پیارے نبی ؐ کا بچپن بچوں کے لیے بہترین نمونہ ہے

ڈاکٹرسراج الدین ندوی
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور،یوپی
9897334419
پیارے نبی ؐ کی ذات گرامی ہم سب کے لیے جان سے زیادہ محترم و مکرم ہے۔آپ ؐ کی شان عظمت پر قرآن مجید گواہ ہے۔آپ کی رافت و رحمت اور خلق عظیم کی گواہی خود خالق کائنات نے دی ہے۔آپؐ کی نبوت تمام انسانوں کے لیے ہے۔آپ ؐ آخری نبی ہیں۔آپؐ کو شب معراج مسجد اقصیٰ میں انبیاء کی امامت کا شرف حاصل ہے۔المختصر آپ بے مثال ہیں۔بقول شاعر:
جہاں میں آپؐ ہی اک بے مثال ہیں ورنہ
کوئی کسی کی طرح ہے کوئی کسی کی طرح
آپ ؐ کواللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے’’اسوہ‘‘ بنایا ہے۔اسوہ وہی ذات قرار پاسکتی ہے جو نقص سے پاک ہو،جس کا ہر عمل اور جس کی ہر ادا خیر و فلاح پر مبنی ہو۔تمام انسانوں کے لیے وہی اسوہ ہوسکتا ہے جس نے زندگی کے جملہ نشیب و فراز دیکھے ہوں۔یعنی اس پر بچپن،لڑکپن،جوانی اور بڑھاپے کا دور آیا ہو۔وہ کبھی تنگ دست اور کبھی خوش حال رہا ہو۔وہ کبھی بیمار ہوا ہو،اسے کبھی قیدو بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑی ہوں،اس نے کبھی جنگ میں دشمنوں کا سامنا کیا ہوتو کبھی صلح نامے پر دستخط کیے ہوں،وہ کسی کا باپ،کسی کا بیٹا اور کسی کا شوہر رہا ہو۔اگر آپ سیرت مبارکہ کے اوراق پلٹیں گے تو آپ کو اس کتاب میں زندگی کا ہر ورق نظر آئے گا۔میں سمجھتا ہوں جتنے انسان دنیا سے چلے گئے اور جتنے آنے والے ہیں،ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے اور نہ ہوگا جو کھڑا ہوکر کہے:۔’’میں اس وقت جس حال میں ہوں اس میں پیارے نبی ؐ نہیں رہے۔‘‘
آپؐ امت کے بڑوں اور بزرگوں کے لیے بھی اسوہ ہیں،آپ جوانوں کے لیے بھی نمونہ ہیں اور آپ بچوں کے لیے بھی رول ماڈل ہیں۔آپؐ کی سیرت کے ہر پہلو پر سیرت نگاروں اور مورخوں نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ کوئی انسان اپنی پوری زندگی میں ان تحریروں کی ورق گردانی بھی نہیں کرسکتا۔ہر زبان میں لکھا گیا،ہر ملک میں لکھا گیا۔نثر نگاروں نے نثر میں آپ کے مناقب و فضائل بیان فرمائے،خطیبوں نے گھنٹوں آپؐ کی حیات مبارکہ پر خطاب کیا اور نعت گوشعراء نے نظم میں آپ کی شان رسالت کو قلم بند کیا۔مگر آپ کی سیرت ایسی ہے کہ جب جب سامنے آتی ہے متاثر کرتی ہے،آپ سے محبت میں اضافہ کرتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ آپ کا تذکرہ ہوتا رہے اور ہم سنتے رہیں،ہمارے پر لگ جائیں اور ہم اڑ کر مدینہ پہنچ جائیں۔
آپ ؐ قریش کے معزز قبیلہ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد گرامی کا نام عبداللہ تھا۔یہ وہی عبداللہ ابن عبدالمطلب تھے جن کی وفات آپ ؐ کی پیدائش سے چھ ماہ قبل ہوچکی تھی۔یعنی آپ یتیمی کی حالت میں دنیا میں تشریف لائے تھے۔آپ ؐ کے یتیم و نادار ہونے کا تذکرہ خود قرآن مجید کیا گیا ہے۔
أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَیٰ (6) وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدَیٰ (7) وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَأَغْنَیٰ (8)
’’کیا اس نے تمہیں یتیم نہ پایا پھر ٹھکانہ دیا۔اور اس نے تمہیں بے راہ پایا تو راہ راست دکھائی۔اور اس نے تمہیں حاجت مند پایا تو غنی کر دیا۔‘‘
سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپؐ کی پیدائش کے ساتھ ہی کائنات میں ایک عجیب قسم کی روشنی محسوس کی گئی۔کعبے کے بت سجدے میں گر گئے۔وادئی مکہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔اہل خاندان خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔غریبوں کو کھانے کھلائے گئے۔ابولہب نے اپنی باندی ثوبیہ کو آپؐ کی خدمت کے لیے آزاد کردیا۔آپؐ کی والدہ آمنہ آپؐ کے روئے تاباں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتیں،آپ ؐ کو بار بار چومتیں،دادا عبدالمطلب سینے سے لگاکر سکون و اطمینان محسوس کرتے،اس لیئے کہ انھیں اپنے عبداللہ کا جگر گوشہ اور وارث مل گیاتھا۔
عرب کے دستور کے مطابق بچوں کو دایہ پالتی تھیں۔قرب و جوار کی دایہ ہر سال مکہ آتیں اور بچوں کو گود لے جاتیں،وہ گاؤں کے ماحول میں پرورش پاتے،دایہ کا دودھ پیتے۔آپ ؐ کی پیدائش کے بعد بھی بہت سی دایہ مکہ آئیں۔سب نے مالدار گھرانوں کے بچوں کو گود لے لیا۔محمدؐ چونکہ یتیم تھے اس لیے کوئی گود لینا نہیں چاہتی تھی۔وہ سوچتی تھی کہ اس یتیم کی پرورش سے اس کو کیا ملے گا۔مگر یہ سعادت تو دائی حلیمہ کے نصیب میں لکھی تھی۔انہیں جب کوئی بچہ نہیں ملا تو انھوں نے بادل ناخواستہ اسی ’’در یتیم‘‘ کو گود لے لیا۔خالی ہاتھ واپس جانے سے تو یہ یتیم ہی بہتر تھا۔مگر بنو سعد کی اس خاتون کو کیا معلوم تھا کہ اس کے نصیب میں جو بچہ آیا ہے وہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے نصیبے بنانے والاہے۔حلیمہ سعدیہ کا اپنا بیان ہے کہ میری اونٹنی بہت لاغر تھی،مکہ آتے وقت وہ بہت پیچھے رہ جاتی تھی،مگر واپسی میں اس کی رفتار دیکھ کر ہم سفر خواتین رشک کرتی تھیں،اور پوچھتی تھیں ’’اے حلیمہ کیا یہ وہی اونٹنی ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ میں بھی کمزور تھیں،میرا اپنا بچہ دودھ پیتا تھا،میرا دودھ اس کو پورا نہیں ہوتا تھا مگر محمد ؐ کے آنچل میں آتے ہی میرا دودھ اتنا بڑھ گیا کہ دونوں بچے سیراب ہوکر پی لیتے تھے اور دودھ میری چھاتی میں موجود رہتا تھا۔میرے گھر کے بام و در آپؐ کے چہرہ انور سے روشن ہوگئے تھے۔اندھیرے میں آپؐ کا چہرہ مثل ماہتاب چمکتا تھا۔آپ ؐ کی آمد سے حلیمہ کے گاؤں کا قحط دور ہوگیا،سوکھے تالاب لبریز ہوگئے۔بکریاں سات سے بڑھ کر سات سو ہوگئیں،ان کے تھنوں میں دودھ کا دریا جاری ہوگیا۔ آپ چار پانچ سال کی عمر تک حلیمہ سعدیہ کے یہاں رہے۔اس دوران وہ آپ کو ہر سال مکہ لاتیں اور اہل خانہ سے ملاقات کراکے لے جاتی تھیں۔
آپؐ بچپن سے بہت ہونہار تھے۔نفاست پسندی آپ ؐ کے مزاج میں تھی۔کھیل کود میں آپؐ کا دل زیادہ نہیں لگتا تھا۔آپ بچپن سے ہی سچ بولتے تھے۔بڑوں کا احترام کرتے تھے۔اپنے ہم جولیوں سے محبت سے پیش آتے تھے۔اپنے رضاعی بھائی بہنوں کے ساتھ بکریاں چرانے جاتے اور ان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے۔رضاعی ماں اور ان کے بچوں یہاں تک ان کے خاندان و قبیلہ والوں سے بھی آپ ؐ نے احسان کا سلوک کیا۔غزوہ حنین میں بنو سعد کے کچھ قیدی گرفتار ہوگئے تو آپ نے ان کو بلا کسی معاوضہ کے آزاد کردیا۔ان کا سامان بھی واپس کردیا اور کہا کہ یہ میری ماں کے قبیلہ والے ہیں۔حلیمہ سعدیہ جب آپ سے ملنے آتیں تو آپ ؐ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے،امی امی کہہ کر ان کے سینے سے لگ جاتے،اسی طرح آپ ؐ کی رضاعی بہن شیما جب آپ ؐ سے ملنے آئیں تو آپ ؐ ان کو بہت سا مال دے کر رخصت کیا،اسی حسن سلوک کی بنا پر حلیمہ کا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔
اللہ کے منصوبہ کے مطابق آپؐ نبی بنائے جانے والے تھے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی تربیت خاص انداز سے فرمائی تھی۔اس کا واضح ثبوت شق صدر کے واقعہ سے ملتا ہے۔آپؐ کے ساتھ یہ واقعہ حلیمہ سعدیہ کے یہاں قیام کے دوران پیش آیا۔حدیث کی مختلف کتابوں میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ درج ذیل الفاظ میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔
’’انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچپن میں ایک دن لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ آپ کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے۔ اُنہوں نے آکر آپ کو پکڑا اور زمین پر لٹا دیا۔ پھر آپ کا سینہ چاک کیا، دل کو باہر نکالا اور اُس میں سے خون کا ایک لوتھڑا نکال کر پھینک دیا اور کہا کہ یہ آپ کے دل میں شیطان کا حصہ تہا۔پھر جبرئیل علیہ السلام نے آپ کے دل کو ایک سونے کے طشت میں رکھ کر آب زم زم سے دھویا، اس کے بعد دل سیا اور اُسے سینے میں اُس کی جگہ پر رکھ دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ بچے دوڑتے ہوئے آپ کی رضاعی والدہ کے پاس آئے اور کہا: محمد کو قتل کر دیا گیا ہے۔گھر والوں نے یہ سنا تو آپ کے پاس دوڑے آئے۔ چنانچہ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سینے پر سِلائی کے نشانات دیکھے ہیں۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ)
آپؐ پر بچپن سے نبوت کی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں تھیں۔مگر اس کو دیکھنے کے لیے جس چشم بصیرت کی ضرورت تھی وہ اہل مکہ کے پاس نہیں تھی کیوں کہ ان کے یہاں چار ہزار سال سے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ؑ آخری نبی تھے جو وادئی مکہ میں آئے تھے۔اس لیے نبی،پیغمبر اور رسول ان کے یہاں زیر بحث نہیں تھے۔البتہ یہودیوں اور عیسائیوں کے یہاں نبیوں کا ایک سلسلہ موجود تھا۔ان کی کتابوں میں آخری نبی کی بشارتیں اور نشانیاں تھیں۔وہ اس کے منتظر تھے۔چنانچہ بحیرہ راہب نے جب آپ کو دیکھا تو پہچان لیا۔تاریخ و سیرت کی کتابوں میں اس تعلق سے جو واقعہ ملتا ہے وہ حسب ذیل ہے۔
اس وقت آپؐ کی عمر 12 سال تھی۔ ایک دفعہ آپؐ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کے تجارتی سفر پر روانہ ہوئے۔ شام پہنچ کر بصریٰ میں پڑاؤ ڈال دیا۔بصریٰ ایک بڑا شہر تھا۔ وہاں بحیرہ نامی ایک راہب تھا۔ اس کے گرجا گھر کے پاس ہی ایک سایہ دار جگہ تھی قریشی تاجر جب بھی بصریٰ جاتے وہیں اس درخت کے نیچے ٹھہر جاتے۔ یہ قافلہ بھی اسی جگہ ٹھہرا۔ کوئی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ایک شخص بحیراراہب کا پیغام لے کر آیااور کہا کہ آپ لوگوں کو محترم راہب نے کھانے پر مدعو کیا ہے۔ قافلے کے لوگ اس عزت افزائی پر حیران ہو گئے۔ ہر حال میں دعوت قبول کر لی گئی اور قاصد کی رہنمائی میں اہل قافلہ روانہ ہو گئے۔ مگر محمدؐ نہیں گئے، کیونکہ آپؐ اس وقت بچے تھے۔ بحیرا نے سب کا استقبال کیا اور کہا کہ آج آپ سب میرے مہمان ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم سب میرے ساتھ کھانا کھاؤ اور کوئی بھی باقی نہ رہ جائے۔ اہل قافلہ بولے کہ ہم سب آگئے ہیں۔راہب نے دوبارہ سوال کیا کہ کوئی باقی تو نہیں رہا ہے؟ قافلہ والوں نے جواب دیا۔ایک بچہ باقی ہے وہ ہمارے سامان کی دیکھ بھال کررہا ہے۔ وہ ابھی چھوٹا بھی ہے۔بحیرا نے کہا کہ بچہ ہے تو کیا ہوا اسے بھی بلا لو۔ اس بات پر اہل قافلہ ایک بار پھر حیران ہوئے۔ پھر قاصد گیا اور محمد ؐ کو ساتھ لے آیا۔ بحیرا کی نظریں رسولؐ پر جمی رہ گئیں، وہ ٹکٹکی لگائے آپ ؐ کو دیکھتا ہی رہا۔ کھانا کھانے کے بعد لوگ ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔ بحیرا آپؐ کے پاس آیا اور آپ سے ذاتی نوعیت کے مختلف سوالات کیے۔آپؐ سب کا جواب دیتے رہے۔ اتنے میں ابو طالب آگئے تو بحیرا نے ان سے کہا کہ اس بچہ سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟ ابو طالب نے کہا کہ ’’یہ میرابیٹا‘ہے‘ بحیرا ہڑبڑا کر بولا:۔’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تمہارا بیٹا نہیں۔ اس لڑکے کا باپ زندہ ہو، ممکن نہیں ہے‘‘۔ راہب کی بات سن کر چچا ابو طالب دنگ رہ گئے۔ ابو طالب نے کہا کہ ہاں یہ میرا بھتیجا ہے۔ بحیرا نے کہا کہ ’’اور اس کا باپ‘‘؟
ابو طالب بولے:’’ابھی یہ پیدا نہیں ہوا تھا کہ اس کے باپ کا انتقال ہو گیا۔‘‘بحیرا نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔ اپنے بھتیجے کو گھر لے جاؤ اور یہودیوں سے بچا کر رکھنا، خدا کی قسم اگر انہوں نے اسے دیکھ لیا اور جس حد تک میں نے پہچان لیا ہے اگر وہ پہچان گئے تو اس کی جان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ تمہارا یہ بھتیجا ایک عظیم انسان بنے گا۔پھر وہ واپس ہو گیا اور زیرلب کہتا جا رہا تھا کہ ’’میرا اندازہ بالکل صحیح نکلا‘‘۔
آپ ؐ شرم و حیاء کے پتلے تھے۔صحیح بخاری میں حضرت سعید بن خدری ؓ کا بیان ہے کہ ’’حضور اکرم ﷺ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔‘‘ آپ کے بچپن کا واقعہ ہے۔اس وقت آپ کی عمر سات آٹھ سال رہی ہوگی۔اہل مکہ کعبہ کی تعمیر کررہے تھے۔قریش کے سب بچے پتھر اٹھا کر لارہے تھے۔جس کی وجہ سے ان کے کاندھوں پر نشان پڑ گئے تھے۔آپ ؐ کے چچا نے جب یہ دیکھا تو آپ کی تہہ بند کھول کر قریش کے دیگر بچوں کی طرح آپ کے کاندھے پر رکھ دی تاکہ بھاری پتھر سے آپ کو تکلیف نہ پہنچے۔مگر جیسے ہی آپ کا ازار کھلا آپ بے ہوش ہوگئے۔
آپ لہو لعب کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔اس کے بجائے آپ بہت سنجیدہ رہتے اور ہر وقت کائنات کا مشاہدہ فرماتے رہتے۔اگر کبھی آپ کو کچھ دوست ایک دو بارکسی کھیل کود کی محفل میں لے بھی گئے تو آپ کو جاتے ہی وہاں نیند آگئی۔آپ بچپن سے ہی بہادر اور جری تھے۔جب آپ کی عمر چھ سال تھی تو آپ کی والدہ کا انتقال مدینہ سے واپسی میں راستہ ہی میں ہوگیا تھا۔اس کے باوجود آپ بے خوف رہے اور اپنے نانیہالی رشتہ داروں کے ساتھ مکہ آگئے۔
آپ ؐ کا بچپن بھی ہمارے لیے نمونہ ہے۔آپ کے بچپن سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ حقیقی والدہ کے ساتھ ساتھ رضاعی والدہ سے کس طرح محبت کی جاتی ہے،رضاعی بھائی بہنوں کا کس قدر خیال رکھاجاتا ہے۔شق صدر سے دل کو صاف رکھنے کی تعلیم ملتی ہے۔ازار کھلنے پر آپ کے بے ہوش جانے سے یہ نصیحت ملتی ہے کہ ہمیں کسی بھی حال میں شرم و حیاء کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔
آ ج ہمارے بچے دینی تعلیم سے دور ہوگئے ہیں۔والدین بھی اپنی مصروفیات میں سے ان کی تربیت کے لیے وقت نہیں نکالتے۔نصاب تعلیم سے بھی انبیاء و صلحاء کے واقعات نکال دیے گئے ہیں۔موبائل کی لعنت نے بچوں سے نہ صرف ان کا بچپن چھین لیا ہے بلکہ ان سے مطالعہ کی عادت بھی ختم کردی ہے۔ان حالات میں ضروری ہے کہ ائمہ مساجد اور امت مسلمہ کے خیرخواہان نئی نسل کو اپنے قریب کریں،ان کی کوئی انجمن بنائیں اور روزانہ نہ سہی ہر ہفتہ دینی معلومات پر مبنی پروگرام منعقد کریں تاکہ آج کے بچے نبی اکرم ﷺ کی سیرت،صحابہ کی زندگیوں اور اسلامی تعلیمات سے آشنا ہوسکیں۔
Comments are closed.