غزہ پر اسرائیل کا وحشیانہ حملہ تاریخی مظالم کے تمام حدود کو پار کر گیا ہے، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا اسرائیل کے زوال اور فلسطین کی ناگزیر فتح کی پیشین گوئی

 

نئی دہلی(محمد علم اللہ) اسرائیل نے غزہ پر اتنے بم برسائے ہیں کہ وہ چار ناگا ساکی میں گرائے ایٹم بموں سے بھی زیادہ ہیں۔ تقریبا۴۰ ہزار لوگ مار دیے گئے ہیں، ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں ۔ غزہ کا سارا انفراسٹرکچر تہس نہس کردیا گیا ہے اور ستر فیصد عمارتیں تباہ کر دی گئی ہیں۔ چھ سو سے زیادہ مساجد شہید کردی گئی ہیں۔ دسیوں چرچ ،یہاں تک کہ دنیا کے قدیم ترین چرچ کوبھی بموں کا نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے درندگی کی سرحدوں کو پار کر دیا ہے۔ غزہ کے لوگوں کے ساتھ جس قسم کا رویہ یہ لوگ اپنا رہے ہیں وہ ہٹلرکے ان کے ساتھ سلوک سے بھی زیادہ خطرناک اور دلدوز ہے۔ لیکن کامیابی اہل فلسطین کو ملے گی اور ظالم تباہ و برباد ہوں گے کیوں کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ وہ دن دور نہیں ہے جب اسرائیل کا خاتمہ ہوگا اور نبیوں کی سرزمین ان کے ناپاک وجود سے پاک ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار معروف دانشور، محقق، مترجم قرآن پاک اور مشرق وسطیٰ کے ماہر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے دہلی میں منعقدہ ایک خصوصی اجتماع میں ، جس کا انعقاد جماعت اسلامی ہند نے ابوالفضل انکلیو میں واقع اپنے مرکزی آڈیٹوریم میں ’’فلسطین کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے امکانات‘‘ موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ ہر جگہ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ فلسطین اور غزہ والے’’مستضعف ‘‘( کمزور) ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بالکل بھی کمزور نہیں ہیں، بلکہ کمزور وہ ہیں، جو محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔دراصل او آئی سی کے ۵۸ ممبرمسلم ممالک کمزور ہیں جنھوں نے اس صورت حال پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ کوئی ایک بڑا مسلم ملک بھی اگر سامنے آتا تو صورت حال دوسری ہوتی۔

ڈاکٹر خان نے تاریخی حوالوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اسرائیل کا قیام کیوں عمل میں آیا۔ یہ صرف اس لیے نہیں بنا کہ اس میں یہودی رہنا چاہتے تھے۔ وہ تو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ میں ان کو بہت مراعات ملی ہوئی تھی۔ وہ شام، فلسطین، عراق، مغربی افریقہ ،یورپ ہر جگہ موجود تھے۔ ہندوستان میں انھیں اچھی جگہ ملی ہوئی تھی، پوری دنیا میں انھیں ایک مقام حاصل تھا۔ لیکن اہل مغرب بہت دنوں سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ عالم عرب اور مسلم علاقے ان کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے اس کے لیے بہت کوششیں کیں کہ اس پر فتح حاصل کر لیں جیسے صلیبی جنگیں اور سلطنت عثمانیہ سےان کی طویل لڑائیاں لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی۔ خود نپولین نے اس علاقے پر حملہ کرکے مصر کو فتح کیا ، پھر وہ فلسطین کے راستے سے ترکی تک جانا چاہتا تھا لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔ اس دورا ن اس نے فلسطین کے معروف شہر عکا ، کا تقریبا چھے مہینےمحاصرہ کیا لیکن اس کو فتح نہیں کرپایا اور واپس لوٹ گیا اور وہیں سے اس کا زوال شروع ہوا۔ عکا کے حصار کے دوران نپولین نے سنہ 1802 میں دنیا کے یہودیوں کو خطوط لکھے جس میں اس نے ان سے کہا کہ آؤ فلسطین میں بسو اور یہاں مغرب کے لیے دیوار بنو۔

ڈاکٹر خان نےبرطانیہ کے بالفور معاہدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض برطانیہ کا نظریہ نہیں تھا بلکہ تقریبا تمام بڑے یوروپین ملکوں نے پہلی جنگ عظیم کے دوران، جب سلطنت عثمانیہ کا بکھرنا طے نظر آرہا تھا ،اس طرح کے سرکاری بیان دئے تھے جن میں آسٹریا، فرانس، جرمنی ، اٹلی وغیرہ شامل تھے۔ لیکن جنگ کے بعد فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوا تو یہ منصوبہ اسی نے پورا کیا ورنہ کوئی دوسرا یوروپین ملک یہ کام انجام دیتا۔ برطانیہ نے سارے اصول اور قوانین کو توڑ کر یہودیوں کے فلسطین میں بسنےکی راہ ہموار کی ، سرکاری زمینیں ان کو مفت میں دیں اور ان کو فلسطین میں ’’ہاگانا‘‘ نام کی فوج بھی بنانے دی جو بعد میں اسرائیل کی فوج بن گئی۔

اسرائیل کے بننے کے بعد سے ہی سارے مغربی ممالک کی پالیسی رہی ہے کہ اسرائیل بذات خود اتنا طاقت ور ہو کہ تمام عرب ممالک مل کر بھی اس کو شکست نہ دے سکیں۔ پورے مغرب کی یہ پالیسی ہے کہ عربوں کو ایسا اسلحہ نہ دیا جائے جو اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکے۔ لیکن اب منظر نامہ بدل رہا ہے۔ کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ دشمن پریشان ہے۔ خصوصا ایران اور ترکی نے اس حوالے سے کافی ترقی کر لی ہے اور اب دنیا کے بہترین اسلحے بنارہے ہیں۔ حزب اللہ اور حماس جیسی تنظیمیں ایک مضبوط طاقت کے طور پر ابھری ہیں جو اسرائیل کو آنکھیں دکھا رہی ہیں۔

اسرائیل اور اس کے مغربی مؤیدین سازشی لوگ ہیں ۔ انھوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے، مسلم تنظیموں اور اداروں کو ایسے نام دیے جس سے لوگ ان سے متنفر ہوجائیں ۔ اپنے حق کی خاطر لڑنے والوں کو انھوں نے دہشت گرد اور بنیاد پرست جیسے القاب سے نوازا۔ یہی نہیں بلکہ فرضی ناموں سے تنظیمیں بنائیں اور اس پر مسلمانوں کا نام چسپاں کر دیا تاکہ انھیں بدنام کیا جائے۔ حوثی اور القاعدہ جیسے نام انھیں کے دیے ہوئے ہیں۔ پورے مغرب کی یہی پالیسی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سارے عرب ممالک کے مقابلے میں اسرائیل مضبوط ہو جائے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔’’مزاحمتی کیمپ ‘‘ (جبہۃ الرفض) میں شامل ممالک کو، یعنی عراق، ایران، سوڈان، شام، یمن اور لیبیا ،جو ان کی بات نہیں سنتے ، توڑنے اور تباہ کرانے کی کوشش کی گئی اور اس کے پکے شواہد موجود ہیں۔امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے ٹیلیگرام میں یہ بات موجود ہے ،جو اب بھی انٹرنٹ پر مل جائے گا، کہ اسرائیل مخالف عرب طاقتوں کو توڑنا ضروری ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس میں انھیں پوری کامیابی نہیں ملی ہے۔آج بھی یہ ممالک اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں ۔ مزید برآں الجہاد الاسلامی، حزب اللہ ، حماس ، الحشد الشعبی اور لبنان کی الجماعۃ الاسلامیۃ جیسی طاقتور نئی تنظیمیں ابھری ہیں جو ان کے قبضے میں نہیں ہیں۔انھوں نے بہت حربوں سے عربوں کو رام کرنا چاہا جیسے نام نہاد امن معاہدے کی گردان اور ابراہام ایکارڈ کو تھوپنے کی کوشش لیکن یہ سب کامیاب نہیں ہوا۔ اور اب غزہ کی تاریخی مزاحمت کے بعد برسوں کوئی اس کی ہمت نہیں کرے گا۔

ڈاکٹر خان نے کہا کہ کہاں حماس کے ۳۰ ہزار اور الجہاد الاسلامی کے دس ہزار مجاہدین اور کہاں بزعم خود دنیا کا پانچواں سب سے طاقتور ملک جو امریکہ سمیت متعدد مغربی ملکوں کی پوری مدد کے باوجود غزہ کو شکست نہیں دے سکا۔ غزہ کے مجاہدین گیارہ ماہ سے ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ اسرائیل کو شکست دے چکے ہیں۔ عرب ممالک کی کئی جنگیں اسرائیل سے ہوئی ہیں لیکن اسرائیل کے سامنے عرب ممالک کی بڑی بڑی فوجیں پوری طرح ناکام ہوئیں اور ان کی جنگیں چند دن سے زیادہ نہیں چل سکیں جبکہ نہتا غزہ پوری تباہی کے باوجود آج بھی لڑ رہا ہے۔اسرائیل اور امریکہ اپنی شرائط پر جنگ بندی چاہتے ہیں جبکہ حماس اپنی شرطوں پرڈٹا ہے۔

آثار بتا رہے ہیں کہ اب بالفور معاہدہ ختم ہوگا۔ اب یہ سب مان رہے ہیں کہ اس علاقے کچھ نیا ہونے والا ہے۔ اسرائیل نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔پچھلے اکتوبر کے بعد سے کم از کم پانچ لاکھ اسرائیلی ملک چھوڑ کر باہر جاچکے ہیں ان میں وہ سائنسداں ، علماء اور پروفیسرز شامل ہیں جن کی وجہ سے اسرائیل کو تفوق حاصل ہے ۔ خود اسرائیلی کہہ رہے ہیں کہ اب اسرائیل کے خاتمے کا دن قریب ہے۔ اسرائیلی محققین کہہ رہے ہیں کہ تاریخ میں ان کی کوئی حکومت اسی (۸۰)سال سے زیادہ قائم نہیں رہی ہے۔ اب اسرائیل میں یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا ان کی موجودہ حکومت بھی ۸۰ سالوں میں ختم ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ ۱۹۴۸ میں قائم ہونے والے اسرائیل کی عمر ۲۰۲۷ میں اسی (۸۰) سال ہوجائے گی۔

ڈاکٹر خان نے کہا کہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۴ سے قبل کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ حماس اتنے دنوں تک اسرائیل کے سامنے کھڑا رہے گا لیکن حماس آج بھی مضبوطی سے لڑرہا ہے جبکہ اسرائیل پاگل کتے کی طرح توڑ پھوڑ اور قتل عام کی حرکتیں کر رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے اکثر ممالک اور تقریبا ساری دنیا کے عوام اس کے خلاف ہوگئے ہیں۔ آج بین الاقوامی کورٹ میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ درج ہے اور اب اسرائیلی لیڈروں کی بیرون ممالک میں گرفتاری کی بھی بات ہو رہی ہے۔ جنوبی افریقہ اسرائیل کے خلاف مقدمہ عالمی عدالت میں لے گیا ہے اور اب ان کے ساتھ تقریبا ۱۲؍ اورممالک اس مقدمے میں اسرائیل کے خلاف پارٹی بن چکے ہیں ۔ بین الاقوامی عدالت نے غزہ کی جنگ کے بارےمیں اسرائیل کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ صرف مغربی ممالک میں تقریبا ۱۵ ؍ہزار عوامی احتجاجات ہوئے ہیں اور اب بھی مستقل ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی ۴۴؍ یونیورسٹیوں میں اسرائیل اور اس کو امریکی تایید کے خلاف احتجاج جاری ہے ۔ لوگ ہر جگہ کہہ رہے ہیں، بہت ہو گیا اب بند کرو یہ تماشہ۔ اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونے والوں میں افریقہ اور جنوبی امریکہ کے بہت سے ممالک ہیں جن میں سے کچھ نے اپنے سفارتی تعلقات اسرائیل سے توڑ لئے ہیں اور کچھ نے اپنے سفراء اسرائیل سے واپس بلا لئے ہیں ۔

ڈاکٹڑ خان نے کہا اب صورت حال ایسی بن چکی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی رائے عامہ کو جواب دیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ آج اسرائیل اکیلا کھڑا ہے۔ اسرائیل جنگ ہار چکا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح امریکہ کو اس میں راست طور پر اس میں شامل کر کےشکست کو فتح میں تبدیل کرلے جبکہ امریکہ نے واضح کردیا ہے کہ وہ اسرائیل کا دفاع تو ضرور کرے گا لیکن اسرائیل کے ساتھ مل کر دوسروں پر حملوں میں نہیں شریک ہوگا۔ خود امریکہ میں یہ مسئلہ سیاست کا ایک بڑا ایجنڈہ بن گیا ہے اور اب اسرائیل کو وہاں بھی پہلے جیسے تایید نہیں ملنے والی ہے۔ آج امریکہ کے علاوہ دنیا میں کوئی حکومت اسرائیل کے ساتھ نہیں کھڑی ہے۔ سروے رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ ٹرمپ جیسے سر پھروں کی حکومت نہیں بننے والی ہے اور ایسا صرف غزہ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے کیونکہ لوگ اسرائیل کو اندھی تایید کرنے والے ٹرمپ جیسے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے ۔

ڈاکٹر خان نے مستقبل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جلدہی فلسطینیوں کو مکمل کامیابی ملے گی۔ انھوں نے قرآ ن پاک (سورہ اسراء، آیات ۴۔۸) کے حوالے سے واضح کیا کہ اللہ پاک نے تاریخ میں بنی اسرائیل کو تین موقعے دئے ۔ سرکشی وجہ سے دوبار پہلے ان کو تباہ کیا جاچکا ہے۔ پہلی بار ان کو نبوخدنصر (۵۹۷ قبل مسیح) نے اور پھر دوسری بار رومن جنرل ٹائیٹس (۷۰ عیسوی) نے ان مکمل طور پر تباہ کیا ۔ اللہ پاک نے ان کو یہ وارننگ دے دی کہ اگر تم پھر سرکشی کی ساری حدود پار کرجاؤگے تو اللہ پاک پھر تیسری بار بھی تمہارا وہی حشر کریں گے۔ اسرائیلیوں نے پچھلے گیارہ مہینوں میں غزہ میں جو بربریت اور سرکشی کی ہے ، اس کے بعد لگتا ہے کہ الہی سزا کا وقت آچکا جس کے بعد ان کو دنیا میں دوبارہ پنپنے کا موقعہ نہیں دیا جائے گا۔ اشارے بتارہےہیں کہ اسرائیل کا تیسرا خاتمہ جلد ہی ہونے والا ہے.

Comments are closed.