وقف ترمیمی بل غیر آئینی بل ہے، اوقاف کا تحفظ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

مرکز تحفظ اسلام ہند کے ”تحفظ اوقاف کانفرنس“سے مولانا الیاس بھٹکلی، مولانا مقصود عمران رشادی، مولانا زین العابدین رشادی، مولانا انیس الرحمٰن قاسمی کے خطابات
بنگلور، 26/ ستمبر (پریس ریلیز) مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد عظیم الشان”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کی پہلی نشست سے خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کا مسئلہ خالص دینی و ملی مسئلہ ہے، بظاہر یہ زمینوں اور تعمیرات کا مسئلہ لگتا ہے لیکن درحقیقت یہ ہمارے ملی وجود سے جڑا ہوا مسئلہ ہے، یہی وجہ ہیکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملک کے تمام ملی و سماجی تنظیمیں اور جماعتیں اوقاف کی حفاظت کیلئے کوشاں ہیں اور اس مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024ء کی مخالفت کررہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ یہ وقف ترمیمی بل اگر وہ پاس ہو گیا تو اس سے ہمارے مساجد، مدارس، درگاہ، خانقاہ، امام باڑے اور قبرستان سب خطرے میں آجائیں گے، مسلمانوں کی وقف کی ہوئی زمین مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ مولانا ندوی نے فرمایا کہ یہ بل مسلمانوں کے وقف کی جائیداد کو ہڑپنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے بل کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بل کے ذریعے وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو بھی شامل کیا گیا ہے اوروقف جائیدادوں کے تنازع کے معاملات میں اب وقف ٹریبونل کے بجائے پورا کا پورا اختیار کلکٹر کو دینے کی تجویز رکھی گئی ہے، جو بہت تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ وقف ترمیمی بل کے ذریعے سرکار وقف پراپرٹی کو قبضہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ چونکہ وقف کا معاملہ خالص اسلامی اور مذہبی معاملہ ہے، اور وقف ترمیمی بل نہ صرف قانون شریعت سے متصادم ہے بلکہ آئین مخالف بھی ہے، لہٰذا وقف قانون میں ترمیمات کیلئے بل لانا مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت ہے، جو درست نہیں ہے۔مولانا نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آئے اور بل کو واپس لے اور پوری ملت سے اپیل کی کہ وہ اپنے مذہبی تشخص اور اپنے ملی وجود اوقاف کے تحفظ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔
تحفظ اوقاف کانفرنس کی دوسری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جامع مسجد سٹی بنگلور کے امام و خطیب حضرت مولانا محمد مقصود عمران رشادی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف کے معاملے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔ حکومت وقف ترمیمی بل لاکر مسلمانوں کو انہی کی جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت وقف کی املاک پر قبضہ کرنے کے لیے لایا جا رہا ہے جو مسلمانوں کی دینی اور تاریخی وراثت ہیں۔ مولانا نے وقف ترمیمی بل کو منسوخ کروانے کیلئے ملک گیر سطح پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور اکابرین ملت کی جانب سے جو تحریک چلائی گئی، اس میں مسلمانوں کو اپنے باہمی اختلافات کو بھلاکر متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا اور اس بل کو واپس لینے کیلئے حکومت پر دباؤ بنانا ہوگا۔ مولانا رشادی نے اپوزیشن اور انصاف پسند پارٹیوں سے درخواست کی کہ پارلیمنٹ میں اس بل کی مخالفت کریں۔
تحفظ اوقاف کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم شاہ ولی اللہ کے مہتمم حضرت مولانا محمد زین العابدین رشادی و مظاہری صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ وقف املاک اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کی طرف سے اللہ کی رضا کے لیے وقف کی گئی ہیں اور ایسی کوئی بھی قانون سازی جو اس کی حیثیت کو کم کرے یا مسلمانوں کے شرعی و دینی معاملات میں مداخلت کا سبب ہو، ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ مولانا نے فرمایا کہ اللہ کی ملکیت وقف کی حفاظت ہر ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے جو اس وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے۔
تحفظ اوقاف کانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن عاملہ وآل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر حضرت مولانا انیس الرحمٰن قاسمی صاحب مدظلہ نے فرمایا کہ اسلام کے امتیازات وخصوصیات میں سے ایک وقف بھی ہے۔ وقف اللہ کی ملکیت ہے اور اس کا تحفظ اللہ کے بندوں پر فرض ہے، ہندوستان میں اوقاف کی بڑی جائدادیں ہیں،جن پر حکومت کی بُری نظر ہے۔ وقف ترمیمی بل 2024ء کی شقیں قابل اعتراض ہیں جو قانون شریعت سے متصادم بھی ہیں اور وقف املاک کے لیے خطرناک بھی۔ یہ بات واضح ہے کہ مرکزی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، وہ مسلمانوں کی جائیداد پر اپنا تسلط چاہتی ہے اور سرمایہ داروں کے لیے چور دروازہ کھولنا چاہتی ہے جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی موقوفہ جائیداد کو ہڑپ لیں گے، نیز اگر یہ بل قانون بنتا ہے تو ان لوگوں کو بھی موقوفہ جائیدادوں پر قبضہ جمانے کا بھرپور موقع ملے گا جو وقف کی جائیدادوں پر قابض ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ حکومت قانون سازی کے ذریعہ اوقاف کی جائدادوں کو ہڑپنے کی ناپاک کوشش کر رہی ہے، اگر وقف ترمیمی بل 2024ء قانون کی شکل اختیار کرتا ہے تو ملک کی ہزاروں مسجدیں، قبرستان، امام باڑے، خانقاہیں، مدرسے وغیرہ کا تحفظ مشکل ہو جا ئے گا۔ یہ بل اوقاف کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا بہانہ ہے اور یہ بل سراسر شریعت اسلامی کے وقف قانون اور خود ہندوستان کے بنیادی حقوق سے متعلق قوانین کے خلاف ہے، جس کی پُرزور مخالفت ہونی چاہیے اوراحتجاج اس پیمانے پر ہوکہ مرکزی حکومت اس بل کو پاس نہ کراسکے اورواپس لینے پر مجبور ہوجائے۔ قابل ذکر ہیکہ مرکز تحفظ اسلام ہند کے زیر اہتمام منعقد یہ عظیم الشان”تحفظ اوقاف کانفرنس“ مرکز کے ڈائریکٹرمحمد فرقان کی نگرانی اور مرکز کے رکن شوریٰ قاری عبد الرحمن الخبیر قاسمی کی زیر نظامت منعقد ہوئی، جبکہ کانفرنس کا آغازمرکزکے آرگنائز حافظ محمد حیات خان کی تلاوت اور رکن شوریٰ قاری محمد عمران کے نعتیہ اشعار سے ہوا۔ اس موقع پر تمام اکابرین نے مرکز تحفظ اسلام ہند کی خدمات کو سراہتے ہوئے خوب دعاؤں سے نوازا اور تحفظ اوقاف کانفرنس کے انعقاد پر مبارکبادی پیش کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔اختتام سے قبل مرکز کے ڈائریکٹرمحمد فرقان نے تمام اکابرین، حاضرین و ناظرین کا شکریہ ادا کیا اور اکابر علماء کی دعا سے کانفرنس کی دونوں نشستیں اختتام پذیر ہوئیں۔
Comments are closed.