوری ریاست میں تحریک چلائے گی،اس لیے یہ کانفرنس ہر بستی اورشہر کے محلوں کے علماء مدارس،ائمہ،متولی اورذمہ داروں سے یہ کانفرنس اپیل کرتی ہے کہ وہ پوری طرح اس مہم میں شامل ہوں اورمسلمانوں کو وقف کے بارے میں پوری طرح بیدار کریں۔

اس کانفرنس میں مسلمانوں اور بطور خاص اوقاف کے ذمہ داروں ، متولیوں اور وقف کمیٹیوں کے اراکین سے اپیل کی کہ بہار میں جاری سروے کے سلسلہ میں پوری مستعدی کا مظاہرہ کریں ، اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تساہلی سے کام نہ لیں ،اپنی ذاتی اور اوقاف کی زمینوں ، مسجدوں ، مدرسوں ، خانقاہوں ، مزاروں اور مسلم قبرستان کا سروے پوری توجہ سے کروائیں اور زمین کی نوعیت کے خانے میں مسجد ، مدرسہ ، خانقاہ ، مزار اور مسلم قبرستان ضرور درج کروائیں ، اس کانفرنس میں مختلف میڈیا ہاؤس کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ملی کونسل بہار نے اس موقع پر وقف ترمیمی بل 2024ا ور 1995 کے وقف ایکٹ کے تقابل اور تجزیہ پر مشتمل مولانا سید محمد عادل فریدی سکریٹری ابو الکلام ریسرچ فاؤنڈیشن کی ترتیب کردہ تحریر بھی کتابی شکل میں کانفرنس کے لوگوں کے لیے مہیا کرایا ۔اسی طرح مفتی ابو نصر ہاشم ندوی اور مولانا نجم الہدیٰ قاسمی کا مرتب کردہ رسالہ وقف کے احکام و مسائل سامعین کے درمیان تقسیم کیا گیا۔

پروگرام میں شرکت کرنے والی اور اظہار خیال کرنے والی اہم شخصیات میں جناب پپو یادو ایم پی پورنیہ، سداما پرساد ایم پی آرہ(مالے)، اختر الایمان ایم ایل اے(اے ایم آئی ایم) ، انظار نعیمی ایم ایل اے (راجد)، اظہار الحسین ایم ایل اے (کانگریس)، ڈاکٹر خالد انور ایم ایل سی(جدیو) ، قاری صہیب صاحب ایم ایل سی(راجد)، یوسف صلاح الدین ایم ایل اے (راجد)، اظہار احمد سابق ایم ایل اے، امام غزالی نمائندہ ایل جے پی(چراغ پاسوان)، ارشاد علی آزاد سابق چیئر مین شیعہ وقف بورڈ بہار،مولانا ناظم صاحب جمعیۃ علماء بہار(م)، ڈاکٹر فیض احمد قادری جمعیۃ علماء (الف) ،پروفیسر توقیر احمد سابق وی سی مظہر الحق یونیورسٹی، مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی نائب صدر ملی کونسل بہار، پروفیسر یونس حکیم سابق چیئر میں اقلیتی کمیشن بہار، مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی نائب صدر ملی کونسل بہار، ڈاکٹر انوار الہدیٰ ، جمعیۃ علماء بہار، راغب احسن ایڈووکیٹ، خورشید عالم ایڈووکیٹ، سید فخر عالم مظاہری سجادہ نشیں خانقاہ دمڑیا بھاگل پور، افضل حسین رابطہ ،خورشید احسن صاحب اسلامیہ بی ایڈ کالج پھلواری شریف، نجم الحسن نجمی رکن عاملہ ملی کونسل ،زاہد حلیمی بھاگل پور، مولانا قاسم ندوی مغربی چمپارن، مکھیا شفیع اللہ سوپول،مفتی سہیل احمد قاسمی، سید سیف اللہ قادری ، سید عزیز الحسن ، ظفیر احمد کٹیہار، محمد سلام الحق بہار شریف ، پروفیسر سعید احمد پٹنہ یونیورسٹی ، عرفان سعیدی دربھنگہ، مولانا ظل الرحمن قاسمی سہرسہ ، ایوب نظامی ،مولانا ضیاء اللہ رحمانی سوپول، سید ابو تمیم سمستی پور،سید قدر ت اللہ بہار شریف، مولانا خالد ندوی دہلی ، پروفیسر منصور مظفر پور ، قاری آفتاب عالم چھپرہ، اسلم مظاہری جہان آباد، مفتی فردوس حلیمی بھاگل پور، انوار الحسن وسطوی ویشالی،پروفیسر ابو الکلام آزاد پٹنہ یونیورسٹی، مولانا سعد قاسمی امام جامع مسجد پٹنہ جنکشن،پروفیسر شمس الحسین ، ڈاکٹر نور اسلام ، مطلوب حسین چھپرہ ،ڈاکٹر ذیشان اسلام فاروقی دربھنگہ،مفتی زاہد حسین قاسمی مدھے پورہ ، نعمت اللہ ہمارا سماج، وجیہ القمر فلاحی مدھوبنی، یوسف فریدی سمستی پور،مولانا قمر عالم ویشالی ، مولانا سعد قاسمی مشرقی چمپارن، ایڈووکیٹ کاشف یونس، نور الدین خان گیا، شمشیر صاحب گیا، مولانا افتخار احمد نظامی ، محمد جابر مظاہری امام اگزبیشن روڈ، رفعت عثمانی بیگو سرائے، قاری ارمان بیگو سرائے، شاداب عالم بیگو سرائے، ظاہر حسین دربھنگہ، اسلم رحمانی ، صہیب رحمانی مظفر پور،عطاء الرحمن مظفر پور، نواب عتیق الزماں پٹنہ،شوکت علی پٹنہ، قاری انور پھلواری شریف ،محمد اسامہ امام الباقی مسجد وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔

اجلاس کو کامیاب بنانے والو ں میں مولانا ابو نصر ہاشم ، مولانا مفتی جمال الدین قاسمی ، مولانا فیضان احمد ، مولانا رضاء اللہ قاسمی ،مولانا نسیم اختر، ڈاکٹر سہیل احمد ،انجینئرنجیب الرحمن ، انجینئرمحفوظ الرحمن ، نجم الہدیٰ قاسمی، حافظ خالد سعید، قمر عالم، اعجاز نبیل وغیرہ کے علاوہ پھلواری شریف اور سبزی باغ کے نوجوانوں نے بھر پور تعاون کیا۔

Comments are closed.