متنازع وقف ترمیمی بل پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا موقف مسلمانانِ ہند کی نمائندگی کرنے والا ہے: مولانا بدرالدین اجمل

نئی دہلی: 21 ؍ستمبر (پریس ریلیز) آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر وسابق رکن پارلیمنٹ اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر مولانا بدر الدین اجمل نے متنازع وقف ترمیمی بل سے متعلق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کو مسلمانانِ ہند کی آواز اور ان سب کی نمائندگی کرنے والا قراردیتے ہوئے اس کی تائید کی ہے اورسرکار سے متنازع وقف ترمیمی بل کوواپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔مولانا نے متنازع وقف ترمیمی بل پر سرکار کے موقف کی حمایت کرنے والے ملت فروشوں کے گروہ سے لوگوں کو ہوشیار رہنے کی اپیل کی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، جنرل سیکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، رکن عاملہ ڈاکٹر سعود عالم قاسمی، بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس، اور بورڈ کے لیگل سیل کے نائب کنوینراڈووکیٹ ایم آر شمشاد پر مشتمل وفد نے جوائینٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے سامنے پیشی کے دوران مجوزہ وقف ترمیمی بل کی خامیوں کو واضح کیا نیز تقریبا 211 صفحات پر مشتمل دستاویز بھی پیش کیا جس میں وقف کی شرعی حیثیت اور مجوزہ بل سے ہونے والے نُقصانات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یقینا یہ انتہائی محنت اور عرق ریزی سے تیار کیا گیا ہوگا جس کے لئے پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔مولانا اجمل نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانانِ ہند کا متحدہ پلیٹ فارم ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی آواز پرکروڑوں مسلمانوں نے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی(جے پی سی) کو میل بھیج کر متنازع وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنا احتجاجی درج کرایا ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ الحمدلللہ مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء ہند سمیت دیگر ملی تنظیموںنے لوگوں میں وقف سے متعلق بیداری پیدا کر دی ہے اور مسلمانان ہند مجوزہ وقف ترمیمی بل کے پس پردہ منشاء سے واقف ہو چکی ہے، اسلئے ایسے حالات میںاگر سرکاری مراعات کی لالچ میں یا اپنے مفادات کی خاطر چند لوگوں پر مشتمل کوئی گروپ یا جماعت مسلمانوں کے متحدہ موقف سے بغاوت کرکے سرکار کی چمچہ گری کرتی ہے تو مسلمان اس سے بری ہیں۔مولانا نے یہ بھی کہا کہ وقف ترمیمی بل ان تمام سیاسی جماعتوں کے لئے بھی موقع امتحان ہے جو مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی ہیں اور ان کا خیر خواہ ہونے کا دعوی کرتی ہیں، اسلئے کہ اگر وقف ترمیمی بل کو مسترد کرنے میں انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی تو مسلمان بھی انہیں ریجیکٹ کر دیں گے۔مولانا نے کہا کہ وقف ایک خالص مذہبی معاملہ ہے، جس کے تمام امور اسلام میں تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں کہ اس کی کیا حیثیت ہے، اس کی کیا اہمیت ہے، اسے کہاں اور کیسے خرچ کیا جاسکتا ہے یا اسے کیسے استعمال میں لایاجاسکتا ہے اور اس کے انتظام و انصرام کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے، لہذا متنازع وقف ترمیمی بل کے ذریعہ وقف کی اسلامی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش، وقف کی جائداد کو ہڑپنے کے لئے راستہ ہموار کرنے کی سعی، اور وقف کے انتظام و انصرام میں دوسرے لوگوں کی شمولیت یہ سب مسلمانوں کے مذبی معاملات میں مداخت ہے اور ملک کے آئین میںدی گئی مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔اسلئے مسلم پرسنل لاء نے اس متنازع بل کو ریجیکٹ اور مسترد کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے وہی دراصل مسلمانانِ ہند کی آواز اور اس کی نمائندگی ہے۔
Comments are closed.