زوال امت: اسلامی نقطہ نظراوراسباب

مسعودمحبوب خان (ممبئی)
09422724040
اسلامی نقطۂ نظر سے قوموں کے زوال کے اسباب کو قرآن و سنّت کی روشنی میں سمجھنا نہایت اہم ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں متعدد بار ان اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے جو کسی قوم کے عروج و زوال کا باعث بنتے ہیں۔ ذیل میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قوموں کے زوال کے چند اہم اسباب کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جائے گی۔
ایمان اور اخلاقی تنزلی
ایمان اور اخلاقیات کسی بھی قوم کی کامیابی اور ترقی کے بنیادی ستون ہیں۔ اسلام میں ایمان کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں۔ جب کوئی قوم اپنے ایمان و عقیدے اور اللّٰہ کی ہدایت سے دور ہو جاتی ہے، تو وہ اپنے وجود کی بنیادی قوت سے محروم ہو جاتی ہے اور ان کے دلوں سے اللّٰہ کا خوف نکل جاتا ہے تو وہ روحانی اور اخلاقی طور پر کمزور ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک بار بار یہ درس دیتا ہے کہ جب لوگ اللّٰہ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اللّٰہ کا خوف کھو دیتے ہیں، تو وہ قوم اخلاقی، روحانی اور معاشرتی زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں بارہا ذکر آیا ہے کہ جب قومیں اللّٰہ کے احکامات کو نظر انداز کرتی ہیں اور ایمان میں کمزوری ظاہر کرتی ہیں، تو وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جیسے سورۃ الرعد میں فرمایا گیا:
"إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ”
(بے شک اللّٰہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قوموں کی ترقی یا زوال کا انحصار ان کے اعمال اور ایمان پر ہے۔
ایمان کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی اسلامی معاشرے کی بنیاد ہیں۔ عدل، صداقت، امانت داری، اور انصاف جیسے اصول معاشرے کی ترقی کے ضامن ہیں۔ جب کوئی قوم ان اخلاقی اقدار سے دور ہو جاتی ہے اور جھوٹ، فریب، اور ظلم جیسی برائیوں کو فروغ دیتی ہے، تو ان کا زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی اخلاقی پستی قوم کی تباہی کا آغاز ہوتی ہے، جو کہ تاریخ میں بارہا ثابت ہو چکی ہے۔ اخلاقی گراوٹ کسی قوم کے زوال کی بڑی نشانی ہوتی ہے۔
عدل و انصاف کا فقدان
عدل و انصاف اسلامی نظام کی بنیاد ہے۔ جب کوئی قوم عدل کے بجائے ظلم، جانبداری اور ناانصافی کا راستہ اختیار کرتی ہے تو وہ قوم اجتماعی طور پر کمزور ہو جاتی ہے۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا قول ہے: "حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم سے نہیں”۔ یہ قول اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ظلم کسی بھی قوم یا حکومت کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ظلم سے معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے، عوام کے دلوں میں بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور قوم کی اجتماعی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔
اسلامی تاریخ میں جو قومیں عدل و انصاف کے اصولوں سے روگردانی کرتی رہیں، وہ جلد ہی زوال کا شکار ہو گئیں۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ”
(اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو) (النساء: 58)۔ اس آیت میں عدل و انصاف کو لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ معاشرتی اور سیاسی نظام مضبوط رہے اور ہر شخص کو اس کا حق ملے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قوموں نے عدل و انصاف کو پس پشت ڈال کر ظلم، جانبداری اور ناانصافی کو فروغ دیا، وہ قومیں جلد ہی تباہی کا شکار ہوئیں۔ انصاف کا فقدان معاشرتی تفریق کو جنم دیتا ہے اور ایک ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جہاں ظلم اور فساد عام ہو جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب اس میں عدل کا قیام ہو اور ہر فرد کے ساتھ انصاف ہو، چاہے وہ کسی بھی طبقے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔
تعلیم و شعور کی کمیابی
اسلام نے علم کو فلاح اور ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے، اس وجہ سے اسلام میں علم کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے اور قرآن پاک کی پہلی وحی "اقْرَأْ” (پڑھ) اس بات کی واضح دلیل ہے کہ علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علم، شعور اور دانش ہی وہ راستے ہیں جو انسان کو فلاح، ترقی اور عزت کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب کوئی قوم علم و دانش سے منہ موڑ لیتی ہے اور جہالت کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے، تو وہ اپنی ترقی کی راہوں سے بھٹک جاتی ہے اور معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی لحاظ سے پیچھے رہ جاتی ہے۔ علمی اور فکری زوال قوموں کی ترقی کو روک دیتا ہے اور انہیں دوسروں کا محتاج بنا دیتا ہے۔
تعلیم اور شعور کی کمی قوموں کو کمزور بنا دیتی ہے اور انہیں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ جب لوگ علم سے محروم ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنی بنیادی ضروریات کے لیے دوسروں کے محتاج ہو جاتے ہیں بلکہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتے ہیں۔ اس سے قومیں اپنی خودمختاری اور طاقت کو کھو دیتی ہیں، اور ان پر استحصال اور غلامی کا سایہ چھا جاتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں علم اور تعلیم کو ہمیشہ اہمیت دی گئی۔ اسلامی تہذیب کے عروج کے دور میں مسلمان سائنس، طب، فلسفہ، ریاضی، اور دیگر علوم میں دنیا کے رہنما تھے۔ لیکن جب مسلمانوں نے تعلیم اور تحقیق کو نظر انداز کیا اور جہالت کی طرف رجوع کیا، تو ان کی علمی برتری ختم ہوگئی اور وہ زوال کا شکار ہو گئے۔ لہٰذا، کسی قوم کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم و شعور کو فروغ دے اور تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائے، کیونکہ تعلیم ہی وہ قوت ہے جو قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور انہیں دنیا میں ایک مقام دلانے کا سبب بنتی ہے۔
تقویٰ اور عبادات کا ترک
تقویٰ، یعنی اللّٰہ کا خوف اور اس کے احکامات کی پیروی، اسلامی زندگی کا بنیادی اصول ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے، اور دنیا کی فتنہ انگیزیوں سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔ جب کوئی قوم تقویٰ اور عبادات سے دور ہو جاتی ہے، تو وہ روحانی طور پر کمزور ہو جاتی ہے اور دنیاوی لذتوں اور خواہشات کے پیچھے بھٹکنے لگتی ہے۔ ایسی حالت میں قومیں نہ صرف اپنی روحانی طاقت کھو دیتی ہیں بلکہ اللّٰہ کی مدد اور رحمت سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔
نبی اکرمﷺ کا فرمان کہ "الدنیا مَلعونة، مَلعون ما فيها إلا ذِكرَ الله وما وَالاه” "دنیا اور اس کی ہر چیز ملعون ہے سوائے اللّٰہ کے ذکر اور اس کے ساتھ وابستہ چیزوں کے” اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ دنیاوی لذتیں اور مادی چیزیں فانی ہیں، اور ان میں الجھنا انسان کو اس کے اصل مقصد یعنی اللّٰہ کی رضا سے دور کر دیتا ہے۔
عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، بندے اور اللّٰہ کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتے ہیں۔ جب قومیں ان فرائض سے غفلت برتنے لگتی ہیں، تو وہ نہ صرف اپنے ایمان میں کمزور ہو جاتی ہیں بلکہ ان کی اجتماعی روحانیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ تقویٰ اور عبادات سے دوری معاشرتی، اخلاقی اور روحانی زوال کا سبب بنتی ہے، جس کے نتیجے میں قومیں دنیاوی طاقت اور عزت بھی کھو دیتی ہیں۔ عبادات سے دوری اور تقویٰ میں کمی قوموں کے زوال کا ایک بڑا سبب ہے۔
لہٰذا، تقویٰ اور عبادات کی پابندی کسی بھی قوم کے لیے نہ صرف روحانی بلکہ دنیاوی کامیابی کے لیے بھی لازم ہیں۔ جب تک ایک قوم اللّٰہ کے احکامات کی پیروی کرتی ہے اور اپنی عبادات میں استقامت اختیار کرتی ہے، اللّٰہ کی مدد اور برکت اس کے ساتھ رہتی ہے، اور وہ قوم دنیاوی چیلنجز کا بھی کامیابی سے سامنا کر سکتی ہے۔
فرقہ واریت اور انتشار
فرقہ بندی اور انتشار اسلام کی روح کے خلاف ہیں کیونکہ اسلام میں اتحاد اور اخوت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی واضح تعلیمات ہمیں بار بار یاد دلاتی ہیں کہ اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر تفرقہ سے بچنا چاہئے۔ فرقہ واریت اور انتشار نہ صرف مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرتے ہیں بلکہ انہیں اندرونی طور پر تقسیم کرکے دشمنوں کے لیے آسان شکار بنا دیتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں اتحاد اور باہمی تعاون کی بنیادی اہمیت ہے۔ قرآنِ مجید کی سورہ آل عمران کی آیت 103 میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”
(اور سب مل کر اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو)۔
اسی طرح رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا: "مومن ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے ایک حصّہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہوتا ہے” (صحیح بخاری)۔
یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ دنیاوی فلاح کا بھی ذریعہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں فرقہ بندی اور اختلافات کا زوال پر براہ راست اثر رہا ہے۔ خلفائے راشدین کے دور کے بعد مسلمانوں میں سیاسی اور مذہبی اختلافات بڑھتے چلے گئے، جس کے نتیجے میں مختلف فرقے اور گروہ وجود میں آئے۔ ان اختلافات نے نہ صرف مسلمانوں کو اندرونی طور پر کمزور کیا بلکہ دشمن طاقتوں کو مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اندلسی خلافت کا زوال اور عباسیوں کے دور میں داخلی خلفشار اس کی بڑی مثالیں ہیں، جہاں فرقہ وارانہ جھگڑوں نے عظیم اسلامی تہذیبوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔
آج بھی امت مسلمہ کو فرقہ واریت کا سامنا ہے۔ یہ داخلی انتشار مسلمانوں کو عالمی سطح پر کمزور بنا رہا ہے۔ دشمن قوتیں مسلمانوں کی اس تقسیم کا فائدہ اٹھا کر ان کے قدرتی وسائل اور سیاسی طاقت پر قابض ہو رہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، اور ان کا اتحاد ہی ان کی بقا اور کامیابی کا ضامن ہے۔ ہمیں فرقہ بندی اور اختلافات کو چھوڑ کر اسلامی اخوت، رواداری اور محبت کو فروغ دینا چاہئے تاکہ امت مسلمہ دوبارہ اپنے عظیم مقام کو حاصل کر سکے۔
جب کوئی قوم باہمی جھگڑوں، فرقہ بندیوں اور داخلی انتشار کا شکار ہو جاتی ہے، تو وہ اپنی قوت کھو دیتی ہے اور زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجوہات میں فرقہ واریت اور انتشار شامل ہیں۔ فرقہ واریت اور انتشار کے مقابلے میں ہمیں اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور قرآن و سنّت کی روشنی میں باہمی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس طرح ہی ہم اتحاد اور اخوت کی فضاء میں ترقی کر سکتے ہیں۔
دشمن سے غفلت اور تیاری کی کمی
اسلامی تعلیمات میں مسلمانوں کو نہ صرف روحانی بلکہ جسمانی طور پر بھی ہمیشہ تیار رہنے کی اور دفاعی و عسکری قوت مضبوط رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے دشمنوں سے غافل نہ ہوں اور محفوظ رہ سکیں۔ جب قومیں اپنے دشمنوں کی سازشوں سے غافل ہو جاتی ہیں اور جنگی تیاری میں کمی کرتی ہیں، تو دشمن ان پر حاوی ہو جاتا ہے۔ سورہ الانفال کی آیت 60 میں اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ:
"وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ”
(اور ان کے خلاف قوت جمع کرو جتنی تم سے ہو سکے)۔
یہ آیت مسلمانوں کو واضح طور پر یہ ہدایت دیتی ہے کہ وہ اپنی دفاعی قوت کو مضبوط بنائے رکھیں تاکہ دشمن کبھی ان پر حملہ آور نہ ہو سکے۔ جب قومیں اپنے دشمن کی چالوں اور سازشوں سے غافل ہو جاتی ہیں اور دفاعی تیاری میں کمی کرتی ہیں، تو دشمن کو حملہ کرنے اور غالب آنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں کئی مواقع پر مسلمانوں نے اپنی قوت کو نظر انداز کیا اور اس کا نتیجہ دشمن کی طرف سے شکست کی صورت میں نکلا۔ اندلس کی فتح کے بعد وہاں کے مسلمان اپنی سیاسی و عسکری کمزوریوں کی وجہ سے آخرکار وہاں سے نکالے گئے۔
اسلامی تاریخ میں بھی یہ حقیقت واضح ہے کہ دشمن ہمیشہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کی سازشیں کرتا رہا ہے۔ صلیبی جنگوں اور منگول حملوں کے دوران، مسلمانوں کے اتحاد اور عسکری تیاری کی کمی ان کی شکست کا سبب بنی۔ ان واقعات سے سبق ملتا ہے کہ کسی بھی دور میں دشمن سے غافل ہونا مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی فوجی، اقتصادی، اور سیاسی قوت کو مضبوط کریں تاکہ دشمن ان پر حاوی نہ ہو سکے۔ جنگی تیاری میں کمی ایک قوم کی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، اور دشمن کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔
آج بھی امت مسلمہ کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ دشمن طاقتیں ہمیشہ ان کی کمزوریوں کو ڈھونڈ رہی ہیں اور ان پر غلبہ پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کئی مسلم ممالک جنگوں، اقتصادی پابندیوں اور داخلی انتشار کا شکار ہیں، جو کہ تیاری کی کمی اور دشمن سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کو ہر دور میں اپنے دفاع کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ تیاری صرف عسکری میدان میں ہی نہیں بلکہ علم، ٹیکنالوجی، اور اقتصادی محاذ پر بھی ہونی چاہئے۔ جدید دنیا میں جو قومیں علم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہیں، وہی دفاعی اعتبار سے مضبوط ہیں۔
دشمن سے غفلت اور جنگی تیاری میں کمی مسلمانوں کے لئے زوال کا سبب بن سکتی ہے۔ قرآن و سنّت کی روشنی میں ہمیں ہمیشہ اپنی قوت کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنی حفاظت کر سکیں اور امت مسلمہ کو دنیا میں ایک مضبوط اور مستحکم مقام حاصل ہوسکے۔
دنیاوی لذتوں کا خمار
دنیاوی لذتوں میں غرق ہونا اور دنیا کی محبت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا وہ عمل ہے جس نے کئی قوموں کو زوال کی طرف دھکیل دیا۔ اسلامی تعلیمات میں واضح طور پر دنیاوی لذتوں کے پیچھے اندھا دھند دوڑنے کو ایک فانی اور نقصان دہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
"حب الدنیا رأس کل خطیئة”
(دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے)۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ جب انسان اپنی زندگی کا مقصد صرف دنیا کی لذتیں اور عیش و عشرت بنا لیتا ہے، تو وہ اپنے اصل مقصد، یعنی آخرت کی تیاری اور اللّٰہ کی رضا حاصل کرنے سے غافل ہو جاتا ہے۔
دنیاوی خواہشات میں مبتلا ہونا انسان کو اللّٰہ کی عبادت اور آخرت کی تیاری سے دور لے جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کی زندگی ایک آزمائش ہے اور آخرت کی زندگی ہی اصل اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ جب قومیں دنیاوی عیش و عشرت میں ڈوب جاتی ہیں اور اپنے اخلاقی و دینی اقدار کو پس پشت ڈال دیتی ہیں، تو وہ اپنی روحانی قوت کھو بیٹھتی ہیں۔ سورہ الحدید میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اعلموا أنما الحياة الدنيا لعب ولهو وزينة وتفاخر بينكم وتكاثر في الأموال والأولاد”
(جان لو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل تماشہ، زینت، آپس میں فخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش ہے)۔ یہ آیت اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ دنیا کی زندگی فانی اور دھوکہ دینے والی ہے، اور اگر اس کی لذتوں میں انسان محو ہو جائے تو وہ اپنے مقصد حیات سے دور ہو جاتا ہے۔
دنیاوی لذتیں عارضی ہیں اور ان کا پیچھا کرنا انسان کو ہمیشہ مطمئن نہیں کر سکتا۔ دنیا کی محبت انسان کو حسد، لالچ، اور دیگر گناہوں میں مبتلا کرتی ہے۔ یہ انسان کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے، دنیاوی مال و دولت کے لئے حق اور انصاف کو پس پشت ڈال دے، اور اللّٰہ کے احکامات کو نظر انداز کرے۔ کئی قومیں اور تہذیبیں دنیاوی لذتوں میں غرق ہو کر زوال پذیر ہوئیں۔ روم اور یونان کی عظیم تہذیبیں جب عیش و عشرت اور لذتوں میں مگن ہو گئیں، تو وہ اپنی داخلی طاقت کو کھو بیٹھیں اور دشمنوں کے لئے آسان شکار بن گئیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بھی ایسے مواقع دیکھنے کو ملے جب دولت اور دنیاوی عیش و عشرت نے انہیں اپنے مقاصد سے ہٹا دیا اور وہ سیاسی اور عسکری اعتبار سے کمزور ہوگئے۔
اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ دنیاوی زندگی فانی اور دھوکہ دینے والی ہے، اور اصل کامیابی آخرت کی تیاری میں ہے۔ ہمیں دنیا کے وسائل کا استعمال ضرور کرنا چاہئے، مگر ان کا مقصد اللّٰہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی ہونا چاہئے۔ دنیاوی لذتوں میں غرق ہونے کی بجائے انسان کو اپنی آخرت کے لئے عمل کرنا چاہئے۔ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
"دنیا میں ایسے رہو جیسے تم ایک مسافر ہو یا راستے سے گزرنے والے” (صحیح بخاری)۔
یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دنیا ہماری اصل منزل نہیں، بلکہ ایک عارضی جگہ ہے جہاں ہم تھوڑی دیر کے لئے ہیں اور آخرت کی تیاری ہمارا اصل مقصد ہے۔ دنیا کی محبت اور اس کی لذتوں میں غرق ہونا انسان کو زوال کی طرف لے جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہمیں اعتدال اور آخرت کی تیاری کا درس دیا گیا ہے۔ دنیاوی زندگی کی فانی لذتوں کی بجائے ہمیں اللّٰہ کی رضا، ایمان، اور نیک اعمال کی طرف راغب ہونا چاہئے تاکہ ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکیں۔ جب قومیں اپنی آخرت کو بھول کر دنیا کی فانی لذتوں میں محو ہو جاتی ہیں اور اپنے مقصد سے ہٹ جاتی ہیں، تو ان کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔
قیادت کی ناکامی
قیادت کا کردار کسی بھی قوم کی ترقی، استحکام اور زوال میں ایک اہم اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جب قوم کی قیادت صحیح راستے پر ہوتی ہے اور وہ انصاف، امانتداری، اور اخلاقی اصولوں کی پابند ہوتی ہے، تو قوم ترقی کرتی ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ اس کے برعکس، جب قیادت ظلم، ناانصافی، بدعنوانی، اور خود غرضی کا شکار ہو جاتی ہے، تو پوری قوم اجتماعی طور پر کمزور ہو جاتی ہے اور زوال کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔
قرآن مجید میں بارہا حکمرانوں اور قائدین کو انصاف کرنے، ظلم سے بچنے اور عوام کی خدمت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قیادت کی اصلاح نہ صرف ان کی ذاتی زندگیوں کا معاملہ ہے بلکہ پوری قوم کی بھلائی اور کامیابی کا دارومدار بھی اس پر ہوتا ہے۔
سورہ النساء میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِالْعَدْلِ”
(بیشک اللّٰہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچاؤ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو)
(النساء: 58)۔ یہ آیت حکمرانوں اور قائدین کے لئے ایک واضح حکم ہے کہ وہ امانتداری اور انصاف کے اصولوں پر عمل کریں۔ اگر قیادت ان اصولوں کی پابند ہو، تو قوم کامیابی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے، اور اگر قیادت ان اصولوں کو ترک کر دیتی ہے، تو قوم مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب قوموں کی قیادت نے اپنی ذمّہ داریوں سے غفلت برتی اور خود غرضی، ناانصافی، اور بدعنوانی میں مبتلا ہو گئی، تو اس کا نتیجہ ہمیشہ قوم کی تباہی اور زوال کی صورت میں نکلا۔ مثال کے طور پر، بنی اسرائیل کا زوال اس وقت شروع ہوا جب ان کے حکمرانوں اور علماء نے انصاف کا دامن چھوڑ دیا اور ظلم و فریب کی راہ اختیار کی۔ اندلس کی مسلم سلطنت کا زوال بھی اس وقت ہوا جب وہاں کی قیادت نے آپس میں اختلافات اور عیش و عشرت کی زندگی کو ترجیح دی۔
بدعنوانی اور ظلم کی قیادت معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کر دیتی ہے۔ جب حکمران انصاف کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگتے ہیں، تو معاشرے میں بدعنوانی، ظلم، اور ناانصافی عام ہو جاتی ہے۔ یہ ناانصافی لوگوں میں بے چینی، غصّہ، اور مایوسی پیدا کرتی ہے، جس کا نتیجہ قوم کے زوال کی صورت میں نکلتا ہے۔ سورہ ھود میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَتِلْكَ الْقُرَىٰ أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا”
(اور یہ بستیاں ہیں جنہیں ہم نے اس وقت تباہ کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا) (ہود: 100)۔ یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جب کسی قوم کے حکمران یا لوگ ظلم میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تو وہ تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے ایک مثالی قیادت کے چند اہم اصول درج ذیل ہیں:
قیادت کو ہر حال میں *انصاف* پر قائم رہنا چاہئے، چاہے معاملہ کسی دوست یا دشمن کا ہو۔ قیادت کو اپنے فرائض کو اللّٰہ کی *امانت* سمجھ کر ادا کرنا چاہئے اور کسی قسم کی بدعنوانی یا غفلت سے بچنا چاہئے۔ قیادت کا اصل مقصد *عوام کی خدمت* اور ان کی بہتری کے لئے کام کرنا ہونا چاہئے۔ ایک مثالی قیادت خود کو اللّٰہ اور عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتی ہے اور اپنے اعمال کا محاسبہ (*احتساب*) کرتی رہتی ہے۔
آج کے دور میں بھی کئی مسلم ممالک قیادت کی ناکامی اور بدعنوانی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے وہ اندرونی طور پر کمزور ہو گئے ہیں اور بیرونی طاقتیں ان پر غالب آ رہی ہیں۔ کئی حکمران اپنی قوم کی بہتری کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے قوم میں ناانصافی اور ظلم عام ہو گیا ہے۔ قوموں کو زوال سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ قیادت کو اسلامی اصولوں کے مطابق تیار کیا جائے اور انہیں امانتداری، انصاف، اور عوام کی خدمت کا درس دیا جائے۔ ایک مضبوط اور عادل قیادت قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے اور زوال سے بچا سکتی ہے۔ قیادت کی ناکامی ایک قوم کے زوال کا بڑا سبب بن سکتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، حکمرانوں کی اصلاح اور ان کے کردار کی درستگی پوری قوم کے استحکام اور فلاح کے لئے ضروری ہے۔ جب قیادت انصاف، امانتداری، اور عوام کی خدمت کے اصولوں پر قائم ہوتی ہے، تو قوم مضبوط ہوتی ہے اور ترقی کرتی ہے۔
دینی و دنیاوی امور میں عدم توازن
دینی اور دنیاوی معاملات میں عدم توازن قوموں کے زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ اسلام ایک ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جو انسان کو دنیاوی اور دینی کامیابی دونوں کا جامع نظریہ دیتا ہے۔ جب قومیں اپنے دینی و دنیاوی معاملات میں توازن برقرار نہیں رکھتیں، اور ان دونوں میں فرق کرنے لگتی ہیں، تو وہ نہ صرف روحانی بلکہ معاشرتی اور معاشی طور پر بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق دنیا اور آخرت کے معاملات کو ایک دوسرے کے ساتھ متوازن رکھنا ضروری ہے۔ دنیاوی زندگی میں مشغولیت اور دینی فرائض کی ادائیگی کے درمیان ایک ہم آہنگی قائم کرنا ہی انسان کی کامیابی کا ضامن ہے۔ قرآنِ مجید میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا”
(اور جو کچھ اللّٰہ نے تجھے دیا ہے اس میں آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں سے اپنا حصہ نہ بھول) (القصص: 77)۔ یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دنیاوی معاملات کو نظر انداز کرنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے، اور ان میں بھی دینی اصولوں کے مطابق حصّہ لینا ضروری ہے۔
جب قومیں دنیا کی محبت اور مال و دولت کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتی ہیں، تو ان میں دینی احساسات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ عبادات میں سستی، اخلاقی گراوٹ اور روحانی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ قومیں صرف مادی ترقی کو اپنی کامیابی سمجھنے لگتی ہیں، جب کہ آخرت کو بھلا بیٹھتی ہیں۔ دوسری طرف، جب قومیں دنیاوی ذمّہ داریوں کو چھوڑ کر صرف دینی معاملات پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، تو وہ پسماندگی اور غربت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ محنت اور جدوجہد کو چھوڑ کر صرف عبادات کی طرف مائل ہونے سے معاشرتی اور معاشی حالات خراب ہو جاتے ہیں۔
اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں توازن کی تعلیم دی ہے، تاکہ انسان دنیا میں کامیاب ہو اور آخرت میں بھی سرخرو ہو۔ رسول اللّٰہﷺ نے خود اپنی زندگی میں دنیاوی ذمّہ داریوں اور دینی فرائض کو ساتھ لے کر چلنے کا عملی نمونہ پیش کیا۔
"خیر الامور اوسطہا”
(بہترین کام وہ ہیں جو درمیانہ ہیں)۔ یہ حدیث اسلامی طرز زندگی میں توازن کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ دینی اور دنیاوی معاملات میں توازن قائم رکھنا اسلامی تعلیمات کا بنیادی حصّہ ہے۔ جب قومیں ان میں سے کسی ایک کو نظر انداز کرتی ہیں، تو ان کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ دنیاوی کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دینی فرائض کی ادائیگی بھی ضروری ہے تاکہ ایک مکمل اور متوازن زندگی گزاری جا سکے۔
دعوت و تبلیغ سے غفلت
اسلام میں دعوت و تبلیغ کو ایک اہم فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ جب قومیں اپنی دینی ذمّہ داریوں سے غافل ہو کر دین کی تبلیغ اور اصلاح کا کام چھوڑ دیتی ہیں تو ان کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی سیرت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دعوت و تبلیغ میں ثابت قدم رہنا اور دین کے پیغام کو عام کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ مسلمان خیر کی دعوت دینے والے بنیں اور نیکی کی طرف بلائیں:
"وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ”
(اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو نیکی کی دعوت دے، بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے) (آل عمران: 104)۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے جس کا مقصد انسانیت کو سیدھے راستے کی طرف بلانا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین کی تعلیمات کو عام کرنا اور انسانیت کو ہدایت کے راستے پر چلانا امت مسلمہ کی بنیادی ذمّہ داری ہے۔ نبیﷺ نے اپنی پوری زندگی لوگوں کو اللّٰہ کی طرف بلانے میں صرف کی۔
جب قومیں دعوت و تبلیغ کے فریضے سے غافل ہو جاتی ہیں تو ان کے اندر دینی شعور کمزور پڑ جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو اپنانے اور دوسروں تک پہنچانے کی بجائے وہ دنیاوی معاملات میں مشغول ہو جاتی ہیں، جس سے ان کا اخلاقی اور روحانی زوال شروع ہو جاتا ہے۔ جب معاشرے میں نیکی کی دعوت دینے والا کوئی نہیں رہتا اور برائیوں سے روکنے کی کوشش نہیں کی جاتی، تو برائیاں بڑھنے لگتی ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں دین کی طرف بلانے والے نہ ہوں، وہاں ناانصافی، ظلم، اور بے حیائی عام ہو جاتی ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام چھوڑنے سے امت مسلمہ کی اجتماعی قوت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کا فروغ ہی امت کو متحد رکھ سکتا ہے، لیکن جب یہ کام چھوڑ دیا جاتا ہے تو فرقہ واریت اور اندرونی اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔
رسول اللّٰہﷺ کی زندگی دعوت و تبلیغ کا عملی نمونہ ہے۔ مکہ میں ابتدائی دعوت سے لے کر مدینہ کی ریاست کے قیام تک، آپﷺ نے ہر موقع پر دین اسلام کی دعوت دی اور مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہے۔ آپﷺ نے فرمایا: "بلغوا عني ولو آية”، (میری طرف سے پیغام پہنچاؤ، چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو)۔ یہ حدیث مسلمانوں کو یہ نصیحت کرتی ہے کہ وہ دین کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے میں کبھی غافل نہ ہوں۔
دعوت و تبلیغ مسلمانوں کی اجتماعی ذمّہ داری ہے، اور اس سے غفلت قوم کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔ قومیں جب اپنی دینی ذمّہ داریوں سے غافل ہو جاتی ہیں اور دین کی تعلیمات کو عام کرنے کا فریضہ ترک کر دیتی ہیں، تو ان کا روحانی اور معاشرتی زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق دعوت و تبلیغ کو جاری رکھنا اور دین کو عام کرنا ایک لازمی فریضہ ہے تاکہ امت مسلمہ اپنی اصل بنیادوں پر قائم رہ سکے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے قوموں کے زوال کے اسباب میں ایمان کی کمزوری، عدل و انصاف کا فقدان، فرقہ واریت، قیادت کی ناکامی، اخلاقی زوال، اور دنیا کی محبت جیسے عوامل شامل ہیں۔ ان تمام اسباب سے بچنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے قوموں کو قرآن و سنّت کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو منظم کرنا ضروری ہے۔ جب تک قومیں اللّٰہ کی رضا اور اسلامی اصولوں کو اپنائے رکھیں گی، ان کی ترقی اور عروج یقینی ہوگا۔
Comments are closed.