گورنمنٹ سوریہ نارائن پلس 2 اسکول نرپتی نگر کی ہیڈ مسٹریس غزالہ یاسمین کی ریٹائرمنٹ پر الوداعیہ تقریب، غزالہ یاسمین کی تدریسی خدمات نے مجھے حددرجہ متاثر کیا، وہ اساٹذہ کے لئے مشعل راہ رہیں: ماسٹر کشف الدجی لڈن

جالے:محمد رفیع ساگر /بی این ایس)ایس ایم ہائی اسکول بسیٹھا کی سابق انچارج ہیڈ مسٹریس و گورنمنٹ سوریہ نارائن +2 اسکول نرپتی نگر مدھوبنی کی موجودہ ہیڈ مسٹریس غزالہ یاسمین ہفتہ کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہی سرکاری بندشوں سے آزاد ہو گئیں۔ معلوم ہو کہ وہ طویل مدت تک بطور اسسٹنٹ ٹیچر اور تقریباً 20 سالوں تک انچارج ہیڈ مسٹریس کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے اسی سال مارچ ماہ کے 4 تاریخ کو مستقل ہیڈ مسٹریس کے عہدہ پر ترقی حاصل کر ہائی اسکول نرپتی نگر مدھوبنی میں سروس جوائن کی اور 31 اگست کو اسی اسکول سے سبکدوش ہو گئیں۔اس موقع پر منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ غزالہ یاسمین نے کہا کہ کسی آفس یا تعلیمی ادارے کا ہیڈ ہونا اور اس کی ذمہ داری کو بحسن وخوبی پائے تکمیل تک پہونچانا اپنے آپ میں کسی چیلینج سے کم نہیں ہے لیکن ہر چیلنج بھرے کام کو انجام تک ایک انسان ہی پہونچاتا ہے کوئی جادوگر نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سونچ میں لچیلاپن اور عملی پہلو مضبوط ہوتو ہر چیلنج بھرے کام کو بخوبی انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔جب میں نے بسیٹھا ہائی اسکول میں انچارج ہیڈ مسٹریس کا عہدہ سنبھالی تو سب سے پہلے اپنے اسسٹنٹ ٹیچروں ،طالب علموں گارجین اور انتظامیہ کمیٹی کے ممبران کے مدد سے اس ادارے کے خامیوں کو معلوم کرنے کی کوشش کیا اور آخیر تک حددرجہ کو شش کر کے ان خامیوں کو دور کردیا۔ عزالہ یاسمین کے سبکدوشی کے موقع پر ایس ایم ہائی اسکول بسیٹھا کے معاون ٹیچر کشف الدجیٰ عرف لڈن نے کہا کہ اپنے اسکول میں پہلی مرتبہ سروس جوآئن کرنے کے بعد عزالہ یاسمین کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے عہدے کا کبھی غلط استعمال نہیں کی اور نہ ہی جان بوجھ کر کسی بھی ملازم کو نقصان پہنچائی۔انہوں نے کہا کہ جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے زندگی کو کسی نہ کسی طرح سے گزار کر ہی جاتا ہے مگر وہ لوگ عظیم ہے جن کی زندگی مشعل راہ کا کام کرتی ہے اور ان میں سے ایک تھی محترمہ غزالہ یاسمین جس کے ساتھ میں نے سروس کی لمبی مدت میں کبھی اپنے آپکو اکیلا پن محسوس نہیں کیا۔
غور طلب ہو کہ محترمہ غزالہ یاسمین مرحوم پروفیسر شمس الضحیٰ نظرا بسیٹھا کی بیٹی ہیں اور مرحوم ساجد سابق مکھیا گڑری کی چھوٹی بہو ہیں ۔
Comments are closed.