Baseerat Online News Portal

نئے جموں و کشمیر صوبے کے اسمبلی کے انتخابات

 

تحریر : مظاہر حسین عماد قاسمی

 

18 ستمبر ، 25/ ستمبر اور 1 اکتوبر 2024 کو کل تین مرحلوں میں نوے رکنی جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہورہے ہیں، 90 ممبران کو منتخب کرنے کے لیے ہونے والے ہیں ۔ 8/ اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی کی جائے گی اور نتائج کا اعلان بھی 8/ اکتوبر 2024 کو ہی کیا جائے گا۔

کشمیر اسمبلی کے یہ انتخابات دس سالوں کے بعد ہورہے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ہورہے ہیں

2019 میں جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے اور اس کی ریاستی حیثیت واپس لینے کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے، کل اٹھارہ ستمبر کو چوبیس نشستوں پر ووٹنگ ہے، پچیس ستمبر کو چھبیس اور یکم اکتوبر کو بقیہ چالیس ننشستوں پر ووٹنگ ہوگی –

 

*دو ہزار چودہ کے نتائج*

2014 کے جموں اور کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 25 نومبر سے 20 دسمبر 2014 تک پانچ مرحلوں میں منعقد ہوئے تھے ،

اور دو ہزار چودہ کے کشمیر اسمبلی انتخابات میں سابق مرکزی وزیر داخلہ مفتی سعید مرحوم کی جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو کل اٹھائیس نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور اسے سات نشستوں کا فائدہ ہوا تھا، اور وہی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی، ان اٹھائیس نشستوں میں پچیس نشستیں کشمیر وادی سے اور تین جموں سے تھیں، اس وقت کشمیر وادی کی کل نشستیں چھیالیس اور جموں کی کل نشستیں سینتیس تھیں، لداخ میں صرف چار نشستیں تھیں ، اب لداخ جموں کشمیر کا حصہ نہیں ہے،

دوسرے نمبر پر بھارتیہ جنتا پارٹی تھی اسے کل پچیس نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور اسے چودہ نشستوں کا فائدہ ہوا تھا،اور یہ تمام نشستیں جموں سے تھیں،

تیسرے نمبر پر فاروق عبد اللہ کی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس تھی اسے کل پندرہ نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور اسے تیرہ نشستوں کا نقصان ہوا تھا، اور اس کی کانگریس کے ساتھ مشترکہ سرکار ختم ہوگئی تھی،

چوتھے نمبر پر انڈین نیشنل کانگریس تھی اسے کل بارہ نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور اسے پانچ نشستوں کا نقصان ہوا تھا، اور اس کی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے ساتھ مشترکہ سرکار ختم ہوگئی تھی،

دیگر پارٹیوں کو صرف سات نشستیں ملی تھیں،

 

*دو ہزار چوبیس کے اسمبلی انتخابات کا پس منظر*

پچھلے اسمبلی انتخابات نومبر-دسمبر 2014 میں ہوئے تھے۔ انتخابات کے بعد، جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتحاد نے ریاستی حکومت بنائی ، مفتی محمد سعید وزیر اعلیٰ بنے ، اس وقت

 

وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کا انتقال 7 جنوری 2016 کو ہوا۔ گورنر راج کے مختصر عرصے کے بعد، مفتی محمد سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر کی اگلی وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔

 

*جموں کشمیر اسمبلی کی تحلیل اور صدر راج*

جون 2018 میں، بی جے پی نے پی ڈی پی کی زیرقیادت حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی ، اور اس کے بعد جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا ،

نومبر 2018 میں ریاستی اسمبلی کو جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے تحلیل کر دیا تھا ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بہت سی سیاسی جماعتوں نے گورنر کو خط لکھ کر حکومت بنانے پر آمادگی ظاہر کی تھی ، صدر راج 20 دسمبر 2018 کو نافذ کیا گیا تھا ۔

 

*آرٹیکل 370 کی منسوخی اور ریاست کی تنظیم نو*

2019 میں، ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370 ،(جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا) کو منسوخ کر دیا گیا تھا اور جموں و کشمیر کی تنظیم نو کا ایکٹ منظور کیا گیا تھا ، اور اس نئے ایکٹ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو جموں کشمیر اور لداخ کے نام سے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تبدیل کردیا گیا، اور یہ ایکٹ 31 اکتوبر 2019 سے نافذ العمل ہے، اور اب لداخ 31 اکتوبر 2019 سے جموں کشمیر کا حصہ نہیں ہے،

 

*جموں کشمیر اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی*

مارچ 2020 میں، جموں اور کشمیر کی یونین ٹیریٹری کی حد بندی کے لیے ایک تین رکنی حد بندی کمیشن تشکیل دیا گیا، جس کی سربراہی ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کر رہے تھے۔ کمیشن نے فروری 2022 میں اپنی عبوری رپورٹ شائع کی تھی ۔ حد بندی کے بعد، اسمبلی کی کل نشستیں بڑھ کر 114 ہوگئیں، جن میں سے 24 نشستیں ان علاقوں کے لیے مختص کی گئی ہیں جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آتے ہیں ، باقی 90 سیٹوں میں سے 43 سیٹیں جموں ڈویژن اور 47 سیٹیں کشمیر ڈویژن میں ہیں، حتمی حد بندی رپورٹ 20 مئی 2022 سے نافذ العمل ہے- جموں ڈویژن میں سات سیٹیں بڑھی ہیں جب کہ کشمیر میں ڈویژن میں صرف ایک سیٹ بڑھی ہے،

 

 

*آرٹیکل 370 کی منسوخی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ*

11 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کو آئینی طور پر برقرار رکھا اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو حکم دیا کہ جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 30 ستمبر 2024 سے پہلے کرائے جائیں –

 

*درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے ریزرویشن*

پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل 2023 کو منظور کر لیا جس میں درج فہرست ذاتوں کے لیے 7 نشستیں اور درج فہرست قبائل کے لیے 9 نشستیں ریزرو کی گئی ہیں۔

 

 

*پارٹیاں اور اتحاد*

*انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس*

جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس ، انڈین نیشنل کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے درمیان اتحاد کا اعلان 22 اگست 2024 کو کیا گیا تھا، جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس چھپن (56) اور انڈین نیشنل کانگریس نے اڑتیس ( 38) نشستوں پر امیدوار اتارے ہیں، پانچ نشستوں پر ان دونوں پارٹیوں کے درمیان فیصلہ نہیں ہو سکا اور وہاں ان کا دوستانہ مقابلہ ہوگا،

ایک ایک نشست پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) اور

جموں و کشمیر نیشنل پینتھرس پارٹی (انڈیا) کے لیے چھوڑ دی گئی ہے،

 

*نیشنل ڈیموکریٹک الائنس*

جموں کشمیر اسمبلی انتخابات 2024 کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کل باسٹھ نشستوں پر امیدوار اتارے ہیں، بی جے پی نے وادی کشمیر کی اٹھائیس نشستوں پر امیدوار نہیں اتارے ہیں

 

*جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی*

جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے اب تک تریسٹھ نشستوں پر امیدواروں کا اعلان کیا ہے، اس پارٹی کی لیڈر سابق وزیر اعلی جموں کشمیر محبوبہ مفتی ہیں

 

*دیگر پارٹیاں*

الطاف بخاری کی جموں و کشمیر اپنی پارٹی نے اب تک ساٹھ نشستوں پر امیدواروں کا اعلان کیا ہے ،

سابق کانگریسی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی نے اب تک تیرہ نشستوں پر امیدواروں کا اعلان کیا ہے

عام آدمی پارٹی نے اب تک سات نشستوں پر امیدواروں کا اعلان کیا ہے

سجاد غنی لون کی جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس

محمد حسین پیڈر کی جموں و کشمیر عوامی تحریک

خالدہ بیگم کی جموں و کشمیر عوامی نیشنل کانفرنس

بہوجن سماج پارٹی اور انجینئر رشید کی جموں و کشمیر عوامی اتحاد پارٹی بھی میدان میں ہیں،

 

*انجینئر رشید اور جماعت اسلامی*

انجینئر رشید کو جماعت اسلامی کی کشمیر کی حمایت حاصل ہے ، جماعت اسلامی کشمیر نے 1987 سے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر رکھا تھا ، اس سے وہ قبل انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہے، اور بعض انتخابات میں اس کے کچھ ارکان کامیاب بھی ہوئے ہیں، ایک اطلاع کے مطابق جماعت اسلامی کے ارکان بطور آزاد پانچ نشستوں پر اور انجینئر رشید کی پارٹی سے وابستہ افراد پچیس نشستوں پر الیکشن لڑ رہے ہیں، نتیجہ کیا ہوگا یہ تو آٹھ اکتوبر 2024 کو معلوم ہوگا، مگر آج کی حقیقت یہ ہے کہ انجینئر رشید کشمیر کے ایک بڑے اور مقبول لیڈر ہیں اور جماعت اسلامی کی حمایت نے ان کی مقبولیت میں چار چاند لگادیے ہیں،

 

*انجینئر رشید مشتبہ مگر مشہور لیڈر*

ستاون سالہ انجینئر رشید لنگیٹ اسمبلی حلقے سے دو ہزار آٹھ میں بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور اسی حلقے سے دو ہزار چودہ میں اپنی پارٹی عوامی اتحاد پارٹی کے ٹکٹ پر دو بارہ کامیاب ہوئے تھے، دو ہزار چوبیس کے لوک سبھا انتخاب میں جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے الیکشن لڑا اور انہوں نے دو لاکھ چار ہزار ایک سو بیایس ووٹوں کی اکثریت سے سابق مرکزی وزیر اور سابق وزیر اعلی جموں کشمیر عمر عبد اللہ کو ہراکر بے پناہ شہرت حاصل کی ہے،

انجینئر رشید کو کل 472481 ووٹ ملے تھے جب کہ عمر عبد اللہ کو کل 268339ووٹ ملے تھے، اور جموں کشمیر پی ڈی پی کے امیدوار فیاض احمد کو 27888 ووٹ ملے تھے ، دو ہزار انیس میں بارہ مولہ سے عمر عبد اللہ کی پارٹی نیشنل کانفرنس کے اکبر لون کامیاب ہوئے تھے اور اس سے قبل محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے مظفر حسین کامیاب ہوئے تھے،

 

*انجینئر رشید کی رہائی سے بی جے پی خوش اور کشمیر کی تینوں بڑی پارٹیاں ناراض*

انجینئر رشید دہشت گردی کی فنڈنگ ​​کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے

11 ستمبر 2024 کو، انہیں 2 اکتوبر تک عبوری ضمانت دی گئی، جس سے انہیں 2024 کے جموں اور کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے مہم چلانے کی اجازت دی گئی،

انجینئر رشید کی رہائی سے بی جے پی خوش ہے، جب کہ انڈین نیشنل کانگریس، جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈران انجینئر رشید کی رہائی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کا آلہ کار سمجھتے ہیں ،

انجینئر رشید بی جے پی کا آلہ کار ہوں یا نہ ہوں مگر ان کی رہائی سے بی جے پی اس لیے خوش ہے کہ انجینئر رشید جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا ووٹ کا ٹیں گے اور ان دونوں پارٹیوں کو کمزور کریں گے، اور اگر دو ہزار چودہ والی صورت حال ہوگئی اورانجینئر رشید نے اتنی نشستیں حاصل کرلیں کہ ان کے ساتھ مل کر بی جے پی حکومت بناسکے تو بی جے پی جموں کشمیر کی مذکورہ دونوں بڑی پارٹیوں کو نظر انداز کرکے انجینئر رشید کے ساتھ سمجھوتہ کرکے حکومت بناسکتی ہے، اس لیے کہ بی جے پی کو معلوم ہے کہ وہ صرف اپنے دم پر جموں کشمیر میں حکومت نہیں بناسکتی ہے اور وہ وہاں نئے حلیفوں کی تلاش میں ہے،

بی جے پی نے وادی کشمیر کی اٹھائیس نشستوں پر امیدوار نہیں اتارے ہیں اور ان ہی میں سے اکثر نشستوں پر انجینئر رشید کے حمایت یافتہ لوگ الیکشن لڑ رہے ہیں،

 

*جموں کشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ*

جموں کشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ وہاں کے لوگوں کا اپنے لیڈران پر اعتماد نہ کرنا ہے، وہاں ہر پانچ دس سال پر نئی پارٹی پرانی پارٹی کا کھیل بگاڑ کر اور مرکز سے سمجھوتہ کرکے حکومت میں شریک ہوتی ہے ، یہ کھیل انیس سو اڑتالیس سے چل رہا ہے،

 

 

*میرا ذاتی خیال*

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں تمام کشمیریوں کو انڈین نیشنل کانگریس، اور نیشنل کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک کو ہی ووٹ دینا چاہیے،

جماعت اسلامی نے انیس سو ستاسی سے دو ہزار چودہ تک کے اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں حصہ نہ لے کر اور اس کا بائیکاٹ کرکے سنگین غلطی کی تھی اور اب انجینئر رشید جیسے لوگوں کی حمایت کرکے دوسری بڑی غلطی کر رہی ہے،

 

تمام حضرات سے گذارش ہے کہ کشمیر اور وطن عزیز ہندوستان میں امن و سکون چاہنے والے اور تمام ہندوستانیوں کو یکساں حقوق دینے کی حمایت کرنے والوں کی کامیابی کی دعا کریں، اور ظالموں اور فتنہ پر وروں کی شرمناک ہزیمت کی دعا کریں –

Comments are closed.