آسام کے وزیر اعلی کی طرف سے پھیلائے جانے والے فرقہ وارانہ منافرت کو روکا جانا چاہئے: ایس ڈی پی آئی

نئی دہلی(پریس ریلیز) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ آسام حکومت نے ایک انتہائی جمہوریت و انسانی حقوق کے خلاف کارروائی میں 9خواتین سمیت 28مسلمانوں کو حراستی مراکز میں بھیجا ہے جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہیں غیر ملکیوں کے ٹریبونلز(FT) نے انہیں غیر ملکی قراردیاہے۔ ان لوگوں کو ضلع کے مختلف حصوں سے بارپیٹا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے دفتر بلایا گیا اور انہیں ایک بس میں بٹھا کر حراستی مرکزبھیج دیا گیا۔ غیر ملکی قراردیے گئے تمام افراد کا تعلق بنگالی مسلم کمیونٹی سے ہے۔ یہ کارروائی ان میں سے ایک کی طرف سے ایک سوشیل میڈیا پوسٹ کے بعدہوئی ہے۔ ریاستی حکومت کے ذریعہ اس پوسٹ کو قابل اعتراض پایا گیا ہے۔ایس ڈی پی آئی حکومت کے اس اقدام کی سخت مذمت کرتی ہے، جس کا مقصد کسی مخصوص کمیونٹی کو ان کے مذہب کی بنیاد پر آئینی اور انسانی حقوق سے انکار کرنا ہے۔ ان متاثرین کی نظر بندی آسام کے وزیر اعلی ہمانتا بسوا شرما کے اس بیان کے بعد ہوئی ہے کہ وہ فریقین کا ساتھ دیتے رہیں گے اور "میاں مسلمانوں "کو ریاست پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ آسام کے وزیر اعلی کا واضح مسلم مخالف موقف کسی مقصد کو پورا نہیں کرتا بلکہ پہلے سے ہی فرقہ وارانہ طور پر غیر مستحکم ریاست کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی مزید ہنگامہ خیز صورتحال میں بدل دیتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ آسام کے وزیر اعلی کے قول وفعل جو فرقہ وارانہ منافرت اور نسلی جذبات کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں، ان پر روک لگائی جائے اور آسام میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بحال کی جائے۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شر ف الدین احمد نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کرتے ہوئے اعلی عدلیہ بشمول سپریم کورٹ سے التماس کیا ہے کہ بے سہارا لوگوں کی ابتر صورتحال کے پیش نظر ملک میں انسانی اور بنیادی حقوق کی محافظ ہونے کے ناطے آسام کے وزیر اعلی کا غیر سنجیدہ رویہ، سیاسی انتقام اور فرقہ وارانہ توہین کو روکنے کے لیے فوری طور پر سو موٹو suo moto ایکشن لے۔
Comments are closed.