اپنی اوقاف کی زمینوں کا سروے پوری بیداری سے کرائیں: مولانا انیس الرحمن قاسمی

مجوزہ وقف بل مسلمانوں پر کھلا ہوا ظلم ہے : مفتی محمد نافع عارفی
رفیع گنج اورنگ آباد میں آل انڈیا ملی کونسل بہار کے زیر اہتمام وقف کانفرنس میں علماء و دانشوران نے وقف بل 2024 کو یکسر مسترد کیا
رفیع گنج، اورنگ آباد(پریس ریلیز)
آل انڈیا ملی کونسل بہار کے زیر اہتمام ہوٹل حیات ، عماد پور ، رفیع گنج ، ضلع اورنگ آباد میں ملی کونسل کے قومی نائب صدر حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کی صدارت میں تحفظ وقف کے موضوع پر وقف کانفرنس کا انعقاد ہوا ، جس میں علاقہ کے علماء ، دانشوران اور سماجی و سیاسی نمائندوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی ۔ اپنے کلیدی خطاب میں حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب نے وقف ترمیمی بل 2024 کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت وقف ایکٹ 1995ء میں ترمیم کر کے اوقاف کی اراضی اور جائیداد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے مسلمانوں کو وقف کے فوائد اور منافع سے محروم کرنا اس کا مقصد ہے، جو دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے، اس لیے یہ بل مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ترمیمی بل کو فوری طور پر واپس لے، کیوں کہ یہ بل تحفظ اوقاف کے لیے نہیں ہے بلکہ اوقاف کی جائیداد کو واقف کی منشاء کے خلاف دوسرے کاموں میں استعمال کی راہ ہموار کرتا ہے، جو ہمارے دین میں مداخلت ہے اور یہ مداخلت کسی بھی درجہ میں ہمیں منظور نہیں ہے۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ حکومت کی منشاء سب کے سامنے ظاہر ہو چکی ہے ، اس لیے اپنے اوقاف کی حفاظت کی کوشش ہمیں ہی کرنی ہے ، اس کے لیے جو بھی احتیاطی تدابیر ہو سکتی ہیں وہ کر لیا جائے تاکہ اگر زور زبردستی سے حکومت بل پاس بھی کرا لے تو ہم اپنے اوقاف اور شعائر اسلام کو بچا سکیں ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بہار میں سروے کا کام ہو رہا ہے ایسے میں مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زمین و جائیداد کے سروے کے ساتھ مساجد و مدارس، قبرستان، مسافر خانے، خانقاہوں، اداروں اور عید گاہ کی زمین کا سروے پوری بیداری کے ساتھ کرائیں اور رجسٹر 2میں اس کا اندراج وقف کی حیثیت سے کرائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی تمام وقف کردہ آراضی جورجسٹرڈ نہیں ہیں، ان کے واقف یا متولی حضرات اسے رجسٹرڈ لازماً کرائیں تاکہ مستقبل میں ان کی حفاظت ہو سکے۔
مولانا مفتی نافع عارفی کارگزار جنرل سکریٹری نے مجوزہ وقف ترمیمی بل کو مسلمانوں پر کھلا ہوا ظلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے کروڑوں مسلمانوں نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو اپنی رائے بھیج کر اس بل کی مخالفت کی ہے، اس لئے دستور ہند کے تحفظ، مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کے دفعات کو سامنے رکھتے ہوئے اسے حکومت واپس لے۔ ہم اسے پورے طور پر مسترد کرتے ہیں، اور ان تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جمہوری اقدار اور سیکولرزم کی حفاظت کے لئے مرکزی حکومت پر اسے واپس لینے کے لیے اپنے اثر و رسوخ اور اثرات کا استعمال کریں۔
جناب نجم الحسن نجمی صاحب رکن عاملہ آل انڈیا ملی کونسل نے کہا کہ وقف ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت نے مسلمانوں کی املاک کے تعلق سے اپنی گندی نیت ظاہرکی ہے، اوقاف کی جائیدادیں حکومت یا کسی کی نجی ملکیت نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے عطیات ہیں، اسی لیے مسلمان کسی قیمت پر اس نئے قانون کو منظور نہیں کریں گے جو ان املاک کو حکومت کی جھولی میں ڈالنے والا ہے ۔ ان حضرات کے علاوہ جناب پروفیسر ضیاء الدین صاحب سابق پرنسپل گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ و کنوینر ملی کونسل ساؤتھ بہار ، جناب شہزادہ شاہین مکھیا رفیع گنج اور انجینئر عالم صاحب نے بھی خطاب کیا اور ان حضرات نے اپنی تقریروں میں اس خدشہ کا اظہار کیا کہ مجوزہ بل اگر منظور ہوا تواس کے نتیجہ میں وقف کی شکل وصورت اور حیثیت ختم ہوجائے گی کیونکہ برسراقتدار جماعت اسے تباہ کرنا چاہتی ہے،حالانکہ وقف سے مستفید ہونے والوں میں بیوائیں، غریب، یتیم اور مساکین شامل ہیں۔ تاہم وقف جائیدادوں میں قبرستان، مساجد، درگاہیں، کربلا اور دیگر مذہبی مقامات شامل ہیں، جنہیں اس بل کی وجہ سے خطرہ لاحق ہوجائے گا۔اس کانفرنس کی نظامت جناب قیصر صاحب نے کی ۔ کانفرنس میں شریک تمام شرکاء نے بیک آواز اس بل کو مکمل طور پر مسترد کرنے کی تجویز منظور کی۔آخر میں صدر اجلاس کی دعا پر کانفرنس کا اختتام ہوا۔
Comments are closed.