ملک میں گزشتہ دس سالوں سے پسماندہ طبقات، دلتوں، قبائلیوں اور اقلیتوں کے لیے ماحول ناسازگار بنادیا گیا ہے: ایس ڈی پی آئی

 

نئی دہلی۔(پریس ریلیز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) نے ملک کے موجود حالات سے متعلق اخباری میڈیا سے تبادلہ خیال کرنے کیلئے 12ستمبر 2024 دوپہر12بجے نظام الدین ویسٹ میں واقع پارٹی مرکزی دفتر میں ایک پریس کانفرنس بلایا۔ پریس کانفرنس میں ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد، قومی جنرل سکریٹری الیاس محمد تمبے اور قومی سکریٹری فیصل عز الدین موجود تھے۔ قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایس ڈی پی آئی ملک میں اٹھائی جانے والے غیر جمہوری اقدامات کا گہرائی سے مشاہدہ کررہی ہے اور آئینی اقدار کے خلاف اٹھائے جانے والے ان اقدامات کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اور بیداری کے پروگراموں کا انعقاد کرتی آرہی ہے۔ ملک میں پچھلے دس سالوں سے کمزور طبقات، اقلیتوں، قبائلیوں، دلتوں کے لیے ناسازگار ماحول ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے لیے حالات نہایت سنگین اور مشکل ترین بناد یئے گئے ہیں۔قانون سازی کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا اور انہیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرنا بن گیا ہے۔ جو آئینی مینڈیٹ کے برعکس ہے۔ مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں کی پالیسی واضح طور پر امتیازی رہی ہے جس میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے۔ لنچنگ کے ذریعے فوری انصاف کو ملک میں مقبول بنا دیا گیا ہے اور قانون کی حکمرانی کو بڑے پیمانے پر بے پرواہ اور بے اثر چھوڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے عصمت دری کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ایس ڈی پی آئی قومی جنرل سکریٹری الیاس محمدتمبے نے پریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلڈوزر کا استعمال عام طور پر مسلمانوں کی املاک کو بغیر کسی مناسب عدالتی عمل کے نشانہ بنانا، یو پی،اتراکھنڈ، ایم پی، گجرات اور راجستھان میں بی جے پی حکومت کی طاقت کی مطلق العنان علامت ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریباً سات لاکھ پچاس ہزار ہندوستانیوں کو ان کی رہائش گاہوں سے زبردستی بے دخل کیا گیا ہے، مختلف ریاستوں میں تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار مکانات اور جھونپڑیوں کو مسمار کیا گیاہے۔ بابری مسجد کے انہدام کے سزا سے استشنی ملنے پر دہلی سمیت سیکڑوں سالوں سے کئی مقامات پر موجود مساجد کو زمین بوس کر دیا گیا ہے۔

ریزرویشن کے کوٹہ کی ذیلی زمرہ بندی کے معاملے کو دوبارہ کھولنے کے بعد، مرکزی حکومت نے سیاسی اور نظریاتی طور پر مسائل کو قالین کے نیچے سے اٹھانے کی عادت کے مطابق، سماجی انصاف سے ملک کے اجتماعی ضمیر کی توجہ ہٹانے کے لیے جولائی 2024 میں لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل۔ جو فی الحال مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے زیر التوا ہے عجلت میں پیش کیا ہے۔ SDPI نے وقف ترمیمی بل – 2024 کی دفعات کے ساتھ ساتھ در پردہ مقصد کا بھی بخوبی مطالعہ کیا ہے۔

٭۔ شروع میں، یہ کہا گیا ہے کہ بی جے پی نے پارٹی کے منشور (2009) کی خلاف ورزی کی ہے تاکہ ملک میں وقف کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کے رحمن کی قیادت والی بی جے پی رپورٹ کی سفارشات کو لاگو کیا جاسکے۔، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے پچھلے دو ادوار میں اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیا تھااور اب اپنی سیاسی مجبوریوں کے تحت وقف کے حالات میں بہتری کی آڑ میں وقف کے نظام سے مسلم کمیونٹی کو پہنچنے والے فوائد چھیننا اورمسلم کمیونٹی کے اثاثوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔

٭۔یہ کہ ایک طویل عرصے سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان میں وقف کا وجود سیکولر اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسے ہٹا دیا جانا چاہیے۔ ایک رائے یہ ہے کہ بی جے پی نے ان متعصب عناصر کو خوش کرنے کے لیے، سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے متنازعہ بل کو پیش کیا ہے۔

٭۔یہ کہ موجودہ قوانین اور این ڈی اے حکومت کے پیش کردہ بل کے محض تقابلی جائزہ سے، بل کی دفعات کی تعداد کے پیش نظر یہ امتیازی سلوک ظاہر ہوتا ہے جو عام اصولوں کے ساتھ ساتھ ملک کے طے شدہ قانون سے واضح طور پر متصادم ہیں۔

٭۔یہ کہ وقف کا ادارہ ایک ایسا کار آمد فلاحی ادارہ ہے جو ذات پات اور برادری سے بالاتر ہوکر خدمت خلق کے عظیم مقصد کی خدمت کرتا ہے اور اس ادارے کے فروغ کے لیے تمام کوششیں کی جانی چاہئیں تاکہ اس کو نام نہاد اکثریتی مہم کے تحت کمزور نہ کیا جائے۔

٭۔یہ کہ یہ احترام کے ساتھ مزید یاد دلایا جاتا ہے کہ وقف کا مقصد ہمیشہ عوامی افادیت اور انسانیت کا فائدہ رہا ہے۔ خیرات دینے میں نہ ہی فرقہ پرست ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ ہے۔

٭۔یہ کہ ہمارے ملک نے ایک طویل عرصے میں اس موضوع پر قابل ستائش طور پر بہت موزوں اور مضبوط قانون نافذ کیا ہے لیکن سیاسی ارادے کی کمی کی وجہ سے، حقیقی اطلاق کا ہمیشہ فقدان رہا ہے جس کے نتیجے میں ہندوستان میں وقف کے انتظام میں خراب حالات پیدا ہوئے ہیں۔

قومی سکریٹری فیصل عزا لدین نے اختتام میں کہا کہ ایس ڈی پی آئی ملک میں مسلمانوں کے خلاف بی جے پی حکومت کی نفرت انگیز مہم پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ حال ہی میں آسام میں بارپیٹا ضلع سے 19 مسلم مردوں اور 9 مسلم خواتین کو گولپارہ ضلع کے ‘ٹرانزٹ سینٹر’ میں بھیجا گیا ہے۔ انہیں مقامی ٹریبونل نے ‘غیر ملکی شہری’ قرار دیا ہے۔ آسام میں بی جے پی حکومت کا یہ انتقامی اور مذموم اقدام انصاف کے ساتھ انتہائی دھوکا ہے کیونکہ حکومت نے ان لوگوں کو عدالت سے انصاف حاصل کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کا دعویٰ ہے کہ ہر ہندوستانی شہری کو انصاف کی عدالت سے انصاف حاصل کرنے کے حقوق اور مراعات حاصل ہیں۔

Comments are closed.