آسام میں پولس فائرنگ میں دو نوجوانوں کی موت کا معاملہ: مولانا بدر الدین اجمل نے گورنر سے آسام کے وزیر اعلی کی برطرفی کا مطالبہ کیا

جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے وفد کی آسام کے ڈی جی پی سے ملاقات
نئی دہلی/ گوہاٹی(پریس ریلیز) آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر و سابق رکن پارلیمنٹ اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر حضرت مولانا بدر الدین اجمل صاحب آسام کے گورنر سے مطالبہ کیا ہے کہ آسام کے موجودہ وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کو جلد از جلد بر طرف کیا جائے کیوں کہ اس کے ظالمانہ، آمرانہ اور انسانیت کو پامال کرنے والے اقدام نیز فرقہ پرستی پر مبنی بیانات سے ریاست کا ماحول انتہائی زہر آلودہ ہو گیا ہے اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اعلی جیسے ایک آئینی عہدہ پر بیٹھا شخص ہمیشہ مسلمانوں کو ذلیل کرنے، ان کے آئینی حقوق کو پامال کرنے اور ان کے لئے پریشانی پیدا کرنے کی فراق میں رہتا ہے جو جمہوری اقدار کی توہین ہے لہذا اسے فورا بر طرف کیا جانا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسٹر سرماوزرات اعلی کی کرسی پر بنے رہنے کی اخلاقی اور جمہوری حیثیت کھو چکے ہیں، لہذا ان کو خود استعفی دے دینا چاہئے ورنہ گورنر صاحب سے میرا مطالبہ ہے کہ ان کو اس ذمہ سے بری کر دیا جائے ۔مولانا اجمل نے یہ مطالبہ آسام کے وزیر اعلی کے اُس بیان کے پس منظر میں کہی ہے جس میں وزیر اعلی نے کامروپ ضلع میں پولس کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے افراد کے اہل خانہ نیر زخمیوں کو سخت کاروائی کی دھمکی دی تھی۔ نیز جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے وفد کی آنکھوں دیکھی رپورٹ نے وہاں کے ظلم وبربریت کی داستان بیان کی ہے۔در اصل مولانا اجمل نے جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے ناظم اعلیٰ حافظ بشیر احمد قاسمی اور جمعیۃ علماء آسام کے سیکریٹری و ایم ایل اے ڈاکٹر حافظ مولانا رفیق الاسلام کی زیر قیادت جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے ایک مؤقر وفد کو ہدایت دی تھی کو آسام کے کامروپ ضلع میں سوناپور میں واقع کوچوٹولی گائوں کا دورہ کرے اور رپورٹ پیش کرے۔یہ وہ گائوں ہے جہاں گزشتہ 12 ستمبر کو ہوئی پولس فائرنگ میں دو مسلم نوجوان ہلاک ہو گئے جبکہ درجنوں لوگ زخمی ہو گئے جو ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب وہاں کی انتظامیہ ان لوگوں کے گھروں پر بلدوزر چلا رہے تھے جہاں وہ سیلاب میں اپنا سب کچھ کھونے کے بعد برسوں پہلے پناہ لئے تھے، مگر اچانک سے انتظامیہ نے ان کے گھروں کو مسمار کردیا بغیر کسی متبادل جگہ مہیا کرائے ہوئے۔ اسی ظالمانہ کاروائی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولس نے اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی ۔مگر افسوس کہ اس وفدکو جائے حادثہ تک نہیں جانے دیا گیا ۔بہر حال وفد نے ہسپتال میں زیر علاج زخمیوں سے ملاقات کی، ان کے حالات جانے، ان کو تسلی دی، پھر یہ وفد آسام کے ڈائرکٹر جنرل آف پولس (ڈی جی پی) سے ملا قا ت کرکے میمورنڈم پیش کیا جس میں متأثرین کی تکالیف سے آگاہ کیا نیز ان پر ہوئے ظلم کے خلاف احتجاج درج کرایا۔ اس کے بعد وفد نے ان سب حالات کے متعلق آسام کے محترم گورنر کو بذریعہ ایمیل میمورنڈم بھیجکر آگاہ کیا۔وفد نے پایا کہ یہ eviction غیر مناسب اور غیر قانونی طریقہ سے کیا گیا ہے ۔پولیس کی طرف سے نہتے شہریوں پر فائرنگ کی گئی جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے ، اس واقعہ سے پورے گاؤں والوں میں بے پناہ خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔یہ معاملہ ریاستی حکومت کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ کاروائی کی عکاسی کرتاہے۔ متأثرین فی الحال بے گھر ہیں اور صدمہ کی حالت میں ہیں، ان کے پاس پناہ لینے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، چنانچہ کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے، پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آسام کی صوبائی سرکار نے انتہائی ظالمانہ اوربالکل غیر قانونی اور غیر انسانی طریقے سے ان غریبوں کا eviction کیا ہے۔جمعیۃ علماء آسام نے گورنر صاحب سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملہ میں مداخلت کرکے مندرجہ ذیل اقدام کو یقینی بنائیں (۱) پورے حادثہ کی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی زیر قیادت جوڈیشیل انکوائری کرائی جائے ،(۲)پولیس فائرنگ میں مارے گئے لوگوں کے اہل خانہ کو نیز زخمی ہونے والے افراد کو مناسب معاوضہ دیا جائے، (۳) ، خاطی پولس اہلکاروں کو سزا دی جائے،(۴)اجاڑے گئے لوگوںکے لئے ریلیف کا فوری انتظام کیا جائے نیز ان کی باضابطہ بازآبادکاری کی جائے، (۵) علاج ،دوا،پانی اور کھانے کا سامان متأثرین تک پہونچانے کا فوری انتظام کیا جائے ،(۵) آئندہ کسی بھی سرکاری زمین پرمجبوری میںبسنے والوں سے زمین خالی کرانے سے پہلے ان کے لئے متبادل سکونت کا معقول انتظام کیا جائے۔

Comments are closed.