دین دار انجمن کی حقیقت

 

مولانا حکیم محمود احمدخاں دریابادی

رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

پچھلے کچھ دنوں سے عیسائی عبادت گاہوں پر حملے کے سلسلے میں ”دیندار انجمن “ کانام بار بار اخبارات والکٹرانک میڈیا میں آرہاہے ، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی مسلمانوں کی انجمن ہے اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو مطعون بھی کرتے ہیں، ہم پوری ذمہ داری سے حکومت اور میڈیا پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیںکہ یہ نام نہاد دیندار انجمن مسلمانوں کی انجمن نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ماننے والے مسلمان ہیں ۔ یہ قادیایانیت کی ایک شاخ ہے اور قادیانیوں کی تمام شاخوں کے متعلق پوری دنیا کے مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ لوگ مسلمان نہیں بلکہ اسلام سے خارج ہیں ، یہ فیصلہ مکہ مکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس منعقدہ۶/تا۱۰/اپریل ۱۹۷۴؁ء میں ہوچکا ہے جس میں پوری مسلم دنیا کے نمائندے موجود تھے ۔ اس لئے دیندار انجمن یا دیگر کسی قادیانی فرقے کی حرکتوں کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار نہ سمجھاجائے ، اور عیسائیوں پر حملے کے تمام ملزمین کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔

ذیل میں دیندار انجمن کے قادیانیوں سے رابطہ کی تفصیل ان کی کتابوں کے حوالے کے ساتھ ایک مختصر تمہید کے بعد دی جارہی ہے۔

سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ تمام مسلمانوں کے کچھ متفقہ بنیادی عقائد ہیں ،اُن میں توحید(خدا کو ایک ماننا) اور رسالت(محمدﷺ کو آخری نبی ماننا) سر فہرست ہیں، کوئی بھی جماعت یا فرد اگر ان میں سے ایک کا بھی انکار کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہ زمان ومکان کی تمام قیود سے پاک ومنزہ ہے نہ کوئی اس کے جیسا ہے اور نہ ہوسکتا ہے، اگرکوئی یہ دعوی کرے کہ خدااُس میں حلول کرگیاہے(معاذاللہ)، یاوہ دنیا میں خدا کا مثیل بن کر آیا ہے تو ایسا شخص اور اس کے ماننے والے مسلمان نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ اسے محمدﷺ کے بعد نبوت ورسالت سے نوازا گیا ہے یا وہ ظلی یا بروزی نبی ہے تو ایسا شخص اور اس کے ماننے والے یا اس کااحترام کرنے والے مسلمان نہیں رہیں گے۔

ریاست پنجاب ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں غلام احمدقادیانی نامی ایک شخص جو پنجاب کی کچہری میں ۱۸۶۴؁ء سے ۱۸۶۸؁ء تک ایک معمولی کلرک تھا ، وہاں اس کی ملاقاتیں انگریز حکام اور ان کے ایجنٹوں سے ہوتی تھیں، اُن ہی کی شہ پر اس نے ملازمت چھوڑکر ۱۸۸۰؁ء میں پہلے اپنے مجدد اسلام (جودین اسلام کو نئے سرے سے مضبوط کرے) اور محدث (جس سے اللہ خود کلام کرے) کا دعوی کیا، پھر۱۸۸۲؁ء میں مسیح موعود (حضرت عیسی علیہ السلام جو آخری زمانے میں نازل ہوں گے) ہونے کا دعوی کیا، ساتھ ہی اپنے کو ظلی نبی(نبی کی تمام صفات کاحامل ) بروزی نبی (نبی کااوتار) ہونے کا دعوی کیا ،پھر ۱۹۰۱؁ء میں اس نے مکمل نبی ہونے کا دعوی بھی کردیا ، نیز ۱۹۰۴؁ء میں اس نے ہندؤں کے اوتار کرشن ہونے کا بھی دعوی کیا(یہ تفصیلات مرزا قادیانی کےلڑکے مرزا بشیراحمد کی کتاب ”سلسلہ احمدیہ“ سے لی گئی ہیں)

مرزا قادیانی نے اپنے ماننے والوں کو جہاں اور بہت سے اسلام مخالف احکامات دئیے وہیں انگریز حکومت اور برطانوی سامراج کی مکمل حمایت کافرمان بھی جاری کیا۔ دراصل اس وقت آزادی ہند کے لئے مختلف تحریکیں چل رہی تھیں جن میں ہندو اور مسلمان مل کر حصہ لے رہے تھے ، ایسے وقت میں انگریزوں نے ضرورت محسوس کی کہ ایسے شخص کو کھڑا کیا جائے جو مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف جہاد کے جذبہ کوختم کردے اور ہندو مسلمانوں میں اختلاف بھی پیدا کرے، چنانچہ غلام احمد قادیانی نے جہاد کو قطعی حرام قرار دیا اور دل وجان سے انگریزی حکومت کی خدمت کرنے کی تلقین کی(تبلیغ رسالت ص۱۰ مولفہ مرزا قادیانی) ساتھ ہی ہندؤں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز اور زہریلی زبان میں رسالے اور پمفلٹ لکھنا شروع کئے جس سے ہندؤں کے جذبات مجروح ہوئے اور انھوں نے بھی اسی انداز میں جواب دینا شروع کیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کا متحدہ محاذ کمزور پڑتا گیا ، یہی انگریز بھی چاہتے تھے۔

دیندار انجمن کا بانی صدیق دیندار بھی اسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا ،۱۹۱۴؁ء سے ۱۹۲۲؁ء تک قادیانی جماعت کامبلغ رہا اور قادیانی مذہب کی اشاعت میں پوری لگن اور تندہی سے کوشاں رہا، قادیان کے دفتر سے اس کی محنت اور لگن کی تعریف بھی کی گئی (خادم خاتم النبیین ص۷۸اور دعوت الی اللہ ص۴۴مصنفہ صدیق دیندار)

زاہدصدیقی نامی دیندار انجمن کے سابق مبلغ (جو تائب ہوکر مسلمان ہوگئےتھے)نے اپنی کتاب ”ہندو اوتار“میں لکھا ہے کہ صدیق دیندار حیدرآباد کی ریاستی پولیس میں ہیڈکانسٹبل ہوکر گلبرگہ میں تعینات تھا ، کسی جرم کی پاداش میں معطل ہوگیا اور وقت گذاری کے لئے پیری مریدی شروع کی، اپنے آپ کو جنوبی ہندکے مشہور ہندوفرقہ لنگایت کا اوتار ظاہر کیا ، ۱۹۲۴؁ء میں دیندار انجمن قائم کرنے سے پہلے تک قادیانیت کی تبلیغ میں مصروف تھا ۔ مرزا قادیانی کے انتقال کے بعد اس کی جانشینی کے لئے اختلاف پیدا ہوا ، ایک گروپ خواجہ کمال الدین اور محمدعلی لاہوری کی قیادت میں الگ ہوگیا تو صدیق دیندار بھی منحرف گروپ میں شامل ہوگیا اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزاقادیانی کےلڑکے مرزا محمود کی شدید مخالفت شروع کی، بعد میں اس نے خود ہی مختلف دعوے کرکے ایک نئے قادیانی فرقے کی بنیاد ڈالی۔

مرزاقادیانی نے ۱۸۸۶؁ء میں ایک پیشین گوئی کی تھی کہ اس کو ایک لڑکا پیدا ہوگا جو ایسی عظیم صفات کاحامل ہوگا جیسے اللہ خود آسمان سے اتر آیاہو(معاذاللہ) یہ پیشین گوئی مرزاقادیانی کے لئے خود زبردست خفت اور سبکی کا باعث ہوئی ، کیونکہ اس پیشین گوئی کے بعد اس کو لڑکے کے بجائے لڑکی پیدا ہوئی ، پھر ۷/اگست ۱۸۸۷؁ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا جسے مرزا نے وہی پسر موعود قرار دیا، مگر سال بھر بعد ہی وہ لڑکا انتقال کرگیا ، پھر ۱۴/جون ۱۸۹۹؁ء کو ایک اور لڑکا پیدا ہوا جس کو مرزا نے ایک بار پھر پسرموعود قرار دیا ، وہ لڑکا بھی بچپن میں انتقال کرگیا ، بالآخر مرزاقادیانی نے خفت مٹانے کے لئے مرزامحمود جس کی پیدائش پیشین گوئی سے پہلے ہی ہوچکی تھی کو پسرموعود قرار دیدیا۔

صدیق دیندار چونکہ یہ ساری کارستانیاں جانتا تھا اس لئے اس نے خود دعوی کردیا کہ مرزا غلام قادیانی کا پسرموعود مرزامحمود نہیں ہے بلکہ مَیں ہوں ، جس طرح خود مرزا صاحب استعارے کے رنگ میں حاملہ ہوکر ابن مریم ہوگئے تھے مَیں بھی اسی طرح پسرموعود بنا ہوں ،(خادم خاتم النبیین ص۱۸) اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں قادیانی جماعت کے آپسی اختلاف کوختم کرنے کےلئے مبعوث ہواہوں اور بہت جلد پوری قادیانی جماعت مرزامحمود سمیت میری اتباع کرے گی (دیباچہ خادم خاتم النبیین ) مگر اس کی کوئی پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی۔

پھر صدیق دیندار نے دعوی کیا کہ میں اللہ کے نبی یوسفؑ کااوتار ہوں بلکہ چھ وجوہات کی بناپر یوسف سے افضل ہوں،(خادم خاتم النبیین ص۴۸) اس نے دعوی کیا کہ میں ہندؤں کا اوتار ”چن بشیشور“ ہوں ، صدیوں سے جس کی آمد کا ہندو انتظار کررہے تھے،(دعوت الی اللہ ص ۱۸) اس نے موسی علیہ السلام کے اوتار ہونے کابھی دعوی کیا (دعوت الی اللہ ص ۲۱)، اس نے کہا کہ اللہ تعالی نے مجھے ” پیران پیر، محمد، امام الغیب، صدیق، کلیم اللہ، مہدی آخرالزماں، دھن پتی، سری پتی، نبی کافرزند، موسی، سلیمان، عیسی، بی بی فاطمہ کالعل، اندرجیوتی ، کروناتھ، “ جیسے کئی نام دئیے ہیں ،(دعوت الی اللہ ص ۳۵) اس نے خود کو نبی کریمﷺ کی بعثت ثانی بتایا (مہرنبوت ص۵۶) اور بروزمحمد (محمدﷺ کا اوتار) ہونے کادعوی کیا (مہرنبوت ص ۴۳) اس نے دعوی کیا کہ میرے دربار میں (معاذاللہ) تمام انبیاء زانوئے ادب طے کرکے بیٹھتے ہیں(مہرنبوت ص۶۲) صدیق دیندار کے ایک اور مبلغ ابوالکلام کی کتاب” شمس الضحی“ ۔جس کی تقریظ خود صدیق دیندار نے لکھی ہے ۔میں کہاگیا ہے کہ صدیق دیندار رحمۃ للعلمین ہے (ص۷۸) قرآن کا نزول ثانی صدیق دیندار پر ہوا(ص۶) مقام محمود جس کا نبی کریمﷺ سے وعدہ کیاگیاتھا اس سے صدیق دیندار کا مقام مراد ہے ، نیز نماز میں السلام علیک ایھاالنبی سے صدیق دیندار کو مراد لیا جاتا ہے(ص۳۰۔۳۱) صدیق دیندار قیامت کامالک اور شافع محشر ہوگا (ص۷۶)

صدیق دیندار کی پشت پر ایک پھولاہوا غدود تھا نیز ہاتھوں پر بھی کچھ نشان تھے جن کے بارے میں اس نے دعوی کیا کہ میری پیٹھ پر سانپ کے سرکانشان اور ہاتھ میں سنکھ ، بیل اور چکر کے نشانات ہیں جو میرے اللہ کی طرف سے مبعوث ہونے کی مہر اور معجزہ ہیں ، اپنی پشت اور بازؤوں کی تصویریں بھی اس نے اپنی ایک کتاب میں چھاپی ہیں ۔

صدیق دیندار نے اللہ کے مظہر ہونے کابھی دعوی کیا اور کہا کہ اس کی خانقاہ ”خانقاہ سرورعالم “ جسے ”جگت گرو آشرم“بھی کہتے ہیں(سرورعالم اور جگت گرو سے دیندار ہی مراد لیاجاتا ہے) کی حاضری سب سے بڑی نعمت ہے ، یہاں اللہ نے واجب الوجود سے صدیق دیندار رحمت للعلمین کی صورت اختیار کرلی ہے(دعوت الی اللہ ص۹۴۔معراج المؤمنین ص۴۱) صدیق دیندار کاکہناتھا کہ اس کی خانقاہ میں انبیاء تیار ہوتے ہیں کوئی نوح ہے کوئی ابراہیم کوئی یحیی ہے کوئی نارو ، کوئی کرشن ہے کوئی کنھیا۔(دعوت الی اللہ ص۳) ۔

یہ ہیں دیندار انجمن کے بانی کے مختصرحالات اور عقائد، جس طرح وہ پہلے قادیانی ہوا پھر مہدی آخرالزماں ، یوسف اور کئی انبیاء کے مثل ہونے کامدعی ہوا، نیز بروز اور عین محمد ﷺ اور آخر میں مظہرخدا ، مالک حشر، قاضی محشر اور انبیاء کے حاکم جیسی خدائی صفات سے متصف ہونے کادعوی کیا، ان سب کی بناپر بلاکسی شک وشبہ کے کہا جاسکتاہےکہ وہ اور اس کے ماننے والے قطعاً مسلمان نہیں ہیں، ان کو مسلمان کہنا تمام مسلمانوں کی دل آزاری کرناہے۔

آخرمیں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرناضروری ہے کہ کہ دیندار انجمن کے لوگ اس سے پہلے بھی مبینہ طور پر تخریب میں ملوث رہ چکے ہیں ، چنانچہ ان کے سابق مبلغ ابوالکلام نے لکھا ہےکہ تقسیم ہند اور حیدرآبادکی آزادی کے بعد اس جماعت کے لوگ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی میں ملوث رہے ہیں، عوام نے اس وقت بھی ان کی حرکتوں کا ذمہ دار مسلمانوں کو سمجھا تھا۔قاسم رضوی صاحب کے دور حکومت میں ان پر پابندی بھی لگ چکی ہے (شمس الضحی ص۱۰۳) اور زاہد صدیقی صاحب کے مطابق صدیق دیندار کی وصیت ہے کہ مخالفت کرنے والوں کو چارمینار پر کھڑا کرکے گولی ماردینا(بحوالہ فاران کراچی فروری ۱۹۵۷؁ء)

ان تمام تفصیلات کوسامنے رکھ کر ایک بار پھر کہاجاتاہے کہ یہ لوگ قطعاً مسلمان نہیں ،اور اسلام میں قتل وغارت گری کی بالکل اجازت نہیں ، جولوگ ایسا کررہے ہیں حکومت کافرض ہے کہ ان کے خلاف سخت کاروائی کرے اور آئندہ سے اس جماعت کو مسلمانوں کی جماعت کہنے کاسلسلہ بند کیا جائے۔

Comments are closed.